ہماری پسماندگی کی وجہ انگریزی زبان نہیں
سابق وزیر اعظم عمران خان عموماً ابہام کا شکار رہتے تھے۔ اُن کے فیصلے، اُن کی تقریریں، اُن کی بے سوچی سمجھی سفارشات زیادہ تر جذباتی ہوتی تھیں۔ ابھی کچھ ماہ پہلے اُنہوں نے اپنے فرمودات میں پاکستان کی پسماندگی کی وجہ انگریزی زبان کو بتایا تھا۔ عمران خان یہ بھول گئے کہ اُنہوں نے جن زبانوں اور ملکوں کے نام اپنی تقریروں میں لئے ہیں، یہ کبھی بھی سامراج کے غلام نہیں رہے۔ پچھلے دِنوں اُنہوں نے تعلیمی شعبے میں بہتری لانے کے لئے دو پہلوؤں پر اپنی خواہشات کا اِظہار کیا تھا۔ پہلا یہ کہ اُردو زبان سرکاری محکموں، عدالتوں اور تعلیمی اِداروں میں رائج کی جائے اور دوسرا یہ کہ نصابِ تعلیم ہر طبقے کے سکول کا یکساں ہو۔ سابق وزیرِ اعظم نے اس خواہش کا اِظہار بغیر زمینی حقائق کو جانے کر دیا۔
وزیرِاعظم کی خواہشات خلوص پر مبنی تو ہو سکتی ہیں، لیکن حقیقت پر مبنی نہیں۔عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ جاپان، جرمنی، فرانس،چین اور رُوس میں ذریعہ تعلیم انگریزی نہیں ہے، لیکن پھر بھی سب سے زیادہ ایجادات، فنی تعلیم اور ٹیکنولوجیکل ترقی اِن ہی ممالک نے کی ہے۔ عمران خان کی تاریخ پر شائد اِتنی گہری نظر نہیں کہ سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر پس ماندہ قوموں پر جب سامراج مسلط ہوا تھا، وہاں اس سامراجی ملک کی زبان بھی رائج ہوئی تھی۔ برِصغیر میں انگریزی زبان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے داخل ہوئی۔ فرانس کی، ہالینڈکی، سپین کی، بیلجیم کی یا پرتگال کی تجارتی کمپنیاں جن جن ممالک میں گئیں وہیں اُن کی زبان رائج ہو گئی۔ جہاں بھی یہ توانا قومیں پہنچیں، وہاں اپنی انتظامی ضروریات اور عوام سے رابطہ رکھنے کے لئے اِن سامراجی کمپنیوں نے اپنی زبانیں اپنے مفتوحہ علاقوں کے عوام کی ضرورت بنا دیں۔ ہم جانتے ہیں کہ فاتح قومیں اپنے زیرِ اثر ممالک میں اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنا مذہب بھی رائج کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کالونئیل ازم کی بڑی دلچسپ اور دردناک تاریخ ہے۔ دراصل صنعتی اِنقلاب کے بعد استعماری نظام شروع ہوا تھا۔ یورپ کے ملکوں نے مشینیں ایجاد کر کے اپنی گھریلو صنعتوں کو کارخانوں کی شکل دے دی، جس کی وجہ سے پیداوار 10 گُنا بڑھ گئی۔ اِن کارخانوں کو چلانے کے لئے زیادہ خام مال کی ضرورت پڑی۔ اُس دور کے کارخانوں کو خام مال افریقہ، ایشیاء اور جنوبی امریکہ کے ممالک سے وافر اور سستے داموں مل سکتا تھا۔ خاص طور پر گنا، روئی، چائے، ریشم، گرم مصالے، تیل، جیُوٹ اور تعمیری قیمتی لکڑی(Timber)مثلاً آبنوس، ٹیک، ساگوان وغیرہ۔ اس کے علاوہ قیمتی دھاتیں اور Minerals بھی اِن ہی دو براعظموں میں قدرت نے فروانی سے پیدا کئے تھے۔
مغربی استعماراپنے ساتھ اپنا کلچر اور مذہب بھی لایا۔ سپین اور پرتگال آرتھوڈکس کے پیروکار تھے۔ اِن دونوں ملکوں نے مسیحی مذہب کو پھیلانے میں زیادہ جوش و خروش اور طاقت کا بھی استعمال کیا۔ لاطینی امریکہ کے تمام ممالک اب مکمل طور پر رومن کیتھولک ہیں اور اِن ممالک کی سرکاری اور تعلیمی زبانیں پرتگیزی اور سپینش ہیں۔ اِسی یورپ کی 3 استعماری طاقتوں، مثلاً (برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ) نے عیسائیت کو پھیلانے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ بھارت، اِنڈونیشیا، سری لنکا، ملائیشیاء برما وغیرہ اپنے اپنے مذاہب پر ابھی تک قائم ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ترکی اور فارسی بولنے والے مسلمانوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو یہ تمام زبانیں ہندی کے ساتھ گھل مِل کر اُردو زبان کی شکل اِختیار کر گئیں۔ عوام کی زبان تو اُردو بن گئی، لیکن درباری اور عدالتی نظام کی زبان فارسی ہی تھی۔ جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو اُردو عوامی رابطے اور لٹریچر کی زبان تو رہی، لیکن برطانوی کاروبار ِ حکومت کو چلانے کے لئے ہندوستانیوں کے لئے انگریزی کا سیکھنا ضروری ہو گیا۔ ہندوستان پر چونکہ انگریز نے قبضہ مسلمانوں کو شکست دے کر کیا تھا، اس لئے علماء نے مسلمانوں کو فرنگی زبان سے دُور رہنے کا فتویٰ دیا جس کی وجہ سے شمالی ہندوستان کے جذباتی مسلمان انگریز کی زبان اور اُس کے تعلیمی نظام سے 50 سال تک ناراض رہے،جس کی وجہ سے جدید علوم سیکھنے میں بھی ہم پیچھے رہ گئے۔
عدالتی اور سرکاری نظام کے لئے انگریزی زبان کا جاننا ضروری تھا۔ ہم نو آزاد شدہ ملکوں کو اپنے بچوں کو اپنے سابقہ کالونئیل مالکان کے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجنا ناگزیر ہوگیا۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ صرف اسی زبان کی قدر و قیمت ہوتی ہے جس کو بولنے والے تعلیم کے میدان میں سائنس،ایجادات، کھیلوں اور معاشیات میں ترقی کر چکے ہوں۔ جاپان، چین،امریکہ، روس اور یورپ نے ایک دوسرے کی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی نقل کی،پھر اسی نقل کو زیادہ ترقی یافتہ بنا کر کوئی بالکل ہی نئی ایجاد کر ڈالی۔ آہستہ آہستہ اِن ایجادات میں جو Terminology استعمال ہوئی یا پُرزوں کے نام دیئے گئے، وہ موجد ممالک کی اپنی زبانوں سے لئے گئے، لیکن اُن ملکوں نے ترجمے کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بنایا۔ مجھے یاد ہے کے آج سے 60 سال پہلے پاکستان اور بھارت نے بھی انگریزی کے ہر ٹیکنیکل لفظ کا نہایت ہی مشکل اور بیہودہ سا ترجمہ اردو اور ہندی میں کیا تھا۔ مقامی زبان میں تعلیم دینے کا مقصد یہ تھا کہ علم اور سائنس کے الفاظ غیر ملکی آقاؤں کی زبان میں نہ بولیں جائیں۔یہ ایک احمقانہ اور جذباتی فیصلہ تھا، جو عمران خان دھرانا چاہتے تھے۔ جب تک عربی زبان علم اور ایجادات کی زبان رہی، اس کی عربی Terminology کو تمام یورپ نے اپنایا۔ آج بھی 1000 سے زیادہ الفاظ، جو حساب، سرجری، کیمیا اور طبیعات میں استعمال ہوتے ہیں، اُن کی جڑیں عربی زبان سے حاصل کی گئی ہے۔ عرب جب جہالت اور غلامی میں دوبارہ ڈوب گئے تو غیر زبانوں کے الفاظ عربی زبان میں داخل ہونا شروع ہو گئے، مثلاً دوائیوں کے نام، جہازوں اور کاروں کے پرزوں کے نام، الیکٹرونک ٹیکنالوجی کے خصوصی نام۔
عمران خان ایک جذباتی حکمران تھے، اُردو میں تقریریں کرنے یا ذرائع تعلیم کو اُردو زبان میں رائج کرنے سے ہم پاکستانی عوام کیا سائنسدان پیدا کر سکیں گے؟آئی ٹی جو دنیا کا مستقبل ہے، کیا اُس کو ہم اُردو میں پڑھا سکتے ہیں؟ اگر پڑھائیں گے تو وہ مذاق ہی ہوگا۔ ترقی کرنے والی قوموں کی ذہن سازی خودبخود تشکیل ہو جاتی ہے۔ ہاں لیڈر کا ہونا ضروری ہے جو نوجوانوں میں آگے بڑھنے کا ولولہ پیدا کرے۔ عمران خان کو اللہ نے کرشماتی شخصیت دی ہے، اگر وہ اس کرشمے کو نوجوان نسل کی سوچ کو مثبت بنانے میں آزمائیں تو یہ پاکستان کی ب ڑی خدمت ہوگی۔ ماؤزے تنگ اپنی قوم کو ایک خاص حد سے آگے نہیں لے جا سکا،کیونکہ اُس کی سوچ بہت زیادہ نیشنلسٹ(Nationalist) تھی جس کی وجہ سے وہ باہر کی زبانوں (فرانسسی اور انگریزی)اور باہر کے علوم کو ناپسند کرتا تھا۔ اُس کی اس متعصبانہ سوچ سے نئے آنے والے چینی لیڈر متفق نہیں تھے۔ اُنہوں نے مغربی ملکوں کی زبان اور ٹیکنالوجی سے استعفادہ کیا اور آج چین میں انگریزی زبان سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد 26 کروڑ سے زیادہ ہے۔