سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 5

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 5
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 5

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تیرہ و تار جنگل کے قلب میں احساس ہوا کہ ایک ایک ساتھی چھوٹ گیا ہے ۔ اس نے گھوڑا ترچھا کر کے پیچھے دیکھا کہ ملکہ تو آرہی ہے لیکن پٹری بگڑ گئی ہے اور کابوں کے زاویئے خراب ہو گئے ہیں۔ چیل کے اس گھنے جنگل میں جہاں تک پہنچتے پہنچتے سورج کی کرنیں کالی ہو جاتی تھیں اس نے ملکہ کے جانور کو تھام لیا جو لگام کو ماننے سے انکار کر چکا تھا اور اسے اپنا سہارا دے کر اتار لیا اور ایک چٹان پر زین پوش بچھا کر ملکہ کو بٹھا دیا اور خود جانوروں کو باندھنے چلا ،وہ دونوں کہنیوں کے سہارے نیم دراز ہو کر ہانپ رہی تھی۔ اور وہ اس کے تمتمائے ہوئے چہرے پر لرزتے موتی گن رہا تھا۔
”اگر آپ حکم دیں تو میں گھوڑا اٹھا کر سواروں کو تلاش کر لاﺅں ۔“
”نہیں۔۔۔ہم پیاسے ہیں۔ “
”میں اس جنگل کے چپے چپے سے واقف ہوں۔ یہاں سے تھوڑی دور پر وہ چشمہ ہے جسے عرب ”جام بہشت “ کہتے ہیں۔ اگر آپ سوار ہوں تو۔ “
ملکہ نے گردن موڑ کر ان گھوڑوں کو دیکھا جو آگے پیچھے ہل ہل کر ہانپ رہے تھے۔ اس نے ملکہ کے گھوڑے کو چٹان کے پاس لگا دیا اور اپنا سہارا پیش کیا جو قبول کر لیا گیا۔ زین پوش اپنے گھوڑے کی گردن پر ڈال کر ملکہ کے گھوڑے کی راس پکڑ کر آہستہ آہستہ چلا، بھورے سرخ پتھروں کی کگاروں کے بیضوی اور قدرتی حوض میں پگھلی ہوئی ٹھنڈی چاندی کِل کِل کی آواز کے ساتھ بہہ رہی تھی۔ ایک اونچے پتھر کے کنارے ملکہ کو اتار کر اس نے گھوڑے باندھے اور سوچنے لگا کہ پانی کس طرح پلایا جائے۔ ملکہ اس کے ساتھ ساتھ چشمے کے اندر اگر گئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پانی بھر کر خود پی لیا۔ ملکہ اس کو کھڑی دیکھتی رہی۔ اس نے تیسری بار اپنے ہاتھوں میں پانی بھرا۔ ہاتھ اس کے سینے تک پہنچے تھے کہ ملکہ نے آگے جھک کر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔ ملکہ کے ہونٹوں کے لمس نے اس کے خون میں بجلیاں بھر دیں۔ وہ ہاتھوں میں پانی بھرتا رہا اور ملکہ پیتی رہی لیکن اس طرح کہ اس کے یا قوت کے مہین خاموش ہونٹ اس کے ہاتھوں میں ہوتے اور نیلم کی بولتی آنکھیں اس کی آنکھوں میں۔ ملکہ کے متعلق پہلی بار اس کے دل میں ایک آرزو پیدا ہوئی کہ قیامت تک وہ اس چشمے کے کنارے کھڑا رہے اور قیامت تک ملکہ اسی طرح پانی پیتی رہے۔ وہ صدیوں تک اسی طرح کھڑے رہتے کہ گھوڑے ہنہنا کر اچھلنے لگے ۔ ہرنوں کی چیخوں اور پرندوں کی چہچہاہٹ اور سنسنا ہٹ سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ جنگل کا بادشاہ اپنے حرم سے نکلا تھا اور دہشت کا ایک ایک ذرہ اس کی پیشوائی کی آواز سے دھڑک اٹھا تھا۔ ہراساں آفتاب اس کے سینے پر ڈھلک آیا۔ ملکہ کے خود کو کلغی اس کی ٹھڈی سے لگ گئی۔ پھر اس کی ڈھونڈتی ہوئی نظروں سے دیکھا کہ تھوڑی دور پر شاہانہ چال چلتا ہوا ان کی موجودگی سے بے نیاز شیر بائیں ہاتھ کی اونچی جھاڑیوں میںغروب ہوا چاہتا ہے۔ کوئی اور وقت ہوتا تو دمشق کے والی کا چہیتا ولی عہد اس فرصت کو غنیمت سمجھتا لیکن ان چند لمحوں میں وہ جوان ہو چکا تھا، مرد بن چکا تھا اور اپنے سینے سے لگی ہوئی عظیم الشان خاتون کی نگاہوں میں اعتبار حاصل کرنے کیلئے بڑے بڑے لشکروں سے ٹکرا سکتا تھا۔ اس نے ملکہ سے الگ ہو کر پھرتی اور قوت سے شیر پرنیزہ مار ا اور اسی لمحے گھسیٹ کر جھپٹا ۔ پہلو میں دھنسا ہوا نیزہ لئے اور دہاڑتا ہوا شیراس پر چڑھ آیا۔ ہر چند اس کے ہاتھوں میں اجنبی تلوار تھی لیکن تلوار تھی ۔ تھوڑی دیر میں شیر کا فیصلہ ہو گیا۔ لیکن اس طرح کہ قبا کی بائیں آستین اس کے خون سے لالہ کار ہو گئی۔ اس نے منجھے ہوئے شکاریوں کی طرح پورے حواس کے ساتھ اپنی خون آلود تلوار مردہ شیر کی گردن کے بالوں سے رگڑ کر صاف کی۔ اسی لمحے اس نے دیکھا کہ ملکہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے انگلیوں کے بیچ سے اسے دیکھ رہی ہے۔ پھر وہ تقریباً دوڑتی ہوئی آئیں اور اس کا خون دیکھ کر چیخ اٹھیں اور اس کے داہنے شانے پر جھول گئیں۔

                                                                                                                   سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . .چوتھی قسط
وہ سامنے کی چٹان پر بیٹھ گیا۔ملکہ اسے اپنے بے پناہ جسم کا سہارا دیئے ہوئے تھیں۔ ملکہ کا گھوڑا راسیں تڑاکر بھاگ چکا تھا۔ اس کا ابلق کھڑا تھا اور مردہ شیر کو دیکھ دیکھ کرہنہنار ہا تھا۔ اور پسینے میں ڈوبا ہوا اگلے پیروں کو پٹخ رہا تھا اور اس کے سامنے زرد ریشم کا زین پوش پڑا تھا ۔ وہ اٹھا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا گھوڑے کے پاس گیا۔ اس کی گردن تھپکی اور منہ چوما۔ پہلو میں کھڑی ہوئی ملکہ کو کنگھیوں سے دیکھ کر پھر منہ چوما اور جھک کر زین پوش اٹھا لیا۔ اپنی قبا کے نیچے لوہے کے کپڑوں کے سینہ بند کی جیب سے چقماق نکالا اور پتھر پر بیٹھ کر زین پوش کو چاک کر کے جلانے لگا۔ اب وہ تخت و تاج کی بلندی سے نیچے اترآئی تھیں۔ اپنے ہاتھوں سے قبا اتاری ۔ بازو پر خون سے چپکی ہوئی زیر جامے کی آستین اپنے خنجرسے چاک کی۔ زین پوش کے ایک ٹکڑے سے زخم صاف کیا ۔

جاری ہے