اگرچہ ہارتے جائیں مگر للکارتے جائیں
سقوطِ ڈھاکہ کو نصف صدی سے تین سال اوپر ہو گئے۔ ساتھ ہی بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ رہنما محمد یونس سے منسوب قدرے پاکستان نواز بیان کی شہ سُرخی پڑھ کر یہ سوال پھر سامنے آیا کہ دسمبر1971 ء کا واقعہ آخر رونما کیوں ہوا تھا؟ اِس موضوع پر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ، بی بی سی کے صحافی علی احمد خان کی خود نوشت ’جیون ایک کہانی‘ اور اب تک شائع شدہ دیگر مواد سے ہماری اُس وقت کی غیر حقیقت پسندانہ فوجی حکمت عملی اور اکثریتی رائے کو تسلیم نہ کرنے کی سیاسی غلطی پر روشنی تو پڑتی ہے۔ پھر بھی کیا ہمارے اب تک کے عسکری تجزیوں، صحافیانہ مطالعوں اور سوانحی تحریروں سے اُن حقائق کی پوری تصویر سامنے آ گئی جو جغرافیہ اور تار یخ دونوں کا رخ پھیر دینے والے ایک ہمہ گیر سقوط پر منتج ہوئے تھے؟ اِس پر آج کے نوجوان اپنی پرانی نسل سے کہہ سکتے ہیں: ’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۔‘
خود کو پرانی نسل میں شامل کروں تو میرے اعمال نامے کے اندراجات سیدھے سادے ہیں۔ یہی کہ آبائی شہر سیالکوٹ کے جناح اسلامیہ کالج کا طالب علم بی اے کا امتحان دے کر رزلٹ کے انتظار میں والدین کے پاس واہ کینٹ میں چھٹی گزار رہا ہے۔ ابھی معاشرہ ’بیکورڈ‘ ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں ممتحنوں کے پیچھے بھاگنے کا رواج نہیں۔ چنانچہ فارغ اوقات میں راولپنڈی صدر سے دو دو روپے میں خریدے گئے پیپر بیک ناول اور مقامی لائبریری سے حاصل کی گئیں رسالہ ’نقوش‘ والے محمد طفیل کی کتابیں (آپ، جناب، صاحب، محترم اور مکرم) ذوقِ مطالعہ کی تسکین کا سامان فراہم کر رہی ہیں۔ پسندیدہ شخصی خاکے، دل نشیں تحریری لہجہ اور نرم ملائم چھپائی، یہ سب ہے تو پر لطف۔ مگر محسوس ہوتا ہے جیسے جسم و جاں میں کیف و نشاط اور درد و کرب کی لہریں ایک ساتھ چل رہی ہوں۔
وجہ ہے راتوں کو اول اول براؤن آؤٹ، پھر بلیک آوٹ کا سلسلہ۔ ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں متعین غیر ملکی نامہ نگاروں کی صوبہ بدری، مصدقہ اور نیم مصدقہ ذرائع کی متضاد خبریں، افواہیں اور قیاس آرائیاں۔ ہمارے گھر کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے بی بی سی اور آل انڈیا ریڈیو لگانے پر پابندی لگا رکھی ہے، لیکن مَیں اور میرا بھائی بچ بچا کر دونوں اسٹیشن سُنتے ہیں۔ قوم کے یقین میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ اس لیے ریڈیو پاکستان کا سچ کچھ سمجھ میں آتا ہے، کچھ نہیں آتا۔ تب ایک شام نیوز ریڈر شکیل احمد کی آواز گونجتی ہے، مگر روایتی گھن گرج کے بغیر: ”ملک کے مشرقی محاذ پر لڑائی بند ہو گئی ہے اور بھارت کی فوجیں ایک معاہدے کے تحت ڈھاکہ شہر میں داخل ہو گئی ہیں۔“
اس مرحلے پر ذاتی اعمال نامہ کے اندراجات ختم ہو چکے۔ ہاں، حافظے کے البم میں، جنگ سے پہلے اور بعد کی کچھ تصویریں ابھی مدہم نہیں پڑیں۔ جیسے بچپن کا گروپ فوٹو جس میں تین بھائیوں کے سانولے مگر ہنس مُکھ چہرے ہیں۔ نام ہیں شاہ جہاں، غیاث اور معظم۔ دونوں چھوٹے بھائیوں کو، جو کرکٹ کے اچھے کھلاڑی ہیں، ہم واہ کے پرائمری اسکول نمبر 5 کے ساتھی ’گیا‘ اور ’مو جو‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ بڑا بھائی شاہ جہاں رعب داب کا پیکر ہے، اُس کے ساتھ کوئی فری نہیں ہو سکتا۔ اِسی البم میں ہمارے ہم جماعت سعید فٹ بالیا کی مسکراتی ہوئی شبیہ بھی ہے۔
یہیِں کہِیں ایک باریش بڑے میاں ہیں جن کی شکل مولانا عبدالحمیدبھاشانی سے ملتی ہے۔ ہمیں کھیل کود میں مشغول دیکھتے ہیں تو دونوں ہاتھ خوشی سے فضا میں بلند کر کے بنگالی زبان میں ’بھا لو‘ بمعنی راضی باضی کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں۔ مگر سب یادیں خوشگوار نہیں۔ مَیں ایک بزرگ سے یہ سُن چکا ہوں کہ کس طرح نو آزاد پاکستان میں اُن کے بنگالی کورس میٹ کاکول کی سردی سے گھبرا کر پی ایم اے سے بھاگ گئے تھے۔ پھر 1960 ء کی دہائی میں مسٹر لطف الکبیر جو ڈھاکہ کے قریب پاکستان آرڈنینس فیکٹری، غازی پور سے ٹریننگ کے لیے واہ پہنچے۔ چائے پر آئے تو ہمارے سرکاری گھر، برتنوں اور صوفہ سیٹ کو ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بغور دیکھا اور ہم لوگوں کا رویہ بھی سرپرستانہ سا ہو گیا۔ البم میں ہمارا گورنمنٹ کالج لاہور (جی سی یو) کا نفیس طبع محمد دیان بھی ہے جس کا آبائی گھر ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمان والی دھان منڈی میں تھا جو شیخ مجیب الرحمان کا مسکن رہی۔ شکست کے باوجود 1971ء میں نیو ہاسٹل کے راوین اُس لڑکے کا باتوں باتوں میں جو حشر کیا کرتے اُس پر ضمیر جعفری کا یہ مصرع بار بار یاد آتا کہ ’اگرچہ ہارتے جائیں، مگر للکارتے جائیں‘۔
زمینی حقائق سے بے خبر ہمارا بیک وقت ہارنے اور للکارنے کا یہی طرزِ عمل سقوطِ ڈھاکہ کے المیہ کا عنوان ہے۔ پنجاب بھر میں اپنی جان پہچان کے لوگوں میں جنگ سے پہلے مَیں نے کسی کو اس رویے سے بالاتر دیکھا تو وہ ہمارے جناح اسلامیہ کالج، سیالکوٹ کے استاد زمرد ملک مرحوم ہیں۔ ملک صاحب نے ڈھاکہ میں ملٹری ایکشن شروع ہونے کے اگلے دن 26مارچ کو تشویش بھرے لہجہ میں میری اور ہم جماعت جمیل کوثر کی موجودگی میں کہا تھا ’اب نکلے گا ہمارا جنازہ اور ہم خود ہی تماشہ دیکھیں گے۔‘ ایک شام پہلے جب فوجی کارروائی کے آغاز پر ریڈیو پہ جنرل یحیی خان کی تقریر سنی تو مَیں اور جمیل مرے کالج سیالکوٹ میں ایک مشاعرے میں شرکت کرنے والے تھے۔ استاد کے حقیقت پسندانہ طرز ِ استدلال کے زیر اثر ہم اپنے کالج میں مجیب نواز علیحدگی پسند شمار ہوئے اور اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن ہار گئے۔
باشعور قومیں وقفے وقفے سے اپنی تاریخ کو ’ری وزٹ‘ کیا کرتی ہیں۔ اگر 1971ء کی تاریخ کا از سرِ نو جائزہ لیں تو ماننا پڑے گا کہ ہر بڑی جنگ ایک ہی وقت میں دو محاذوں پر لڑی جاتی ہے۔ ا یک ہے فوجی محاذ جس کی منصوبہ بندی کے لیے عسکری تیاری سے لے کر خارجہ پالیسی تک خدا جانے کن کن ملحوظات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اِس سے بڑی لڑائی البتہ وہ ہے جو ہم باطن کے اندر مورچہ بند ہو کر لڑتے ہیں اور اِسی میں جیت پر بیرونی جنگ کی فتح کا دارومدار ہوتا ہے۔ ستمبر 65ء کو بقا کی لڑائی سمجھ کر ہم نے اپنے باطن کے خوف پر قابو پا لیا تھا۔ خوف پر اب بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ بس یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہم حق پہ ہیں، اس لیے کامیاب ہوں گے۔ اسی سوال کے جواب میں دسمبر کی اداسی کے وہ راز پوشیدہ ہیں جن پر ہمارے تجزیوں نے ابہام کا پردہ ڈال رکھا ہے۔