خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا

خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ فاطمۃؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔۔۔ ایک اور موقعہ پر حضوراکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ فاطمۃؓ (عورتوں میں سے) سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی۔۔۔ احادیث مبارکہ میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے بہت زیادہ فضائل و مناقب آئے ہیں۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ حضور اکرمؐ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہیں، آپؓ جنتی نوجوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسنؓ اور سیدنا حضرت حسینؓ کی والدہ اور سیدنا حضرت علی ؓ کی زوجہ محترمہ ہیں۔


ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مؐیں نے طوروطریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی، نشست و برخاست، طرز گفتگو اور لب و لہجہ میں حضور اکرمؐ کے مشابہہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔۔۔ ایک اور موقعہ پر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے حضور اکرمﷺ کے سوا سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے سچا اور انصاف گو کسی کو نہیں دیکھا (الاستعاب) ام المؤمنین حضرت سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ رفتار و گفتار میں حضور اکرمﷺ کی بہترین نمونہ تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ فاطمۃؓ خواتین امت کی سردار ہیں۔


ایک موقعہ پر حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ فاطمۃؓ میرے جگر کا ٹکرا ہے جس نے اس کو تنگ کیا اس نے اللہ کو تنگ کیا، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ کریں۔مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوت کے وقت جب حضور اکرمﷺ کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی تو حضرت سیدہ فاطمۃؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔۔۔مشہور روایت کے مطابق فاتح خیبر سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے ساتھ نکاح کے لئے حضور اکرمﷺ کو پیغام بھیجا۔۔۔حضور اکرمﷺ نے اس کو فوراً قبول فرما لیا اور پھر حضور اکرمﷺ نے حضرت سیدہ فاطمۃؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بزبان خاموشی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ اس سے پہلے حضور اکرمﷺ پر وحی آنے کی سی کیفیت طاری ہوئی وہ کیفیت ختم ہوئی، تو آپ ؐ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کا نکاح سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ سے کر دیا جائے۔


جب صحابہ کرامؓ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے تو حضور اکرمﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’اے گروہ مہاجرین و انصار مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ فاطمۃ بنت محمد (ﷺ) کا نکاح علی بن ابی طالبؓ سے کر دوں۔ مَیں تمہارے سامنے اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔ اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے خطبہ نکاح پڑھا اور دعائے خیر فرمائی۔ صحیح روایت کے مطابق یہ نکاح 3ھ میں ہوا اور فوری رخصتی عمل میں آئی ۔۔۔دوسرے روز ’’ولیمہ‘‘ کیا گیا۔ دعوتِ ولیمہ میں دسترخوان پر کھجور، پنیر، زمان جو اور گوشت تھا، حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ یہ اس زمانے کا بہترین ولیمہ تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی لختِ جگر، سب سے چھوٹی لاڈلی بیٹی، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کو جو جہیز دیا۔

مختلف روایتوں کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے۔۔۔(1) ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی (2) ایک نقشی تخت یا پلنگ (3) ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی (4) ایک مشکیزہ، (۵) دو مٹی کے برتن (یا گھڑے) پانی کے لئے (6) ایک چکی (ایک روایت کے مطابق دو چکیاں) (7) ایک پیالہ (8) دو چادریں (9) دو بازو بندنقرائی (10) ایک جائے نماز۔
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ حضور اکرم ؐ نے حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے درمیان گھریلو کاموں کی تقسیم فرما دی تھی، چنانچہ گھر کے اندر جتنے کام تھے وہ سب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے ذمہ تھے، اور باہر کے سب کام مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ سیدنا حضرت علیؓ کے ذمہ تھے اس طرح ان کی ازدواجی زندگی میں نہایت خوشگوار توازن پیدا ہو گیا تھا۔ حضور اکرمؐ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے، تقریباً ہر روز ان کے گھر تشریف لے جاتے، ان کی خبر گیری کرتے، اگر حضور اکرمﷺ کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ ؐ اس میں سے کچھ نہ کچھ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کو بھی بھجواتے تھے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ حضور نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپؐ ازراہ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ ؐ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں، محبت سے آپؐ کے سر مبارک کو چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔۔۔

(ابوداؤد)۔۔۔ حضور اکرمؐ کے غلام حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ؐ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے رخصت ہوتے اور سفر سے واپسی پر خاندان بھر میں سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ ہی سے ملاقات کرتے پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے۔۔۔ (مدارج النبوۃ)


ایک بار حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو بخار آ گیا، رات انہوں نے سخت بے چینی میں کاٹی، سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کا بیان ہے کہ مَیں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا۔ پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی، فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ سیدہ فاطمۃؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں، مَیں نے کہا کہ فاطمۃؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر تمہیں بخار رہا، صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا، اب چکی پیس رہی ہو، خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہو جاؤ۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ اگر مَیں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جاؤں تو کچھ پروا نہیں ہے،مَیں نے وضو کیا، نماز پڑھی، اللہ کی اطاعت کے لئے اور چکی پیسی تمہاری اطاعت و فرمانبرداری اور بچوں کی خدمت کے لئے۔۔۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی اپنی کسی رشتہ دار یا ہمسایہ کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں۔۔۔ کام کی کثرت اور نہ ہی کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں۔۔۔ ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی۔حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو عبادت الٰہی سے بے انتہا شغف تھا۔۔۔ خوفِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں۔۔۔ مسجد نبویؐ کے پہلو میں گھر تھا، سرور عالمﷺ کے ارشادات و مواعظ گھر بیٹھے سنا کرتی تھیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکامات کی تعمیل، اس کی رضا جوئی اور سنت نبویؐ کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی۔۔۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اللہ کی ہو کر رہ گئی تھیں، اسی لئے حضرت فاطمۃؓ کا لقب ’’بتول‘‘ پڑ گیا تھا۔
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے یہی اوصاف حمیدہ تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپؓ کے ساتھ حضرت سیدہ فاطمۃؓ کا حسنِ معاشرت کیسا تھا تو حضرت علیؓ نے آبدیدہ ہو کر جواب میں فرمایا: ’’فاطمۃؓ جنت کا ایک ایسا خوشبودار پھول تھا کہ جس کے مرجھانے کے باوجود اس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے۔اس نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقعہ نہیں دیا‘‘۔ آپؓجود و سخا کی پیکر تھیں، ایک بار کسی نے حضرت سیدہ فاطمۃؓ سے پوچھا کہ چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ کیا ہو گی، سیدہ فاطمۃؓ نے فرمایا کہ تمہارے لئے صرف ایک اونٹ اور اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو مَیں سارے ہی راہ خدا میں دے دوں۔ ایک بار حضور اکرم ؐ نے پوچھا بیٹی عورت کی سب سے اچھی صفت کون سی ہے؟ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ نے جواب میں عرض کیا کہ عورت کی سب سے اعلیٰ خوبی اور صفت یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اُس کو دیکھے۔ شرم و حیا کی انتہاء یہ تھی کہ عورتوں کا جنازہ بغیر پردے کے نکلنا پسند نہیں تھا۔۔۔ اسی بنا پر اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میرے جنازے پر کھجور کی شاخوں کے ذریعے پردہ ڈال دیا جائے اور جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ اس پر غیر مردوں کی نظر نہ پڑے۔۔۔مشہور روایت کے مطابق حضور اکرمؐ کے وصال کے 6 چھ ماہ بعد خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہنے کے بعد تین رمضان المبارک11ھ کو منگل کی شب آپؓ کا انتقال ہوا، اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے28،یا 29 سال ذکر کی ہے۔

مزید :

کالم -