پنجاب کا کلچر
چند دن پہلے پنجاب میں کلچر ڈے بڑے زور شور سے منایا گیا ہے۔ میں نے سوشل میڈیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک ذرائع کے توسط سے بڑی مدت کے بعد اتنی تعداد میں لوگوں کو سر پر پگ باندھے دیکھا۔ مجھے یہ بڑا ہی اچھا لگا عہد رفتہ لوٹ آیا کسی دور میں پنجاب میں پگ لباس کا ضروری حصہ ہوتا تھا۔ پگ سے سر اونچے ہو جاتے تھے، جبکہ پگ گرنے سے عزت تار تار ہو جاتی تھی اور اگر پگ پر داغ لگ جاتا تو پھر توگویا کہ بندہ جیتے جی مر جاتا۔مجھے بھی خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کلچر ڈے پر پگ باندھ کر سوشل میڈیا پر نظر آوں۔ لیکن دیر ہوگئی تھی میں نے گھر میں ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں سے پگ مل جائے لیکن پگ گم ہو چکی تھی اس کو پانے کے لئے بہت بڑی جدوجہد کی ضرورت تھی اور ایسی جدوجہد کرنے کی اب ضرورت نہیں۔اگر کلچر ڈے پر پنجابی نے پگ باندھ لی ہے تو اب پگ کو گرنے نہیں دینا چاہیئے اور یوں پنجاب میں پگ کا کلچر دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔
ہمارے ہاں کلچر کا لفظ اتنا بکثرت بولا جاتا ہے کہ بس لفظ ہی بولتا ہے اس لفظ کے معانی و مطالب اس شور میں ویسے ہی دب جاتے ہیں۔ موجودہ نسل سے اگر یہ معلوم کیا جائے کہ کلچر کس کو کہتے ہیں اور کلچر کی وضاحت کریں تو سوائے مقررین جو ضرورت کے تحت کلچر پر تقریر کرتے رہتے ہیں باقی مجھ جیسے تو بس یہی جواب دیں گے کہ کلچر تو پھر کلچر ہے۔ دراصل ہم بے شمار چیزیں روٹین میں کررہے ہوتے ہیں اور ہمیں ان کا شعوری احساس نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک آج کے دورمیں سب سے اہم چیز شعور کو بیدار کرنا ہے اور اس کے لئے شور مچانے کی ضرورت ہے شور اور شعور میں صرف ع کا فرق ہے۔ اگر شور کی ہنڈیا کو علم کو تڑکا لگا دیا جائے تو شعور خود بخود آجاتا ہے۔ میڈیا آج کل مختلف موضوعات پر بڑا شور مچا رہا ہے کاش شور کرنے والے "علم را برتن زنی" سے نکل کر "علم را بردل زنی" کے سانچے میں ڈھل جائیں تو پوری قوم راتوں رات باشعور ہو جائے۔
پنجاب کا کلچر کیا ہے اور اس کے کیا خدو خال ہیں اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ پنج آب سے عیاں ہے کہ یہ پانچ دریاؤں کی دھرتی ہے۔ جہاں سر سبزوشاداب اور لہلہاتے کھیت ہیں۔ سراب سا دھوکہ دینے والے صحرا دیکھنے کے قابل ہیں پہاڑوں کے بھی طویل سلسلے اس کو مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں اوپر سے کڑیل مرد جوان اور الہڑ مٹیار عورتیں۔ پنجاب پنجاب اے۔ آبادی زیادہ ضرور ہے لیکن پاکستان میں پنجاب میں سب سے زیادہ شرح خواندگی ہے۔ صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ زرعی پیداوار میں بھی یکتائی حاصل ہے فوج اور دیگر سرکاری محکموں میں پنجاب کی سب سے زیادہ نمائندگی ہے۔بابا فرید،وارث شاہ، بلھے شاہ،سلطان باہو، اقبال، فیض، احمد ندیم قاسمی اور اس طرح کے چوٹی کے شاعر اور ادیب بھی پنجاب ہی سے ہیں۔ اس مختصر تعارف کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اتنی چیزوں سے مالا مال صوبے کا کلچر پھر کیسا ہوگا۔ یقینا منفرد اور قابل رشک۔
محبت پیار اور اخلاص پنجاب کے کلچر کی اساس ہے۔ یہاں کے لوگوں کا دکھ سکھ سانجھا ہے۔ یہی وجہ ہے خوشی اورغم کی رسومات پنجاب کے کلچر کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔ شادیوں پر سب کا اکٹھا ہو جانا اور پھر کئی کئی دن اکٹھے رہ کر خوب انجوائے کرنا۔ ڈھول پر جھومرڈالنا اور چینا بہت ہی مقبول رقص ہیں۔ عورتوں کا آپس میں مل کر ککلی ڈالنا۔ عزیزداری کے تقاضے پورے کرنے کے لئے لاگ دینا۔ دولہے کو مٹھائی اور دودھ پلا کر اس کی جوتی چوری کرنا کتنا بڑا جیسچر ہے جو ماضی کا خاصا تھا۔ مردوں کا لاچا اور ریشمی قمیض پہننا اور عورتوں کا رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہونا۔ دلہن کو ان گیتوں کے ساتھ رخصت کرنا جن کو سن کر اپنے ڈھائیں مارنا شروع کردیں اور غیر بھی آبدیدہ ہو جائیں۔ ہر طرف محبت ہی محبت اور اوپر سے شرلیاں پٹاخے۔"اج تے ہو گئی بہہ جا بہہ جا"۔ بلاشبہ خوشی نے غم میں بدلنا ہے اور اس دھرتی کے لوگ ایسی گھڑی میں بھی ساتھ نہیں چھوڑتے۔
طبعئی،حادثاتی یاناگہانی اموات پر اپنے پرائے مل کر بین کرتے ہیں اور ایک خاص پردرد اور پرکیف ماحول میں اپنے متوفی عزیز کو ود فل پروٹوکول دنیا سے رخصت کیا جاتا ہے۔ لواحقین کی مالی امداد بھی کی جاتی ہے اور معاشرتی طور پر اس کے غم کو کم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔ اکٹھ پنجاب کی نمایاں خصوصیت ہے گاؤں کے ہر چوک میں ایک ڈیرہ ہوتا ہے اور ڈیرے پر ایک بابا حقہ تیار کر کے دعوت عام دے رہا ہوتا ہے اور پھر حقے کی یوں محفل کا سجنا اور پھر ”تیری محفل میں جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“۔ دوران گفتگو سیاست۔ معاشرت، مذہب،گھریلو جھگڑے اور روس امریکہ چین ہر ایک کا تیا پانچہ کیا جاتا ہے اور پھر خوشی خوشی محفل کا اس عہد کے ساتھ برخاست ہونا کہ ”کل مڑ اکٹھے ہوواں گے“۔ مشترکہ خاندانی نظام نے پنجاب کی چودھراہٹ کا بول بالا کیا ہوا ہے۔ جس جس طرح یہ نظام کمزور ہورہا ہے چودھراہٹ لاغر اور کمزور ہورہی ہے۔ اب چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے کرپشن کے آپشن کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں اور یہ بیماری موت کا باعث بن رہی ہے۔پنجاب کا پورا کلچر اگر ایک ہی جگہ دیکھنا ہو تو پنجاب کے میلے ٹھیلے، درباروں پر روحانی محافل، ملنگوں کا رقص، مولویوں کا دعوت و تبلیغ، موسیقی اور وہ بھی قوالی اور گانا بجا، رقص و سرود۔
گھوڑ دوڑ، ریچھ کتا لڑائی، موت کا کنواں، تھیٹر اور ورائٹی شوز۔ یوں میلوں میں مختلف چیزوں کی ورائٹی۔ مزید بزنس کی بہت بڑی ایکٹیویٹی۔ جو مرضی چاہیں خرید لیں۔ ہاں البتہ پنجابی سے اس کی عزت نہیں خریدی جا سکتی اس کے لئے بعض اوقات اس کو جگا بن کر وڈھ ٹک بھی کرنا پڑتی ہے۔ محبت میں یہ رانجھا بھی بن جاتا ہے اور پھر غیرت میں کیدو بن کر بیٹی کو اپنے ہاتھوں دفن بھی کر دیتا ہے۔ یہ ہے کلچر پنجاب کا اور وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ پگ کو داغ لگ جائے۔ داغ لگنے سے وضع قطع کا رُکھ(درخت) سوکھ جاتا ہے اور سوکھے رکھ کو بالآخر کاٹ دیا جاتا ہے۔ افسوس پنجاب کے اصل کلچر کے اظہار کو دہشت گردی کی نظر لگ گئی ہے۔ پولیس کے فرض شناس افسران اور ماتحت اول تو میلوں کی اجازت نہیں دیتے اگر دے بھی دیں تو ان پر ”پوری“ نظر رکھی جاتی ہے۔ ایک دفعہ میں ایک شادی پر گیا ہوا تھا اچانک شام کو ایک پولیس ملازم آگیا اور اس نے شادی کی پوری تفصیل بقلم خود لکھی اور ساتھ سخت تنبیہہ کی کہ لاڑے کو محتاط رہنا ہو گا۔ لاڑے کا والد بڑا ہی ذمہ دار شہری تھا، جس نے ”فوری محتاط“ ہو کر مذکورہ ملازم کو ”خوش“ کر دیا۔
پنجابی شاعری کا مطالعہ کریں یہ پنجاب کے کلچر کی نمائندہ شاعری ہے اس میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ یہ آپ کو علم وحکمت کے زیور سے آراستہ کرے گی اور آئندہ نسلوں میں پنجاب کے اصل کلچر کا شعور پیدا کرے گی۔ یہ دھرتی بڑی خوبصورت ہے اور ہم سب کو مل کر اس کو مزید خوبصورت بنانا ہے۔پنجاب کا کلچر ڈے منانے کا فیصلہ انتہائی قابل تحسین ہے۔