بھکاری مافیا کی بیرون ملک سرگرمیاں
حکومت ِ پاکستان نے سعودی عرب جانے والے بھکاریوں کو نوفلائی لسٹ میں ڈال دیا ہے۔سعودی عرب کے نائب وزیر داخلہ ڈاکٹر ناصر بن عبدالعزیز الداؤد نے پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات میں پاکستان سے جانے والے بھکاریوں اور اُنہیں بیرون ملک بھیجنے والے مافیا کے خلاف اقدامات سے آگاہ کیا۔ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی بھی اُس ملاقات میں موجود تھے۔محسن نقوی نے سعودی نائب وزیر داخلہ کو بتایا کہ پاکستان نے زیرو ٹالرینس پالیسی اپناتے ہوئے چار ہزار 300 بھکاریوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے ہیں۔ محسن نقوی نے مزیدبتایا کہ اِس کے علاوہ ملک بھر میں بھکاری مافیا کے خلاف موثر کریک ڈاؤن کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔اِس ملاقات میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عملدرآمد اور سعودی عرب میں موجود 419 پاکستانی قیدیوں کی وطن واپسی کے لئے قانونی عمل جلد مکمل کرنے پر اتفاق بھی ہوا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ملتان سے سعودی عرب جانے والی پروازسے عمرہ زائرین کے بھیس میں سوار 16 مبینہ بھکاریوں کو اُتارا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق 16 افراد پر مشتمل ایک گروہ جس میں بچہ،11 خواتین اور چار مردشامل تھے، عمرہ ویزے پر سفر کر رہا تھا،پروفائلنگ کی مدد سے معلوم ہوا کہ اُن کے پاس کسی ہوٹل کی بکنگ نہیں تھی،پیسے نہیں تھے اور مالی حیثیت بھی ایسی نہیں تھی کے وہ عمرہ کی غرض سے سعودی عرب جاتے،سامان کی تلاشی کے دوران بھیک مانگنے والے کٹورے بھی برآمد ہو ئے تھے۔ بی بی سی اردو کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق دستیاب سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوا کہ 16 جون 2023ء کو سعودی حکومت نے وزیراعظم آفس کو سعودی عرب میں بھیک مانگنے،جسم فروشی، منشیات کی سمگلنگ اور سفری دستاویزات میں جعل سازی جیسے بڑھتے ہوئے جرائم میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے حوالے سے تحریری طور پر آگاہ کیا تھا۔ بی بی سی کی معلومات کے مطابق سعودی عرب کی باضابطہ شکایت کے بعد وزیراعظم آفس نے وزارتِ داخلہ اور اُس کے ذیلی اداروں بشمول ایف آئی اے کو خاص ہدایات جاری کی تھیں جس کے بعد ایف آئی اے نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جانے والے پاکستانیوں کی پروفائلنگ شروع کی، مسافروں کے ضروری قواعد، سفر کے مقاصد، ہوٹل بکنگ، واپسی کا ٹکٹ اور مسافروں کے پاس موجود کیش وغیرہ کو چیک کرنے کا کام شروع کیا گیا۔ یاد رہے کہ چند سال پہلے تک انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لئے یورپ اور دیگر ممالک کا سفر کرنے والے مسافروں کی پروفائلنگ کی جاتی تھی لیکن پھر یہ کام روک دیا گیا لیکن اب سعودی عرب کی شکایت کے بعد دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
لگ بھگ دس روز قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں بتایا گیا تھا کہ اب تک ملک کے مختلف ہوائی اڈوں سے بیرونِ ملک جانے والے قریباً 400کے قریب افراد کو پروفائلنگ کے ذریعے پکڑا جا چکا ہے۔ اُن سے ملنے والے معلومات کی روشنی میں بیرون ملک بھجوانے والے دو منظم گینگ کے اراکین کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، گزشتہ تین سال کے دوران چار ہزار بھکاری دوسرے ممالک سے واپس بھیجے گئے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے ایک اجلاس میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں گرفتار کئے جانے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے تھا جبکہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی ؐکی حدود سے گرفتار کئے جانے والے اکثر پاکستانی بھکاری جیب کترے بھی تھے جو عازمین کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ سیکرٹری اوورسیز نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا تھا کہ صرف رمضان المبارک میں سعودی عرب کی پولیس نے 90 خواتین سمیت 202 بھکاریوں کو گرفتار کر کے پاکستان ڈی پورٹ کیا تھا،وہ عمرے کے ویزے پر گئے تھے اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگنے اور جیب کاٹنے میں ملوث تھے۔ایسا نہیں کہ بھکاری صرف سعودی عرب ہی جا رہے ہیں بلکہ متحدہ عرب امارات، ایران اور عراق، مشرق وسطیٰ سمیت دیگر ممالک سے بھی ایسی شکایات سامنے آئی ہیں، فرانس، سپین اور اٹلی میں بھی کافی تعداد میں پاکستانی بھکاری نظر آتے ہیں تاہم سعودی عرب،ایران اور عراق اِن کے لئے سب سے زیادہ پُرکشش ہوتا ہے۔
بیرون ملک تو ایک طرف پاکستان کے اندر بھی ٹریفک کے اشاروں، گلیوں، سڑکوں، محلوں اور بازاروں کے علاوہ مساجد کے باہر بھکاری عام نظر آتے ہیں۔ بھکاریوں سے متعلق مستند اعداوشمار تو دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک خبر کے مطابق امیرِ جماعت اسلامی پنجاب وسطی نے چند روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ بھکاریوں کا نیٹ ورک بڑے منظم انداز میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، عرب امارات اور ملائشیا سمیت دنیا بھر میں کام کر رہا ہے، پاکستان میں چار کروڑ سے زائد بھکاری 40 ارب روپے یومیہ بھیک اکٹھی کرتے ہیں۔ اِسی طرح ایشین ہیومین رائٹس کمیشن کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد بھکاری موجودہ ہیں جن میں زیادہ تر تعداد بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔جمعرات کو ملک بھر سے لاپتہ بچوں کے حوالے سے دائر درخواست پر آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھکاری بھیجنے میں تو اب ہم انٹرنیشنل ہو چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے بھی اِس حوالے سے خبروں کوخوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا، تضحیک آمیز تبصرے کئے،پاکستان کوبھکاری برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار دیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں، بیروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کے سکول نہ جانے کی ایک بڑی وجہ ماں باپ کی محدود آمدن ہے، ان کو لگتا ہے کہ ان کے بچے نے پڑھ لکھ کر کون سا کمال کرنا ہے اِس لئے بہتر ہے اِسے کسی کام پر لگا دیا جائے۔اِس میں بہرحال ریاست کی کوتاہیاں بھی شامل ہیں جو معاشرے میں تعلیم کی اہمیت اُجاگر نہیں کر سکی،روزگار کے مواقعوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ اُلٹا تعلیمی نظام زوال کا شکار ہو گیا۔جب معاشی حالات موافق نہ ہو، بنیادی سہولیات کی فراہمی نہ ہو تو پھر گداگر ہی پیدا ہوتے ہیں، مصیبت تو یہ ہے کہ باقاعدہ ایک مافیا کی صورت اختیار کر چکا ہے، منظم گروہ اس کام میں ملوث ہیں۔بھیک مانگنا تو مذہبی رو سے بھی جائز نہیں ہے، گداگری کو لعنت قرار دیا گیا ہے کجا کہ دوسرے ممالک میں جا کر یہ کام کرنا۔اس میں سرا سر ملک کی بدنامی ہے، پاکستانیوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے دیگر ممالک میں ان کے لئے زمین تنگ ہو رہی ہے، پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں بھیک مانگنے پر پابندی ہے، پاکستان میں بھی اس کی سزا تین سال قیدہے لیکن اس پر عملدرآمد نظر نہیں آتا۔ حکومت کو اِس حوالے سے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، پیشہ ور بھکاریوں اور اس دھندے میں ملوث مافیا کا خاتمہ کرنا ازحد ضروری ہے۔چند لوگوں کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے،عالمی سطح پر ملک کا تاثر بہتر بنانے کے لئے کوشش کرنا حکومت اور شہریوں پرفرض ہے اور اس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے۔