بے یقینی کون ختم کر سکتا ہے!
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے خالی پی ٹی آئی ہی نہیں پی ٹی آئی نواز اینکر پرسنوں میں بھی نئی روح پھونک دی ہے اور سب مل کر 24 نومبر کے احتجاج کو ابھی سے کامیاب بنائے ہوئے ہیں۔ جس چینل کو کھول لیجئے، بانی پی ٹی آئی، بانی پی ٹی آئی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ کہیں بھی نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو یا مریم نوازکا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو بالترتیب پچاس برس اور چالیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس عرصے میں کم از کم تین نسلیں پل کر جوان ہو چکی ہیں اور تیسری نسل کے آتے آتے 1970ء اور 1980ء کا پاکستان بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور اب سوشل میڈیا کی گرویدہ نسل کا راج ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے پالیسی ساز میدان کی بجائے ساری جنگ افواہ سازی کے میدان میں لڑرہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عملی میدان میں پاپولر ہو نہ ہو، سوشل میڈیا پر راج کر رہی ہے اور سوشل میڈیا پر پلنے والے لوگ ایک تو وہی پوسٹ دیکھتے اور سنتے ہیں جو ان کے دل کو بھاتی ہے اور دوسرا وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں جہاں ہر خبر کا کاؤنٹر چیک ہوتا ہے اور افواہوں کو حقائق سے الگ کیا جاتا ہے اور اب بھی کوشش ہوتی ہے کہ صرف حقائق پر مبنی معلومات ہی عوام تک پہنچیں۔ یہ الگ بات کہ ان حقائق کو بھی اینکر پرسنوں کی ایک کھیپ اس طرح ٹوئسٹ کرتی ہے کہ وہ بھی افواہ لگنے لگتے ہیں اور افواہوں کو حقائق بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اس کے باوجود کہ شہبا ز شریف بڑے سادہ ہیں اوراس ملک میں کوئی دوسرا پیدا نہ ہوا ہوگا لیکن چونکہ نون لیگ لگ بھگ چالیس برسوں سے اقتدار کی غلام گردشوں میں گھوم رہی ہے اس لئے نئی نسل اس سے ”عاجز“ آچکی ہے اور شہباز شریف بھی اب بے وقعت نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب کئی بار نہ صرف گھر کی عورتوں اور بچوں کی ضد کے آگے ہار مانتے نظر آتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے اپنے بیٹوں کے دوستوں کے لئے نشستیں لے کر پیسے بٹورتے نظر آتے ہیں۔ (سوشل میڈیا کی ٹرولنگ)
اب پی ٹی آئی نے ایک نیا پراپیگنڈہ شروع کردیا ہے کہ عمران خان کسی بھی وقت رہا ہو سکتے ہیں اور 24نومبر کے احتجاج سے خطاب بھی کر سکتے ہیں مگر اس کی حقیقت صرف اور صرف لوگوں کو احتجاج کے لئے گھروں سے نکالنے کے لئے افواہ سازی کے عمل سے بڑھ کر نہیں ہے۔ حالانکہ انہی افواہوں کے سبب عمران خان آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ وہ خود بھی بہت بڑے افواہ ساز ہیں، انہوں نے نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف چور ڈاکو کی تکرار اس تسلسل سے کی کہ آج اقتدار میں ہونے کے باوجود وہ دونوں اپنی سیاسی ساکھ بحال نہیں کر پائے، اس وقت اس پراپیگنڈہ کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور گرڈ موجود تھا، آج ایسا نہیں ہے مگر اس کے باوجود ملک سے باہر موجود کئی ایسے گرڈ ابھی بھی متحرک ہیں جنھیں نواز شریف اور آصف زرداری سے نفرت سے زیادہ ڈر محسوس ہوتا ہے کہ اگر انہیں پوری طاقت مل گئی تو وہ ہماری گوشمالی کے نکل پڑیں گے۔ یہ وہ نقطہ ہے جس پر عمران خان آج بھی پاکستانی سیاست میں متعلقہ فورس کے طور پر موجود ہیں۔
درج بالا ساری تکرار سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کی سیاست کو افواہ ساز فیکٹریوں کا سامنا ہے جس کے سبب نہ صرف پاکستانی سیاستدان بلکہ اب تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ بھی اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ اسی طرح جب یہ فیکٹریاں مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف متحرک تھیں تو ان کا وہی چہرہ پی ٹی آئی مکروہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی جسے اب پرنور کہتی نہیں تھکتی، جب بلاول بھٹو کے پیچھے پڑی ہوئی تھیں تو کانپیں ٹانگتی ہیں کی تکرار کرکرکے ان کی سیاسی ساکھ کو دو ٹکے کا کردیا تھا۔ اور تو اور ان افواہ ساز فیکٹریوں نے تو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا گھونٹ بھرلیا، یہ الگ بات کہ اس جنگ میں عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب فاروق کو اپنے عہدوں کی قربانی بھی دینا پڑی ہے۔ اس لئے افواہ ساز فیکٹریوں نے ریاست پاکستان کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کے باوجود کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ پچھلے ایک سال سے ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنے قابو میں کرنے میں لگی ہوئی ہے مگر یہ وہ تنور ثابت ہو رہا ہے جس کے ایک سوراخ کو بند کیا جاتا ہے تو کسی اور سوراخ سے ہوا آگ کو کھانے لگتی ہے، حتیٰ کہ لکڑی جل کر راکھ ہو جاتی ہے اورتنور کا دھواں پوری فضا کو مکدر کر دیتا ہے۔
اس وقت آرمی چیف فوج کی مستقل constituency یعنی بزنس کمیونٹی سے خطاب کر رہے ہیں اور باورکر ا رہے ہیں کہ پچھلے ایک سال میں بہت سے چیلنجوں پر قابو پالیا ہے لیکن جب بزنس مینوں سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ آرمی چیف سے اختلاف کرکے کہاں جانا ہے، یعنی ان کا بس چلے تو وہاں بھی اختلاف کادفتر کھول دیں لیکن چونکہ ڈنڈے سے ڈر لگتا ہے اس لئے چپ سادھے خطاب سن کر چلے آتے ہیں اور پھر بند کمروں میں اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ یہ ہے وہ ماحول جس میں پاکستان کا سیاسی ماحول پنپ رہا ہے، اس سے نجات ایک دو سالوں میں ممکن نہیں، بلکہ کئی سال لگ سکتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں عمر خضر کی ضرورت ہے جس کا اکثر سینئر سیاستدانوں کو یقین ہے نہ امید ہے۔ ایسے میں قوم کی بے یقینی کون ختم کر سکتا ہے!