خالد آفتاب: نیا سفر، نئی منزلیں (1)

   خالد آفتاب: نیا سفر، نئی منزلیں (1)
   خالد آفتاب: نیا سفر، نئی منزلیں (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 رپورٹنگ کا اصول ہے کہ خبر کا آغاز تازہ واقعے سے ہونا چاہیے۔ پھر آتا ہے خبر کا پس منظر جس میں آپ چاہیں تو زمانی ترتیب کا ریورس گئیر بھی لگا سکتے ہیں۔ تازہ خبر تو سنگِ میل لاہور کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر خالد آفتاب کے تیسرے افسانوی مجموعے ’پوٹلی‘ کی اشاعت ہے۔ پس منظر یہ کہ ’جہاں اندر جہاں‘ اور ’بھیدی‘ کے نام سے کہانیوں کی دو کتابیں اِس سے پہلے شائع ہوئیں تو اُن کی پذیرائی بانو قدسیہ اور ڈاکٹر سلیم اختر ہی نہیں، یونس جاوید، خالق تنویر اور مستنصر حسین تارڑ نے بھی کی تھی۔ رہا یہ سوال کہ تعلیم و تدریس پر مبنی بزبانِ انگریزی خالد آفتاب کی آپ بیتی ’آزمائشوں کے مقابل‘ کو اِس تخلیقی عمل میں شمار کیا جائے یا نہیں؟ جواب ڈھونڈتے ہوئے کالم کے اِدھر اُدھر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ پر شاعری میں کہتے ہیں، تمہید یا تشبیب، پھر اُس کے بعد گریز۔ گریز کے عمل میں درباری شاعر کے لیے عرضِ مدعا کی راہ کھُلا کرتی تھی۔ آج اِسی ترکیب کو برت کر شاید میرے لیے بھی کچھ نیا کہنے کی گنجائش نکل آئے۔

 نیاپن اِس لیے اہم ہے کہ میرے ممدوح خالد آفتاب ادبی تخلیق کار ہی نہیں، ماہرِ تعلیم اور پیشہ ور ممتحن بھی ہیں۔ یوں اگر مَیں نے اپنے ہی نثر پاروں پر مبنی ’چاند چہرے‘ میں شامل اُن کے شخصی خاکے کا متن دُہرانے کی کوشش کی تو پتا ہے کیا ہوگا؟ تحقیقی مسودوں میں پلیجرازم پکڑنے والا پروگرام ’ٹرن اِٹ اِن‘ حرکت میں آ جائے گا۔ نتیجے میں یہ کالم نگار اپنے ہی ایک مضمون کی چوری کا مرتکب قرار پا کر کسی ایسی ڈگری سے محروم ہو سکتا ہے جو تاحال جاری نہیں ہوئی۔ البتہ صحافی، شاعر اور ڈرامہ نویس منو بھائی کا سُنایا ہوا وہ واقعہ شئیر کرنے کو جی چاہ رہا ہے جب کئی سال ہوئے روزنامہ جنگ لاہور کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے اخبار کے مالک اور چیف ایڈیٹر میر خلیل الرحمن نے اُن سے کہا تھا ”بھئی، کل ٹی وی پہ تمہارا ڈرامہ دیکھا، بہت مزہ آیا۔“ جواب ملا ”پی ٹی وی کے ڈائریکٹر جنرل میرے کالموں کی تعریف کرتے ہیں۔“

 زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، ہمہ جہت شخصیتوں کے کِسی ایک امتیازی وصف کو شناخت کا ترجیحی حوالہ بنانا آسان نہیں ہوتا۔ یہاں تو تدریسی و انتظامی مہارت، شفقت مِلا تحکم اور تہہ در تہہ معانی کی حامل تخلیقی نثر ایک ہی شخص کو دیکھنے کے لیے نہایت مختلف النوع زاویے ہیں۔ اِتنے مختلف کہ ہزار احتیاط کے باوجود عین ممکن ہے کہ مجوزہ مثلث دو قائموں کے برابر نہ نکلے۔ خالد آفتاب صاحب سے ذاتی ملاقات کی ابتدا جی سی(یو) میں فائن آرٹس والے اسلم منہاس کے کمرے میں ہوئی تھی جن سے اب مذکورہ یونیورسٹی کی نئی آرٹ گیلری موسوم ہے۔ رواں صدی سے بیس پچیس سال پیشتر منہاس مرحوم ہی چائے کی پیالی پر ہماری قہقہہ کانفرنس کے یومیہ مہتمم ہوتے۔ دیگر مستقل شرکا تھے ضیا ڈار، جناب کے ایم صدیقی اور منفرد مزاح نگار اور شاعر مشکور حسین یاد۔ اِنہی کے ساتھ یہ نومولود لیکچرر بھی ہر روز ’ٹِکی‘ ہو جاتا، جیسے مسافر بس میں تین بڑوں کے جلو میں ٹول بکس پر آدھی سواری بٹھا دی جاتی ہے۔ 

 اِس تناظر میں اب سے دس سال پہلے خالد آفتاب کے اولین مجموعے ’جہاں اندر جہاں‘ کی اشاعت میرے لیے ایک خوشگوار صدمہ سے کم نہیں تھی۔ اِس سبب کہ بقول شخصے ’نامعقولوں کی پریاہ‘ میں اکنامکس ڈپارٹمنٹ کا یہ استاد مجھے اردو کی جگہ بظاہر انگلش میڈیم رکھ رکھاؤ کا مالک دکھائی دیتا تھا۔ یہ تو پتا چل گیا کہ لڑکپن میں کبھی کبھی ماہنامہ تعلیم و تربیت کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ لیکن اُن تعارفی دنوں میں اگر خالد آفتاب کی کوئی تحریر دیکھنے کو مِلی تو وہ اقتصادی و سماجی مسائل پر روزنامہ پاکستان میں وقفے وقفے سے شائع ہونے والے چند ایک مراسلے ہیں جن کا اسلوب متوازن اور متن شفاف ہوتا۔ خوب یاد ہے کہ ’ایڈیٹر کی ڈاک‘ میں سب سے اوپر جگہ پانے والا خط پڑھ کر مَیں نے ایک صبح یہ کہہ کر داد دی کہ ”اج فیر notwithstanding ٹھونک دتا جے۔“ خالد صاحب کھُل کر مسکرائے اور ”آہو“ کہہ کر تصدیق میں سر ہلایا۔

 فی الوقت توجہ کا ہدف افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے جسے اُسی تخلیقی سفر کی توسیع سمجھنا چاہیے جس کا آغاز   2014 ء میں ’جہاں اندر جہاں‘ کی جستجو سے ہوا۔ اِسی جستجو میں مصنف نے چار برس آگے چل کر ’بھیدی‘ کو انگلی لگایا تھا۔ اب رواں مہینے کے اوائل میں یہ مسافت اُس ’پوٹلی‘ کے کھوج پر منتج ہوئی ہے جس میں یوں لگتا ہے کہ اِس انگلش میڈیم آدمی نے اوپری سطحات سے اوجھل انسانی جیون کے نرول خزینے چھپا ئے رکھے۔ پہلی کتاب کے سوا دو سو صفحات میں بائیس چھوٹی بڑی کہانیاں تھیں۔ دوسرا مجموعہ د و سو سولہ صفحوں پر مشتمل تھا اور تعداد کے اعتبار سے پہلی کتاب سے ایک افسانہ زیادہ۔ تازہ کتابی شکل میں بِیس تخلیقات قدرے موٹے فونٹ پر دو سو انتالیس اوراق پر محیط ہیں۔ یوں فی کس قومی آمدنی کی طرح افسانوی مواد کی اوسط ضخامت ساڑھے دس صفحے فی کہانی سے کچھ کم بنتی ہے۔ مگر کوئی قاری کہہ سکتا ہے کہ شاہد ملک، یہ تخلیقی سفر کے محاکمے کا کیا طریقہ ہوا؟ 

 ابتدائی محاکمہ تو اپنی زندگی میں بانو قدسیہ کر چُکیں جنہیں خالد آفتاب کی تحریروں نے منٹو کی تشبیہات، عصمت چغتائی کی بے باکی، راجندر سنگھ بیدی کے المیہ پہلو ؤں اور گارشیا مارکیز کی واقعہ نگاری کی یاد دلائی تھی۔ اِسی طرح ہم عصر نقاد ڈاکٹر سلیم اختر نے ابتدائی کہانیوں ہی میں ”بہت باریک معاشرتی فہم“ اور”اعلی پائے کے فنی شعور“ کی واضح جھلک دیکھ لی۔ تازہ ترین کتاب کے عقبی سرورق پر یونس جاوید نے اِسی فنی شعور کی بات کو یہ کہہ کر آگے بڑھایا ہے کہ ”خالد آفتاب کی تحریریں بہت سلیس اور سادہ ہیں، اور انداز دو ٹوک ہے۔ منٹو صاحب میں بھی یہی خوبی تھی۔ دو ٹوک، جرائت مندانہ، لفظ ضائع نہیں کرتے تھے۔۔۔ خالد آفتاب کی سب کہانیوں میں یہ خوبی موجود ہے۔“ مستنصر حسین تارڑ نے اِس تخلیقی مسافت کی مرحلہ شماری پہلے مجموعے ’جہاں اندر جہاں‘ سے کی ہے جس کی اشاعت پر”ادب کے قارئین کو دھچکا سا لگا کہ یہ کون ہے جو آیا ہے اور چھا گیا ہے۔ ایسے افسانے اُن سے پیشتر کسی نے نہیں لکھے تھے۔ افسانوں کی دوسری کتاب ’بھیدی‘ کو اِس سے زیادہ پذیرائی مِلی۔ اب تازہ ترین مجموعہ کی اشاعت انسانی نفسیات کے عمیق تر سمندروں کا سفر بن گئی ہے۔“

 یہاں پہنچ کر آپ پھر طعنہ دیں گے کہ چالاک کالم نگار نے ’بھیدی‘ پہ ذاتی رائے دینے کا بوجھ بھی مستند ناقدین پر ڈال دیا ہے۔ اِس پر میرا دھیان اپنے خوش طبع ننہالی بزرگ خواجہ غلام احمد مرحوم کی طرف جائے گا جنہیں ہم ’موٹے ماماں جی‘ کہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ماماں جی سِلک یارن کی خرید و فروخت کے سلسلے میں کسی یورپی ملک کے ٹریڈ کمشنر سے مِلنے گئے تو بطور نقلی مینجر مَیں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ میری فہم سے بالاتر کاروباری گفتگو کے دوران اچانک پنجابی میں کہنے لگے ”تونہہ وی بول، تونہہ ایم اے کِیتا ہوئیا اے۔“ عرض کروں گا کہ زمانہ قبل ِ مسیح میں لٹریچر میں ماسٹرز کیا تو تھا مگر کسی خاص وجہ کے بغیر سالانہ کی بجائے ضمنی امتحان میں، اور وہ بھی میتھوئین پبلشنگ لندن کے خلاصے رٹ کر۔ اب ڈاکٹر خالد آفتاب کی تحریر کے سحر سے نکل کر تازہ تصنیف پر ماہرین کے تبصرے توجہ سے پڑھے ہیں اور اپنے لیے ایک سوال نامہ ترتیب دے رہا ہوں۔ ارادہ ہے کہ جواب میں مذکورہ افسانوں کے موضوعات، کردار نگاری اور یونیورسٹی اورینٹل کالج کی زبان میں مصنف کی فنی مہارت، سماجی بصیرت اور نفسیاتی ژرف بینی کو اجاگر کر سکوں گا۔ (جاری ہے) 

مزید :

رائے -کالم -