جس طوطے میں عمران کی جان تھی

    جس طوطے میں عمران کی جان تھی
    جس طوطے میں عمران کی جان تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بالآخر جس طوطے میں عمران خان کی جان تھی، اسٹیبلشمنٹ نے وہ طوطا پکڑ لیا ہے اور جوں جوں اس طوطے کی گچی مروڑی جائے گی توں توں عمران خان کی اکڑ فوں جواب دیتی چلی جائے گی۔ پچھلے زمانوں کی کہانیوں میں ایسا ہی کچھ ہوتا تھا،اب بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔اس کے کچھ کچھ آثار بھی نمودار ہونے لگے ہیں۔ عمران خان نے برطانیہ کے وزیراعظم سے مدد مانگ لی ہے، وہ دن دور نہیں جب وہ حکومت سے مذاکرات کی بھیگ مانگتے بھی پائے جائیں گے، کیونکہ سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کہنے  کا بیانیہ ان کا اپنا تھوڑا تھا،وہ سبق تو اس طوطے نے اُنہیں پڑھایا تھا،جو اسٹیبلشمنٹ کی پکڑ میں آ چکا ہے۔اگر عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کے چور ڈاکو ہونے کا اتنا ہی غم ہوتا تو اپنے ہسپتال کے لئے ان سے مفت پلاٹ کیوں لیتے اور کبھی یہ کیوں کہتے پائے جاتے کہ آصف زرداری نواز شریف سے کم کرپٹ ہیں۔ دراصل وہ اپنے پینترے اسی طرح بدلتے رہے ہیں جس طرح ان کا طوطا انہیں سبق پڑھاتا رہا ہے۔ 

اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عمران خان کی جانب سے برطانوی وزیراعظم سے مدد مانگنا ان کے اندر بڑھتی بے چینی کا منہ بولثا ثبوت ہے۔ اب عمران خان کا یہی بیانیہ ہوگا۔ وہ اندرون ملک بھی جمہوریت کے نام پر مدد مانگتے پھریں گے اور انہیں مولانا فضل الرحمن کے بعد محمود خان اچکزئی بھی منہ نہیں لگائیں گے۔ عمران خان کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ان کے خلاف تحقیقات کا دائرہ سکڑنے لگاہے اور ابھی تک دنیا کے کسی لیڈر نے ان کے لئے آواز بلند نہیں کی ہے، سابق وزیراعظم نوازشریف کی طرح انہیں بھی کسی ملک نے ابھی تک ہماری فوج سے نہیں مانگا، ان سے تو کہیں بہتر شیخ حسینہ واجد رہ گئی کہ کم از کم انڈیا میں تو پناہ مل گئی، یہ الگ بات کہ اس پناہ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ساری گتھی سلجھا کر رکھ دی ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کوئی بھی ملک ہماری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ کیوں نہیں ڈال رہا کہ عمران خان کو رہا کر دیا جائے؟ پی ٹی آئی والے تو عمران خان کو انٹرنیشنل لیڈر کہا کرتے تھے اور کبھی انہیں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات ٹھیک کروانے کا ٹھیکہ لے کر دیا کرتے تھے تو کبھی چین اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا فرض سونپا کرتے تھے۔ تب تو ایسا لگتا تھا کہ ایک جنوبی ایشیاء کیا، پوری دنیا کو وہ لیڈر میسر آگیا ہے، جس کا سب کو انتظار تھا۔ آج جب وہ لیڈر پابند سلاسل ہے تو کہیں سے ان کا نام لے کر دہائی نہیں مچائی جا رہی ہے، کوئی ان کی رہائی کے لئے فکرمند نہیں ہے اور کسی ملک نے بھی ہماری فوج سے انہیں اپنے ہاں بھیجنے کا نہیں کہا،الٹا جنرل فیض حمید کی گرفتاری نے دنیا کو باور کروادیا ہے کہ ادارہ اپنے اندر ہونے والی بغاوت کے تمام سوتوں کو بند کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں کوئی سفارش قبول نہ کرے گا۔

 اس وقت بات یہاں گھوم رہی ہے کہ کورٹ مارشل ہو گا جس میں جنرل فیض حمید عمران خان کے خلاف گواہی دیں گے اور پھر عمران کا بھی کورٹ مارشل ہو گا۔ یہ بات کوئی اور نہیں خود عمران خان کہہ رہے ہیں۔ گویا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کا اعتراف کروالیا  ہے کہ 9مئی کے ذمہ داران کو سزا ہوکر رہے گی۔ 

پی ٹی آئی والوں نے اب نیا بیانیہ بنانا شروع کردیا ہے کہ عمران خان نے کبھی کسی کو تشدد پر نہیں اکسایا۔ ایسا ہے تو پھر وہ کارکنوں سے حلف نامے کاہے کے لیتے تھے جن میں حقیقی آزادی کے لئے جہاد جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے تھے۔ اگر آپ ان حلف ناموں کے ویڈیو کلپ یو ٹیوب پر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ عوام کو ذہنی طور پر کس مشن کے لئے تیار کیا جا رہا تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ جب ایکشن کی گھڑی آئی تو مقتل میں تین چار دیوانے ہی دیواروں سے سر پھوڑتے نظر آئے اور عوام کی بڑی تعداد تماشہ دیکھنے کے لئے اکٹھی نہیں ہوئی۔ 

اِس وقت یوں لگتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عمران خان کو پرائی آگ اُٹھا کر پھرنے پر سزا دینے کی فضا بن جائے جبکہ پی ٹی آئی کی کوشش لگتی ہے کہ کسی طرح معاملہ اکتوبر تک کھینچ لیا جائے لیکن اگر تب تک جنرل فیض حمید اور عمران خان کو جرنیل اور بانی پی ٹی آئی کی بجائے غدار قرار دے دیا گیا تو کیا ہو گا؟ کیا ٹرمپ غداروں کو چھڑوانے کے لئے آخری حد تک جائیں گے؟ کیا ٹرمپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ہوں گے یا پھر اپنی ٹرمپ امپائر کے سربراہ کے طور پر ریاست پاکستان پر چڑھ دوڑیں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیا ٹرمپ اکتوبر میں انتخاب جیت بھی سکیں گے یا نہیں؟ 

 دوسری جانب عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ ابھی بھی اپنے بیانیوں میں یو ٹرن لے کر دنیا کو بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ اسی لئے ایک دن وہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کو فوج کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں تو دوسرے دن جنرل فیض حمید کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ اس پر سکیورٹی ذرائع کی طرف سے جس قسم کا جواب آیا ہے کہ عمران خان کون ہوتے ہیں جو ایسا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ ایک بیان ہی بتانے کے لئے کافی ہے کہ عمران خان کا سیاسی قد بت کس قدر بودا ہو چکا ہے۔ ان کی شو بوائے شخصیت کے گرداگرد مقبولیت کا جو ہالہ بنایا گیا تھا، اس کی چمک دمک ماند پڑگئی ہے اور جس طوطے میں ان کی جان تھی،  وہ طوطا اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ لگ گیا ہے!

مزید :

رائے -کالم -