بکھرتا سماج، دلخراش واقعات
صرف چند ہفتوں میں تین ایسے واقعات ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے ہمارا معاشرہ کس آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔ملکی معاملات تو رہے ایک طرف، معاشی و سیاسی بھی ہمیشہ سے چلتے رہے ہیں اور چلتے رہیں گے،مگر جو شکست و ریخت ہمارے معاشرتی نظام کے اندر ہو رہی ہے اور جس طرح اُس میں تشدد و درندگی کا عنصر در آیا ہے اُس نے حالات کو انتہائی تشویشناک بنا دیا ہے۔یہ تین واقعات صرف ایک شہر ملتان میں ہوئے ہیں، جبکہ پورا ملک ایسے واقعات کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔اسی شہر ملتان میں چند ماہ پہلے ایک بہو ثانی زہرہ کو پنکھے لے لٹکا کر مار دیا گیا تھا اور خود کشی کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر فرانزک رپورٹ اور دیگر شواہد کی بناء پر قتل ثابت ہو گیا تھا،لیکن جن تین واقعات کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ اِس سے بھی سنگین نوعیت کے ہیں اور جن کی وجہ سے معاشرے میں عدم تحفظ بھی پھیلا ہے اور خوف بھی۔لیکن اس سے بھی زیادہ یہ اِس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ ہمارے ہاں عدم برداشت اور رشتوں کی محبت سے بیگاننگی کا رویہ کس قدر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔کل ہی کا واقعہ ہے کہ سورج سیانی ملتان کے علاقے میں ساس بہو کے درمیان تکرار پر باپ بیٹے میں بھی تلخ کلامی شروع ہوئی۔ المیہ یہ ہے کہ اُسی دن دو بیٹیوں کی شادی تھی اور تمام انتظامات مکمل کئے جا چکے تھے۔ یہ تلخ کلامی اس قدر بڑھی کہ باب ظفر نے اپنی پسٹل نکال کر30سالہ بیٹے قمر عباس پر فائرنگ کر دی، وہ وہیں ڈھیر ہو گیا، بچانے کے لئے آگے آنے والی اُس کی ماں کو بھی گولی لگی اور وہ زخمی ہو گئی۔اب آپ ذرا غور کریں۔کس موقع پر کیا ہو گیا، بیٹیوں کی رخصتی کا وقت ہے، لیکن سفاک باپ نے گولی مار کر بیٹے کو دنیا سے رخصت کر دیا۔بھلا یہ بھی کوئی موقع ہوتا ہے کہ جب ساس بہو میں جھگڑا ہو جائے، پھر اس سے بھی بڑھ کے کیا گھر کے مردوں کو صورتحال سنبھالنے کی بجائے اُس میں کود پڑنا چاہئے، بات اتنی بڑھا دینی چاہئے کہ نوبت قتل تک آ جائے۔یہ ساس اور بہو کا تعلق ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا عذاب کیوں بن گیا ہے۔یہ دو عورتیں کیا صبر اور ہوش سے کام نہیں لے سکتیں، کیا انہیں اندازہ نہیں ہوتا وہ اپنی جھوٹی اَنا اور خواہشات کے لئے کس طرح گھرکو جہنم بنا رہی ہیں۔ یہ مائیں جنہیں اپنے بیٹے بیاہنے کی بڑی فکر ہوتی ہے چاند سی دلہن لانے کے لئے مری جا رہی ہوتی ہیں، آخر چند دِنوں بعد ہی ساس بن کر ڈائن کا روپ کیوں اختیار کر لیتی ہیں۔ ایک نئی زندگی شروع کرنے والے جوڑے کو امتحان میں کیوں ڈال دیتی ہیں۔ بیٹا کہیں بھاگا نہیں جا رہا ہوتا، مگر اُن کی خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ہنس کر بات بھی نہ کرے۔ دوسری طرف بہو بن کر آنے والی لڑکیاں بھی ٹی وی ڈراموں سے متاثر ہو کر یہ سوچ لے کر آتی ہیں کہ گھر کو فتح کرنا ہے۔گھر کو فتح کیا جا سکتا ہے اپنی محبت،تابعداری اور خدمت سے،لیکن اگر اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ شوہر کی زندگی اجیرن کر کے اُسے مجبور کر دیا جائے کہ وہ ماں کے ساتھ رہے یا بیوی کے ساتھ تو اِس سے گھر ٹوٹتے ہیں، جڑتے نہیں۔
اس سے چند روز پہلے ایک اور واقعہ ہوا۔ پرانا شجاع آباد روڈ پر وویمن یونیورسٹی کی ایک وزیٹنگ لیکچرار فیروزہ ڈکیتی میں مزاحمت کے دوران مبینہ طور پر قتل ہوئی۔اُس وقت کار میں اُس کے ساتھ شوہر حسیب بھی موجود تھا۔ پولیس آئی اور کرائم سین کو چیک کیا، ڈکیتی کرنے والے اکثر مرد کو نشانہ بناتے ہیں، مگر یہاں خاتون کو بنایا گیا تھا۔ حسیب کے بیانات بھی مشکوک تھے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج دیکھی گئی تو قاتل موٹر سائیکل پر جاتا نظر آیا۔ تفتیش آگے بڑھی تو یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ حسیب اور فیروزہ میں تعلقات کشیدہ رہتے تھے اور لڑائی جھگڑا بھی معمول تھا، مختلف شواہد ملنے کے بعد شوہر حسیب کو باقاعدہ شامل ِ تفتیش کیا گیا تو وہ جلد ہی مان گیا کہ اُس نے ایک اُجرتی قاتل کو15لاکھ روپے دے کریہ قتل کرایا۔وجہئ قتل یہ سامنے آئی کہ وہ اپنی ایک گرل فرینڈ سے دوسری شادی کرنا چاہتا تھا، مگر بیوی مان نہیں رہی تھی،پولیس نے سائنٹیفک طریقے سے تفتیش کرتے ہوئے اُجرتی قاتل کو بھی گرفتارکر لیا اور اُس بنک ملازم کو بھی جو حسیب کا دوست ہے اور جس نے اُجرتی قاتل سے رابطہ کرایا تھا۔اب اس کیس میں آپ دیکھیں ایک نفسانی خواہش کے لئے کتنا گھناؤنا قدم اٹھایا گیا اور بھی بہت سے راستے تھے، ملزم حسیب اپنی بیوی کو طلاق بھی دے سکتا تھا، لیکن میاں بیوی کے خوبصورت رشتے کو اُس نے ختم کرنے کے لئے اُس عورت کو قتل کرانے کا فیصلہ کیا، جسے وہ خود یعنی مرضی سے بیاہ کر لایا تھا۔ اب اس کیس پر بت سی باتیں ہو سکتی ہیں۔ کیا میاں بیوی میں ہم آہنگی نہیں تھی؟ کیا مقتولہ اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھ سکتی تھی؟ کیا وہاں بھی خاندانی جھگڑے ایک دوسرے کے درمیان نفرت کا باعث بنے تھے؟ یا پھر یہ سیدھا سادہ مرد کی نفسانی خواہشات کا معاملہ ہے، جس نے ایک دسری لڑکی سے متاثر ہو کر اُس کی ہر بات مانی، حتیٰ کہ بیوی کو راستے سے ہٹانے کے لئے قتل کرا دیا۔ معاملہ کچھ بھی ہو یہ معاشرے کی اُس ٹوٹ پھوٹ کو ظاہر کرتا ہے، جس نے ہر رشتے کو ایک امتحان بنا دیا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے اس واقعہ نے پورے شہر کو افسردہ کر دیا تھاجس میں ایک نوجوان معروف طارق نے اپنے دو بچوں اور بیوی کو گاڑی میں گولی مار کر قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی، ہر آنکھ میں یہ سوال تھا ایک باپ اپنے معصوم بچوں پر کیسے گولی چلا سکتاہے،جو خوشی خوشی گھر سے والدین کے ساتھ سیر کرنے نکلے تھے؟ یہ صبر و ضبط کی آخری کون سی قسم ہے جو اس واقعہ پر جواب دے جاتی ہے، معروف طارق ایک مشہور سیاسی گھرانے کا نوجوان وکیل تھا۔ اُس نے یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا؟آخر میاں بیوی میں ایسا کیا ہوا کہ وہ پورا خاندان ہی ختم کرنے پر راضی ہو گیا۔یہ بہت ناقابل ِ فہم فیصلہ ہوتا ہے۔باقی خاندان والے کیوں ان دونوں کے درمیان چلنے والی ایسی کشیدگی سے بے خبرتھے،جواتنے بڑے سانحے کا باعث بنی، پھر معروف طارق تو ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے دوسروں کے مسائل حل کراتا تھا، اُس نے یہ گھناؤنا قدم کیسے اُٹھایا۔ اب نفسیات دان اس بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں،لیکن اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرہ ایک اکائی کی صورت قائم نہیں رہا۔ گھروں کے اندر بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں اور باہر بھی ایک نفسا نفی، خود غرضی اور لالچ و طمع کی عملداری ہے۔ فرد تنہا ہو چکا ہے اب کسی کے پاس ایسا کندھا نہیں رہا، جس پر سر رکھ کر وہ رو سکے، اپنے دِل کا غبار ہلکا کر سکے۔ گھر ایک دارالسکون ہوتا تھا اب ہم نے آپس کی کشا کش سے اسے جہنم بنا دیا ہے۔ خلع کے سینکڑوں کیسز روزانہ دائر ہو رہے ہیں، گھر ٹوٹ رہے ہیں، معاشرہ بکھر رہا ہے، مگر قومی سطح پر ایسی کوئی سوچ موجود نہیں جو اس تباہی کے آگے بند باندھ سکے۔
٭٭٭٭٭