کلام اقبال (شرح بال جبریل) (2)
اگر اللہ لامحدود ہے تو وہاں شوق کس کے لئے آئے گا اور نوائے شوق کیسے پیدا ہو گی۔اقبال شناسوں کی ہر توضیح کا اپنا مقام ہے۔ ان کی وضاحت پر ہمارے دیدہ و دِل فرش راہ ہیں، لیکن ہمارے نزدیک مکان و لامکان کا تصور شعور و ادراک سے وابستہ ہے۔ہمارے نزدیک مکان میں باشعور چیزیں شامل ہیں۔ خواہ اس کا شعور کامل ہو یا غیر کامل وہ عالم مکان کا حصہ ہے لامکان میں نباتات، جمادات جیسی اشیاء شامل ہیں۔ ان چیزوں میں سوچ، فکر، شعور نہیں ہے۔ اس لئے ان کے اندر تجسس جستجو خالق تک پہنچنے کی تڑپ ولولہ جوش بھی نہیں ہے۔اسی لئے علامہ نے دوسرے شعر میں فرمایا:
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
لا مکاں میں جتنی چیزیں ہیں وہ بھی اے اللہ! تیری مخلوق ہیں، لیکن یہ لامکاں نباتات جمادات سے بھرا پڑا ہے۔ اس میں شعور و ادراک مفقود ہے۔ اسی لئے اس میں ہنگامہ ہائے شوق بھی موجود نہیں، ہر چیز جامد ہے ہر چیز ساکت ہے، لیکن جہاں انسان بس رہے ہیں وہ لامکاں نہیں ہے۔ اسی لئے اس حصہ کائنات میں نوائے شوق بھی موجود ہے جو کہ انسان کے ادراک و شعور کا نتیجہ ہے، لہٰذامکاں جو ادراک و شعور کا نتیجہ ہے وہاں شوق، ولولۂ شوق اور ذوق اور نوائے شوق سب کچھ موجود ہو گا، جبکہ لا مکاں جو ادراک و شعور سے خالی ہے وہاں شعور نہیں اس لئے ولولۂ شوق بھی موجود نہیں تو اس نوائے شوق کی عدم موجودگی کا دوش اے اللہ! کس کو دیا جائے گا۔ علامہ نے اسی بات کا اظہار ایک اور انداز میں بھی کیا ہے:
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
انسان فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر؟
مجھے معلوم کیا! وہ رازداں تیرا ہے یا میرا؟
قرآن مجید میں آدم و ابلیس کے درمیان ہونے والے ایک مکالمے کا ذکر ہے۔اس واقعے کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف انداز میں آیا ہے:
’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو توتمام فرشتے سجدہ ریز ہو گئے لیکن ابلیس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیااس نے صرف انکار ہی نہیں کیا، بلکہ اپنے مؤقف پر بڑی ڈھٹائی دکھائی اور اللہ کے سامنے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل بھی دینے لگا۔‘‘
اس کی تفصیل سورۃ الاعراف میں بھی ملتی ہے جس کا تذکرہ اس جگہ ضروری ہے:
’’اے انسانو! ہم نے تم کو بنایا پھر تمہاری شکلیں بنائیں، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم ؑ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ، سب نے سجدہ کر دیا، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا‘‘۔
اب اللہ اور ابلیس کے باہم مکالمے کا تذکرہ ہے:
’’جب مَیں نے تجھے حکم دیا تھا کہ توسجدہ کر تو تجھے میرا حکم ماننے سے آخر کس بات نے روکے رکھا۔‘‘
ابلیس نے یہ سُن کر جواب میں کہا کہ:
’’مَیں مرتبے میں آدم ؑ سے زیادہ بہتر ہوں۔‘‘
اس بہتر ہونے کی دلیل یہ دی:
مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے لہٰذا میں اس سے بہتر ہوں،کیونکہ مٹی کی خاصیت پستی ہے اور آگ کی خاصیت بلندی و عروج ہے لہٰذا عروج و بلندی کی حقیقت رکھنے والا پست کی صفت والے کے سامنے کیوں جھکے؟
محمدؐ بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟
اقبال کے ایک بڑے شارح نے حرف شیریں سے مراد جذبۂ عشق قرار دیا ہے،لیکن ہمارے نزدیک حرف شیریں رسول اکرمﷺکے فرمودات ہیں جو حدیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ و مصؤن ہیں۔ ان فرمودات کو صحابہ کرامؓ نے عملی شکل میں بھی جمع کیا اور کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔اسی شعر کا پہلا مصرعہ اس دعوے کی تائید ہے اور بہترین ترجمانی کر رہا ہے۔ فرمایا:
محمدؐ بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
محمدؐ کے قلب اطہر پر قرآن نازل ہوا۔ آپؐ کی بعثت اللہ کے حکم سے ہوئی۔ قرآن کا نزول بھی اے اللہ! تیرے ہی حکم سے ہوا۔ قرآن کو دُنیا میں نازل کرنے کی ذمہ داری اے اللہ! تو نے ہی جبرائیل ؑ کے سپرد کی۔ جبرائیل ؑ قرآن کو لوح محفوظ سے وصول کر کے انتہائی محفوظ طریق سے لے کر آتے اور رسول اکرمؐ تک پہنچاتے، اس طرح قرآن بھی تیری صفت ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تو نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور جبرائیل بھی تیرا ہی حکم بردار ہے۔
اب یہ بتا کہ یہ حدیث رسولؐ جو قرآن کی ترجمانی کرتی ہے یہ کس کی ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کے ساتھ حدیث رسولؐ بھی اصلاً تیری ہی ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے:
’’میرا نبی اپنی زبان سے کچھ بھی ادا نہیں کرتا جب تک کہ میں قرآن کے اسرار و رموز کو اس کے سینے پر نہ کھول دوں۔‘‘
اسی لئے مفسرین نے وحی کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔
ایک وحی متلو، یعنی وہ وحی الٰہی جس کی تلاوت کی جاتی ہے، یعنی قرآن مجید۔
دوسری وحی غیر متلو، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی، لیکن وحی غیر متلو اصلاً قرآن کی شرح ہی ہے ، جس کی مدد لئے بغیرانسان قرآن کے اسرار و رموز اور گہرائی تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔
علامہ اقبالؒ استفہامیہ انداز میں فرماتے ہیں کہ یہ حرف شیریں ترجمان یعنی حدیث بھی اصلاً تیری ہی باتیں اور تیرے ہی احکام ہیں جو رسول اکرمؐ کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں۔ اس لئے جہاں قرآن کو حق ماننا ضروری ہے وہاں قرآن کی ترجمانی کرنے والے حروف شیریں ترجمان ،یعنی حدیث کو ماننا بھی ضروری ہے، جس کے بغیر قرآن فہمی کا دعویٰ ممکن نہیں۔
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
پانچویں یعنی آخری شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ کوکب کی تابانی سے یہاں مراد محمدؐ اور آپؐ کا لایا ہوا قرآن ہے۔
علامہ مرحوم کا یہ خیال بھی قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے ماخوذ ہے فرمایا:
یہ دونوں یعنی قرآن اور صاحب قرآن کے ذریعے دنیا میں ہدایت کی روشنی پھیلی اور پھیلتی رہے گی، جو ان سے دور رہے گا وہ ہدایت سے دور رہے گا، جو ان سے جتنا قریب ہو گا وہ اسی قدر ہدایت کے نور سے مستفید ہو گا۔ اس کے باوجود دنیا میں پھیلی تاریکی اور ہدایت سے دوری، بدعملی جو نظر آ رہی ہے تو اے اللہ! تو اس نور ہدایت کو عام کر دے تاکہ ہدایت کی روشنی عام ہو جائے۔ یہ ضلالت گمراہی میں مبتلا انسان اگر گمراہی کا شکار رہا اور آخرت میں سزا کا مستحق ہوا تو اے اللہ! یہ نقصان بھی تیرا ہی ہے کیوں کہ یہ مخلوق ساری تیری ہی ہے، اگر بدعملی کی وجہ سے تیری یہ مخلوق دوزخ کی مستحق ٹھہری تو نقصان ظاہر ہے اے اللہ! تیرا ہی ہے۔
’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔‘‘
یہ اندازِ بیان بھی دراصل اللہ کی محبت کو متوجہ کرنے کا طریق ہی ہے جس میں انسانوں کو رب کے قریب لانے اور رب کو مخلوق کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے کی تمنا کا اظہار ہے۔ واللہ اعلم (ختم شد)