مدین واقعے پر وفاق کی تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات سامنے آگئے
سوات (ویب ڈیسک) ہل اسٹیشن مدین میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے تشدد سے ملزم کے مارے جانے کے واقعے سے متعلق وزارت داخلہ کے ماتحت ادارے کی رپورٹ سامنے آگئی ہے، جس کے مطابق ملزم نے توہین مذہب سے بارہا انکار کیا، جبکہ ایس ایچ او کی غفلت بھی ثابت ہوئی ہے۔
ر️پورٹ کے مطابق ایک نامعلوم سیاح نے مقتول کے دروازے کے سامنے برآمدے میں غالباً قرآنی صفحات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جلا کر پھینکے ہوئے پائے، اس سیاح نے ہوٹل انتظامیہ کو آگاہ کیا، جس کے بعد ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دی اور ملزم کے کمرے کا دروازہ زبردستی کھلوایا، رپورٹ میں کہا گیا کہ مقتول ملزم نے دروازہ کھولا تو لوگوں سے اس کا سامنا ہوا، اس نے قرآن پاک کی بے حرمتی سے انکار کر دیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقامی پولیس ہوٹل پہنچی اور ملزم کو تھانے لے گئی، یہ وہ کلیدی غلطی تھی جو مہلک نتائج کا باعث بنی۔ ایس ایچ او نے رہنمائی کے لیے کسی اعلیٰ افسر سے رابطہ نہیں کیا، ایسے حالات میں وہاں سے نکلنا ترجیحی اصول تھا لیکن ایس ایچ او نے اس کے برعکس کیا، رپورٹ کے مطابق تھانے میں پولیس نے ملزم کو کم از کم 30 سے 40 منٹ تک حراست میں رکھا۔
اس حوالے سے ڈی پی او زاہد اللہ نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ جب دوران حراست ملزم سے ابتدائی بیان لینے کی کوشش کی گئی تو اس نے وہاں بھی اصرار کیا کہ میں نے کوئی توہین مذہب نہیں کی اور اپنے خلاف الزامات مسترد کیے تھے.اس دوران ہجوم تھانے کے باہر اکٹھا ہوگیا اور تھانے پر دھاوا بول دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے دلیری سے صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کی، ہوائی فائرنگ کی اور ہجوم کا بھی مقابلہ کیا، لیکن اعلیٰ افسران یا سیاسی عمائدین کی غیر موجودگی کے باعث بہت دیر ہوچکی تھی اور نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا، رپورٹ کے مطابق پولیس اور ہجوم کے درمیان تصادم میں 11 افراد اور 5 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، تھانہ میں پولیس وین، دو موٹر سائیکلیں اور پانچ گاڑیاں بھی جلائی گئیں، واقعے میں ڈی ایس پی آفس اور ایس ایچ او کوارٹر کو بھی نقصان پہنچا۔
رپورٹ میں بتایا گیا عینی شاہدین کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ سینئر افسران کہیں آس پاس میں ہی موجود تھے کیونکہ وہ اعلیٰ حکام کو فوراً رپورٹ کر رہے تھے لیکن صورتحال کو سنبھالنے کے لیے وقوعہ پر نہیں تھے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزم کو نکالنے کے بجائے تھانے لے جانا، اور ہجوم کو سنبھالنے کیلئے سینئر افسران یا سیاسی طبقے کی عدم موجودگی کا نتیجہ اس واقعے کی صورت میں نکلا۔