غریب وزراء کی تنخواہیں بڑھ گئیں

ابھی سحری کے بعد نماز پڑھ کے سویا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔میں سمجھ گیا پروفیسر یبل کا فون ہو گا۔ جی ہاں ہم دوستوں کا ایک دوست پروفیسر ایسا بھی ہے جسے ہم سب بے تکلفی سے پروفیسر یبل کہتے ہیں یہ پروفیسر صاحب حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں خاص طور پر ان باتوں پر تو ان کی بہت زیادہ نظر ہوتی ہے جن کا ان کے فائدے یا نقصان سے تعلق ہوتا ہے۔ ایک ایسا ہی فون انہوں نے اس دن بھی سحری کے وقت کیا تھا جب وزیر خزانہ کا یہ بیان اخباروں میں چھپا کہ حکومت اگلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے پر غور نہیں کر رہی۔ اس دن وہ خاصے لال پیلے ہو رہے تھے، ان کا کہنا تھا مہنگائی نے ملازمین کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، پندرہ دنوں میں تنخواہ ختم ہو جاتی ہے اور حکومت شانِ بے نیاری سے کہہ رہی ہے، اگلے بجٹ میں تنخواہیں بڑھانے پر سرے سے غور ہی نہیں کیا جا رہا۔ میں نے اس دن بھی انہیں تسلی دینے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا یہ باتیں صرف آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے کی جاتی ہیں جب بجٹ پیش کرنے کا موقع آتا ہے تو تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہی پڑتا ہے، وگرنہ سرکاری ملازمین اسلام آباد پہنچ کر گھیراؤ کرلیتے ہیں اس پر انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں ایک اہم بات کی تھی۔ کہنے لگے یہ ماضی کی باتیں ہیں اب حالات بدل گئے ہیں اب بندہ غائب ہو جائے تو عدالتیں بھی برآمد نہیں کرا سکتیں۔ سرکاری ملازمین نے اس بار اسلام آباد کا رخ کیا تو حکومتی سختی ان کے چودہ طبق روشن کر دے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں پروفیسر یبل کا ایک زہر خند قہقہہ سنائی دیا۔ کہنے لگے حکومت کی بے خوفی اور جرائت کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ سترہ سو یوٹیلٹی سٹورز بند کرکے ہزاروں ملازمین کو فارغ کر رہی ہے، اسے کسی احتجاج کا ڈر ہے او رنہ اسلام آباد جام ہونے کی فکر، پھر کہنے لگے آپ دیکھتے جائیں اس ملک میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ خیر میں نے انہی کلمات کے بعد جب صبح سویرے کال کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے، اخبار پڑھا ہے، میں نے کہا نہیں ابھی آیا نہیں، فرمانے لگے میں تمہیں اس کی ہیڈلائن سناتا ہوں۔ وفاقی وزراء نے اپنی تنخواہوں میں بڑا اضافہ کرلیا،159سے 188فیصد تک بڑھا دی گئیں۔ یہ خبرچونکہ میں رات ٹی وی چینلوں پر سن چکا تھا، اس لئے حیرت نہیں ہوئی لیکن ان کا لہجہ اور غصہ اس بات کا غماز تھا کہ انہیں یہ خبر پڑھ کر آگ سی لگ گئی۔ کہنے لگے جو وزیرخزانہ یہ فرماتے تھے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر غور نہیں کیا جا رہا ان کی اپنی تنخواہ ایک سو ساٹھ فیصد بڑھ گئی ہے۔ ظاہر ہے وہ وزیرخزانہ ہیں ان سے منظوری تو لازمی لی گئی ہوگی۔ کیا اس وقت انہیں ذرہ بھر بھی خیال نہیں آیا کہ میں وزیرخزانہ ہوں، دیگ پر بیٹھ کر چاول بانٹنے والا شخص نہیں کہ جسے چاہوں پلیٹ بھر کر دوں اور جسے چاہوں انکار کر دوں، مگر نہیں صاحب انہوں نے تو دوسروں کی طرح سرکولیشن کے ذریعے سمری کی منظوری دے دی۔
میں سوچنے لگا پروفیسریبل کا اس موقع پر غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کیا تدبیر کی جائے گی۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا جھٹ کہا فکر نہ کریں میں اس پر ایک کالم لکھوں گا۔ آپ کی طرف سے احتجاج کروں گا۔ کہنے لگے ہاں ہاں ضرور لکھیں اور یہ بھی لکھیں کہ اپنی تنخواہوں میں اضافہ ڈیڑھ دو سو فیصد کرتے ہو، ملازمین کی تنخواہیں دس فیصد بڑھاتے ہوئے بھی تمہاری جان نکلتی ہے اور ہاں یہ بھی لکھنا ملازمین کے لئے خزانہ خالی ہو جاتا ہے اپنے لئے خزانہ خود ہی بھر کے بندربانٹ شروع کر دیتے ہو۔ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا گیا کیونکہ کسی بھی انکار کی صورت میں توپوں کا رخ میری طرف ہو سکتا تھا۔ میں یہ سوچ کر پروفیسر یبل کی معصومیت پر ہنسنے لگا کہ وہ سمجھتے ہیں میرے کالم لکھنے سے کسی کی بے حسی کم ہو جائے گی یا حکومتی وزراء یہ اضافہ لینے سے انکار کر دیں گے۔ یہاں بڑے سے بڑا پہاڑ ٹوٹ پڑے تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی ایک کالم کی بساط ہی کیا ہے۔ خیراچھی خاصی سماء خراشی کے بعد ان کا فون بند ہوا تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔ سحری کے بعد میری ایک گھنٹے کی نیند ویسے ہی ان کی نذر ہو چکی تھی اتنے میں ہاکر اخبار پھینک گیا۔ میں نے تفصیل جاننے کے لئے اخبار کا فرنٹ پیچ دیکھا تو وہاں جلی حروف میں لکھا تھا وزراء اور مشیران کی تنخواہ یکساں طور پر ایک لاکھ اسی ہزار روپے سے پانچ لاکھ انیس ہزار روپے ہو گئی ہے یعنی بیک جنبشِ قلم تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے کا اضافہ، یہ اضافہ خالص تنخواہ میں ہوا ہے، گاڑی، ہاؤس الاؤنس اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ واہ واہ سئیں واہ واہ، اسے کہتے ہیں دودو نالے چوپڑیاں، ایک طرف غریب اور سفید پوش سرکاری ملازمین، جن کی تنخواہ بھی بڑی مشکل سے دس فیصد بڑھتی ہے اور اس پر بھی ٹیکس لگا کر شب خون مارا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ ہماری اشرافیہ ہے جس کی تنخواہ ایسے بڑھائی جاتی ہے جیسے ملک راتوں رات سونے اور ڈالروں کی بارش میں نہا گیا ہو۔ پہلے یعنی بہت پہلے کے سیاستدانوں میں کچھ سر پھرے بھی ہوتے تھے۔ تنخواہوں میں اضافے پر احتجاج کرتے تھے۔ یہ مطالبہ بھی رکھتے تھے پہلے عام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں، پھر ہم قبول کریں گے مگر اب سیاسی حکام میں سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر چاہے اپوزیشن میں ہوں یا اقتدار میں، تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں، اب واضح طور پر شاہوں کا جہاں اور ہے غلاموں کا جہاں اور۔
ارکان اسمبلی سے لے کر وزراء تک اب سبھی لاکھوں روپے کی اضافی تنخواہوں سے بہرہ مند ہو چکے ہیں اس میں صوبوں کی قید رہی ہے اور نہ وفاق کی،سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی اعلیٰ یا شاید گھٹیا مثال قائم کر دی ہے۔ اب تو واقعی یہ شک یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے صرف نام کے عوامی نمائندے ہیں۔ انہیں عوام کے دکھ درد سے کوئی غرض نہیں۔ اسلامی تاریخ میں تو ہم سب یہ پڑھتے آئے ہیں کہ حاکمِ وقت پہلے رعایاکا سوچتا پھر اپنی طرف دیکھتا تھا۔ ہم نے پیوندزدہ کپڑوں والے عظیم المرتبت اسلامی حکمران بھی دیکھے جو اس ٹوہ میں رہتے تھے کوئی ایسا تو نہیں جو بھوکا سویا ہو۔ جو اپنی ذاتی ضرورت کے وقت سرکار کے تیل سے دیا تک نہیں جلاتے تھےّ ایسا نہیں کہ دنیا میں اب ایسا فلاحی نظما نہیں رہا۔ دنیا کے بڑے ممالک میں بھی وہ لوٹ نہیں مچتی جو ہمارے ہاں مچائی گئی ہے۔ امریکہ میں کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزراء ایک گردشی سمری کے ذریعے چند لمحوں میں اپنی تنخواہیں سو ڈالر سے پانچ سو ڈالر کرلیں۔ عوام کی تنخواہیں اور ویجز بڑھائے گئے اس قسم کا سکہ شاہی شب خون وہاں نہیں مارا جا سکتا۔