جمہوری سوچ دیانتدار کارکردگی، ترقی کے عوامل
اکثر سیاسی رہنما اور اراکین ایک دوسرے پر کڑی تنقید کرتے وقت ادب و احترام کی کو بے اعتنائی سے پامال کرتے رہتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس منفی انداز خطابت میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ بدقسمتی سے بدتمیزی اور تلخ کلامی کے جملوں اور القابات کے استعمال سے باہمی رنجش اور اشتعال انگزیزی کے جذبات کو ہوا دینے کو ہم اپنی کامیابی اور کارکردگی قرر دے کر حریف کو مات دینے کی سعی میں خوشی محسوس کرتے ہیں جبکہ ایسا طرز عمل تو کسی مہذب ملک اور معاشرے میں قابل ستائش ہونے کی بجائے قابل مذمت اور اصلاح طلب شمار کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک کے 25 کروڑ افراد آج بھی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ چند سال سے اشیائے خورد و نوش اور ضروریات زندگی میں بے تحاشا گرانفروشی ہونے ے عام لوگوں کی اکثریت روزانہ دو وقت کے کھانے کی دستیابی کی سہولت سے بھی محرومیت کا شکار چلی آ رہی ہے۔ اب گندم کی فصل قدرے بہتر اور خوراک کی قیمتوں میں کچھ کمی ہونے سے عوام کے مسائل کی شدت ایک حد تک نیچے آ رہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظر کرم اور نوازش ہے۔ جس پر سب محب وطن مرد و خواتین کو عاجزی اور انکساری سے خالق کائنات کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اس برتر ہستی سے آئندہ کے حالات میں بھی اس کی رحمتوں اور برکتوں کے لئے التجا اور دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرنے میں غفلت اور تساہل ترک کرنا ضروری ہے۔
دین حق اور اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہترین امت ہونے کے بلند مرتبہ سے سرفراز فرمایا ہے۔ وطن عزیز میں 95 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جن کے لئے باہمی حقوق العباد کا خیال رکھنا اور عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ ان حقائق کا علم ہونے کے باوجود وطن عزیز میں سیاسی اور سماجی رہنما عوام کے مسائل حل کرنے میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں بروئے کار لانے سے گریزاں اور مطلوبہ مثبت مقاصد کے حصول میں ناکام ہیں؟ جبکہ رب العالمین نے ماشاء اللہ ہمیں بیشتر مادی وسائل اور جوان صحت مند ذہین جفا کش افرادی قوت کی کثیر تعداد سے نواز رکھا ہے۔ لیکن ان بڑی نوازشات کے باوجود وطن عزیز کی معاشی حالت گزشتہ کئی سال سے ابتر اور مفلوج چلی آ رہی ہے۔ دوسری جانب یہاں کئی رہنماؤں کے معاشی حالات وقت گزرنے کے ساتھ نسبتاً مختصر عرصوں میں بڑھ کر کئی گنا ہوتے دیکھنے میں آئے ہیں جبکہ قومی وسائل میں کمی اور سیاسی رہنماؤں کے مفادات میں بے تحاشا اضافہ کے رجحان سے عیاں ہوتا ہے کہ یہاں سیاسی قیادت کے اکثر نمائندے اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں درست انداز اور سمت میں ادا کرنے سے اجتناب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا فکر و عمل بلا شبہ منفی، افسوس ناک اور ملکی معیشت کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ اس روش میں قومی فلاح و بہبود کے لئے فوری تبدیلی پیدا کرنے کی سوچ اور عملی کارکردگی کے جوش و جذبہ کو اجاگر کر کے بہتر نتائج کا حصول ممکن بنانا بیشک ہر شخص کا نصب العین ہونا چاہئے۔
سیاستدان اگر نمائندگی کے حق پر ایک دوسرے کی آئینی و قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے روگردانی کر کے اپنی من مانی کی ڈگر پر چلنے کو ترجیح دیں گے تو ملکی نظم و نسق ان حالات میں جاری کیسے رہ سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن ایک قومی ادارہ ہے اس کی اہمیت اور افادیت کو بلا شک و شبہ جان کر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو حتی الوسع ممکن بنانا اس ادارے کے ساتھ انتخابی امیدواروں کی بھی اہم ذمہ داری ہے تاکہ وہ امیدوار اور ان کے کارکن پولنگ مقامات کے قریب حساس حصوں اور گوشوں میں کسی غیر قانونی حرکت شرارت اور چالبازی کامیاب نہ ہونے دیں۔ کیونکہ وہی لوگ اس وقت وہاں زیادہ تر موجود اور موثر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ امر ذہن نشین رہے کہ کسی مخصوص جماعت کے امیدواروں کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ڈالنے کے تاثر کا پراپیگنڈہ کر کے ووٹروں کو آزادی رائے کے منصفانہ استعمال سے ہرگز روکنے کی کوئی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ جمہوریت کو فروغ صرف آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز کی ووٹ دینے کی اجازت سے ہی ہوتا ہے۔ جبکہ دھونس اور دباؤ ڈالنے کی حرکات سراسر ناجائز اور غیر جمہوری ہونے کی بنا پر حوصلہ شکنی اور مسترد کی جانے کی مستحق ہیں۔ جاگیر داری، وڈیرا شاہی اور سرمایہ داری حربوں کے ظلم و جبر کے استعمال سے جمہوری انداز میں رائج آزادانہ اور منصفانہ حق رائے دہی سے زبردستی لوگوں کو اپنی پسند کے امیدواروں کو منتخب کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اس طرح تا حال ملک کے کئی حلقوں میں غیر قانونی دباؤ اور دھمکیوں کا خوف و ہراس پھیلا کر اکثریتی عوام کی خواہش کے برعکس جمہوری نمائندے منتخب کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے دھونس اور دھمکیوں سے غریب مفلس اور پسماندہ سطح کے لوگوں سے ملک کے مختلف بلکہ زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں آج کل بھی بعض امیدواروں کی حمایت میں ووٹ لئے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ غربت تو وطن عزیز میں وقت گزرنے کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہی ہے اور تازہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی اکثریتی آبادی غربت کے عالمی معیار سے نیچے چلی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ صورت حال غالباً جمہوری نمائندوں کے غلط انتخاب کی بنا پر دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بصورت دیگر جمہوری نظام کی صحیح انداز کی نشوونما سے وطن عزیز میں عوام کی مشکلات میں تا حال خاصی قابل ذکر حد تک کمی لائی جا سکتی تھی۔ اللہ کرے ہمارے سیاسی رہنما راہ راست پر آکر اپنی ذمہ داریاں خلوص نیت سے نبھانے کو ترجیح دینے لگیں تو ملک بھر میں محض آئندہ چند سال میں مختلف شعبہ زندگی میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور ترقی کی راہیں کھلنے سے ملکی معیشت میں حیران کن طور پر ثمرات سے فیض یاب ہونے کے حالات اور مواقع دستیاب ہونے کا قوی امکان ہیں۔