شاہ مدینہ ﷺ...!
12 ربیع الاول کی شب درود و سلام کی "روح پرور بہار" میں مدینہ منورہ بڑی شدت سے یاد آیا...دل اداس اور آنکھیں نم ہو گئیں...شہر رسولﷺ کا تذکرہ بھی مدحت ﷺ ہی ہے...شاہ مدینہ ﷺ کی" مہر مبارک" سے مشروط "مدینے کا سفر" بڑے نصیب کی بات ہے....ادھر منظوری ہوئی،ادھر بلاوا آگیا،ادھر حاضری ہو گئی...لمحوں میں برسوں سے سوئے نصیب جاگ اٹھتے ہیں..." ضیوف الرسول "بڑے ہی مقبول لوگ ہوتے ہیں....آقا کریم ﷺ کے مہمانوں کی" فہرست" میں نام آ جائے تو اس سے بڑی خوش بختی کیا ہو سکتی ہے؟؟؟عید میلاد النبیﷺ پر طیبہ کی یاد میں دل اتنا مچلا کہ حرم مسجد نبویﷺ میں اپنی ننھی بیٹی کے ساتھ پرانی تصویر شئیر کرکے دل کو حوصلہ دیا...
صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنہم کی عالی شان بستی"جنت البقیع"میں آرام فرمامرشدمولاناعبدالحفیظ مکیؒ کےالفاظ کانوں میں"رس"گھولتےہیں..یہ 2013/14ء کی بات ہے...وہ جب فون کرتے بڑی محبت سے ایک بات پوچھتے کہ حرمین شریفین کب آ رہے ہیں؟؟؟؟میں جواب دیتا حضرت پوری تیاری ہے مگر منظوری کا انتظار ہے.....مسجد نبوی شریف کے بزرگ مدرس جناب قاری بشیر احمد صدیق کا بھی یہی سوال ہوتا... ان سے بھی گذارش کرتا روضہ رسول ﷺ پر "ہماری عرضی" گذار دیجیے کہ سلام کے لیے غلام حاضر ہو جائیں...پھر 2015ءمیں "کرم" ہو گیا اور ہمارا "ننھا سا قافلہ"پیارے حضور کے دیس چل دیا ...کبھی نہ بھولنے والا ایک یاد گار سفر...یہ اسی سفر کی تصویر تھی...!!!
2006ءمیں ہمارے پہلے عمرے کی" روداد" اس سے بھی زیادہ "دلنشین" ہے......ادھر دل میں مدینے کا خیال آیا،ادھر مدینے کا ٹکٹ مل گیا... میں ان دنوں خبریں میں تھا...پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام "دیال سنگھ مینشن" میں عمرہ کی قرعہ اندازی تھی...اس شب مجھے شدید فلو تھا... میں نےسوچا ریگل چوک سے جوشاندہ لاتا ہوں اور قرعہ اندازی کے عمل میں بھی شریک ہو آتا ہوں...سو پیدل ہی نکلا،کچھ دیر محفل میں بیٹھا...ایک نعت سنی اور شناختی کارڈ باکس میں ڈال کر واپس دفتر آگیا...رات ایک دو بجے ہمارے کولیگ "ستار نیازی" نے فون پر "جذباتی انداز" میں "خوشخبری" دی کہ مبارک ہو آپ کا عمرہ کا ٹکٹ نکل آیا ہے...کچھ ہی دنوں میں خالہ بھی ساتھ تیار ہو گئیں اور ہم نے پندرہ رمضان المبارک کی سحری مدینہ منورہ جا کرکھائی... کعبہ کے سائے اور گنبد خضرا کی چھاؤں تلے جو مانگا وہ مل گیا....!!!!
اپنے وقت کے درویش جناب اشفاق احمد کی "صوفیانہ صحبت "سے "فیض یاب" افتخار افی نامور ادیب ،شاعر، ڈرامہ نویس اور فلم نگار ہیں...وہ "مدینے کے سفر" کی ایمان افروز داستان سناتے رو دیتے ہیں...کہتے ہیں1994ء کی بات ہے کہ عمرے کی خواہش خواب بن گئی...ہم اُس وقت صرف ڈھائی ہزار کے ملازم تھے اور عمرے کا خرچہ اکیس ہزار تھا... وقت گزرتا گیا اور ہم شوبز میں آگئے ...ان دنوں ہمیں چھوٹے چھوٹے رول ملا کرتے تھے وہ بھی کبھی کبھار ... سترہ دن خوشحال اور تیرہ دن بد حال رہتے ...روز تڑپتے کہ اللہ عمرے کی کوئی سبیل پیدا کردے مگر تنگ دستی آڑے رہی... اسی آرزو میں انیس سال بیت گئے...ہم نے بھی دعا ترک نہ کی...جب ناامیدی دامن گیر ہوتی ہم اپنی اماں کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرتے تو وہ دلاسہ دیتیں فکر نہ کر افی بیٹا تیرے ارمان ضرور پورے ہونگے...
ایک روز اے پلس ٹی وی کے کاشف کبیر صاحب کی کال آئی ...ہم جا کر ملے ،کہنے لگے حضرت سُلطان باہو سرکار کی زندگی پر ایک ڈرامہ سیریل لکھنی ہے ...ہم نے فٹ سے حامی بھر لی کیونکہ ہمیں صوفیائے اکرام سے دلی لگاؤ تھا ، ہم نے تقریبأ ہند سندھ کے سارے صوفیاء کو پڑھ رکھا تھا.... جنوری 2013ءمیں ہم نے جبار صاحب سے 45 ہزار فی قسط لکھنے کا معاہدہ کیا اور ڈھائی لاکھ ایڈوانس کا چیک لیکر اے ٹی وی سے نکل آئے ...ارادہ یہ کیا کہ روضہ رسول اللہ ﷺ پر بیٹھکر ڈرامے کا پہلا سین لکھیں گے ...اس غرض سے عمرے کا ویزا لگوایا اور جب ٹکٹ کی باری آئی تو ہمیں ٹکٹ لاہور سے دبئی ، دبئی سے جدہ کا ملا... افتخار ٹھاکُر کی زبانی معلوم ہوا کہ مدینہ میں ائیر پورٹ بن چکا ہے ... دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ پہلے مدینہ جائیں مگر لاہور دبئی اور دبئی مدینہ کا ٹکٹ سولہ ہزار مہنگا تھا...ہمارے پاس دستیاب پیسوں میں مدینہ کا ٹکٹ نہیں آ سکتا تھا...ہم نے دل پر پتھر رکھا اور جہاز پر سوار ہوگئے ... ایمریٹس ائیر لائنز کی پرواز تھی ...دبئی کے ٹرمینل تھری پر دس گھنٹے کا "سٹے" تھا اور اس کے بعد جدہ کی فلائٹ تھی ...
ہمارے دل میں تڑپ تھی کہ کاش پہلے مدینہ جاتے...فلائٹ سے دو گھنٹے پہلے اچانک ایمریٹس کی طرف سے اعلان ہوا کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائٹ جدہ نہیں مدینہ جا رہی ہے... ہم نے اناؤسمنٹ سُنی تو کانوں پر یقین نہ آیا... جب کنفرم ہوگیا کہ ہم دلی مراد پانے جا رہے ہیں تو آنسوؤں کا سمندر تھا اور افی میاں تھے ...افی میاں کے ہاتھ میں جدہ کا "بورڈنگ پاس "تھا اور وہ مدینہ جا پہنچا... جب یہ واقعہ یاد آتا ہے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی ہے... جدہ کا وہ "بورڈنگ پاس" آج بھی میں نے سنبھال رکھا ہے...
صوفی بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب کے "مرید"ممتاز مفتی صاحب اپنے سفرنامہ حج" لبیک"میں ایک خاتون کی ایسی ہی" پرسوز کہانی "لکھتے ہیں:تقسیم ہند کے وقت حمیدہ دس سال کی ایک خوب صورت لڑکی تھی...سکھوں کے ایک جتھے نے ان کے گاؤں پر حملہ کر دیا...وہ جاتے ہوئے حمیدہ کو بھی ساتھ لے گئے...وہاں پہنچ کر وہ حمیدہ کور بن گئی...پھر تین سال کے بعد وہ لہنا سنگھ کی بیوی بنا دی گئی...اس کے گھر دو بچے پیدا ہوئے...اس کے باوجود وہ گھر حمیدہ کا گھر بنا نہ وہ ان بچوں کی ماں بن سکی...وہ صبح شام، دن رات دعا کرتی کہ یا اللہ مجھے اس" کال کوٹھری" سے نکال...پھر حالات نے ایسا رخ پلٹا کہ ہندوستانی پولیس حمیدہ کو پاکستان چھوڑ گئی...بڑی مشکل سے اسے ماں باپ کا گھر مل گیا لیکن والدین نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا... وہ برادری کی وجہ سے مجبور تھے کیونکہ حمیدہ سکھ کی بیاہتا اور دو سکھ بچوں کی ماں تھی...حمیدہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گڑگڑا کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺمجھ پر میرا وطن تنگ ہو گیا ہے...میرے اپنے ماں باپ کے گھر کا دروازہ بند ہو گیا ہے...میرے لیے اب دنیا میں کوئی پناہ گاہ نہیں رہی... یا رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے قدموں میں بلا لو...حضور ﷺ کے قدموں میں امان پانے کی خواہش حمیدہ کے دل میں جنون بن گئی...لیکن مدینہ منورہ پہنچنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی...دو ایک سال میں "جیسے تیسے" رقم اکٹھی ہوئی تو حمیدہ عازم مدینہ ہوگئی...جب وہ مدینہ کے قریب پہنچی تو اس کے دل پر وحشت سوار ہو گئی...اسے خیال آیا کہ وہ تو "ناجائز کمائی" سے وہاں پہنچی ہے...وہ کس منہ سے مدینہ پاک داخل ہو سکتی ہے۔..ناپاک جسم لیکر کس طرح مسجد نبویﷺ میں حاضری دےسکتی ہے...روتےروتےحمیدہ کی گھگی بندھ گئی...اسی حالت میں اس کی آنکھ لگ گئی.....حضور ﷺ تشریف لائے اور فرمایا:اٹھو حمیدہ ملال نہ کرو...دیکھو تمہارا جسم کتنا پاکیزہ ہے.۔.حمیدہ نے دیکھا کہ اس کا جس منور تھا... وہ جاگی تو اس نے اپنے آپ کو مسجد نبویﷺ میں پایا....پھر حمیدہ نے زندگی مدینہ میں ہی گذار دی...
مفتی صاحب اسی طرح کا ایک اور واقعہ نقل کرتے ہیں:عالم ایک عیاش تاجر تھا...دنیا کی سیاحت کے لیے پاکستان سے نکلا...اتفاق سے پہلے سعودی عرب جا پہنچا...سوچا چلتے چلتے عمرہ ہی کر لیں...مکہ معظمہ پہنچ کر اس نے شدت سے محسوس کیا کہ وہ ایک غلیظ شے ہے.۔.یہ احساس اس پر طاری ہوتا گیا...پھر اس نے محسوس کیا کہ لوگ حیرت اور نفرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں...عالم سر پر پاؤں رکھ کر مکے سے بھاگا...سوچنے لگا کہاں جاؤں؟مدینے شریف جانے والی ایک بس نے اسے اٹھایا...مدینہ شریف داخل ہونے سے پہلے اسے خیال آیا اگر یہاں بھی پناہ نہ ملی تو؟؟اس پر خوف طاری ہو گیا...وہ بس سے اتر گیا.۔.ڈرتا ڈرتا پیدل شہر میں داخل ہوا...پھر عالم نے خواب کے عالم میں دیکھا کہ شہر کے باہر حضور ﷺ خود کھڑے تھے...کریم آقا ﷺ نے فرمایا...آجاؤ عالم ڈرو نہیں...پھر عالم" فقیر مدینہ" بن کر دنیا سے گیا...
سوشل میڈیا پر قدرت اللہ شہاب سے منسوب ایک مکالمہ پڑھنے کو ملا... اس گفتگو کے ایک جملے نے رلا دیا...کہتے ہیں ایک دوست کو فکر لاحق ہوئی کہ مدینہ منورہ میں ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟؟؟ پوچھنے لگے مدینہ میں ہے کوئی جان پہچان والا ؟؟اس سوال پر میرے مضطرب دل کے سارے تار ہل اٹھے اوربدن میں ارتعاش بپا ہو گیا ...میں نے کوئی جواب دیے بغیر اپنے آپ سے پوچھا کہ مدینے میں ہے کوئی جان پہچان والا ؟؟؟ اس سوال کے ساتھ ہی میری آنکھیں بھر آئیں.۔.!!میں نے دوست کو بتانا چاہا کہ ہاں ہے بہت ہی دیرینہ اور بڑا گہرا تعلق ہے ان سے ...وہی مجھے بار بار بلاتے، میری میزبانی کرتے، میرے ساتھ ساتھ رہتے،میرے غم بانٹتے اور آنسو پونچھتے ہیں...میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کچھ نہ کہہ سکا...بڑی مشکل سے میرے منہ سے ایک جملہ نکلا کہ مدینہ میں بھی بھلا کوئی اجنبی ہوتا ہے؟میرے دوست کے رخساروں سے بھی آنسو ڈھلکنے لگے...!!!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔