آفریں صد آفریں،اے رشید آفریں!
آفریں صد آفریں، رشید آفریں ’’وجہِ آفریں‘‘ سے شروع ہو کر ’’حصارِ جُنوں‘‘ تک آ پہنچے!۔۔۔حالانکہ وہ نہایت،عاقل، بالغ،باشَعور مفکر و متفکر انسان ہیں۔ جُنوں کے حصار میں ہونا ان سے متوقع نہیں، مگر وہ ہیں تو کیا کریں؟ محمد رشید اصل نام 24 مارچ 1938ء کو شہر اقبال و فیض میں چودھری محمد خورشید کے ہاں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ اُنھیں کچھ ایسا پسند ہے کہ بہت کم کم اس سے باہر گئے آئے۔ساری عمر یہاں ہی بِتا دی، شاعری کی للک شروع سے تھی ایم اے(اُردو) تک تعلیمی قابلیت ، مگر درس و تدریس سے علاقہ نہیں اُن کے ایک صاحبزادے محمد تحسین البتہ پروفیسر ہیں۔محمد رشید نے آفرین تخلص رکھ کے دُنیائے ادب میں قدم کیا رکھا کہ اکبر لاہوری کی شاگردی اختیار کر کے کلام پر آفریں آفریں کے ڈونگرے برسنے لگے۔ ’’وجہِ آفریں‘‘ پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1972ء میں شائع ہوا۔یہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت کا میرا پہلا دور تھا جو1966ء سے 1980ء تک رہا۔ اُسی دَور میں ’’وجہِ آفریں‘‘ پر تبصرہ شائع کیا اور گاہے بہ گاہے کلامِ بلاغت نظام بھی۔!اُن کی طلب اور مسلسل اصرار پر اکثر سیالکوٹ آنا جانا اور ادبی تقریبات کی صدارت کرنا یا مہمانِ خصوصی بننا بھی مقصد رہا۔رشید آفریں مہمانِ عزیز کی پذیرائی میں بچھ بچھ جاتے اور واپسی کے سفر میں رخصت کرتے وقت تحفے تحائف اور سیالکوٹ کی مخصوص مٹھائی یا کسی نہ کسی سوغات سے نوازنا نہیں بھولتے۔۔۔! پہلے شعری مجموعہ ’’وجہِ آفریں‘‘ کا دوسرا ایڈیشن 1998ء میں چَھپا اور پھر ’’دستِ ساحل‘‘ بھی دوبار 1995ء اور 2015ء میں شائع ہوا‘‘۔ ’’دامنِ احساس‘‘ ۔۔۔’’فخرِ دو عالمؐ ‘‘ (نعتیہ)۔’’بزم یاراں‘‘ اور اس کے بعد اب ’’حصارِ جُنوں‘‘ پیش نظر ہے۔’’بزمِ یاراں‘‘ میں زیادہ تر وہ منظومات شامل ہیں جو رشید آفریں صاحب نے مختلف ادبی و سماجی شخصیات پر لکھیں۔ایک نظم اِس خاکسار ناصِر زیدی پر بھی شریکِ اشاعت ہے۔یہ مجموعہ1916ء میں چَھپا اور 1917ء کا تازہ ترین چھٹا مطبوعہ مجموعہ ’’حصارِ جُنوں‘‘ ہے جو رشید آفریں کی مخصوص انفرادی طرزِ فکر کا حامل ہے،اِن کی شاعری زیادہ تر تفکر کی شاعری ہے جس میں وہ خود سوچ بچار میں مبتلا نظر آتے ہیں اور اپنے قاری سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں اور خود شناسی کے بعد کہتے ہیں:
کِسے معلوم تھا اک آفریں نادان دیوانہ
زمانے بھر کا سب دُکھ درد سینے میں سمو لے گا
مجموعے کا نام ’’حصارِ جُنوں‘‘ جس غزل سے کشید کیا گیا ہے، ’’حصارِ جُنوں‘‘ کی ردیف میں وہ بارہ اشعار کی غزل اندرونی فلیپ نمبر ایک پر درج ہے، اس غزل کے دو تین شعر ملاحظہ ہوں:
ضیائے وہم و گماں سے بَنا حصارِ جُنوں
فصیلِ صبر و رضا میں ڈھلا حصارِ جُنوں
کہیں ہے سرکش زمانے کی آندھیوں کی طرح
کہیں ہے حَبسِ دَوامِ ہَوا حصارِ جُنوں
مَیں ایک بندۂ شاعر ہوں اور کچھ بھی نہیں
سَبھی کہیں کہ مری ہے اَنا حصارِ جُنوں
اِس غزل کے دوسرے شعر کو مَیں لفظ ’’سرکش‘‘ کی جگہ ’’گرم‘‘ لگا کے یُوں سہولت سے پڑھ سکا:
کہیں ہے گرم زمانے کی آندھیوں کی طرح
کہیں ہے حَبسِ دَوامِ ہَوا حصارِ جُنوں
’’ حصارِ جُنوں ‘‘ میں غزلیں،نظمیں،حمد، نعت، نغمات اور قطعات سبھی اصناف سخن میں شاعر کی دسترس کا ثبوت ملتا ہے، تاہم یہ حیثیتِ مجموعی غزل کا پلہ بھاری ہے کہ بقول فضل احمد کریم فضلی:
نظم ہے اپنی جگہ خوب مگر ہائے غزل
تفکر کی شاعری سے ہٹ کر تغزل کی شاعری سے چند منتخب اشعار مُلاحظہ ہوں:
جس طرف دیکھوں نگاہوں میں وہی تصویر ہے
سوجھتا ہی کچھ نہیں اب دِل کے آ جانے کے بعد
دِل کو جانے ہے کیا مِلا تجھ میں
چھوڑ کر مجھ کو جا بَسا تجھ میں
نہ اُس نے بے وفا مجھ کو کہا ہے
نہ مَیں الزام اس پر دھر رہا ہوں
حصارِ خوش بُو میں ہوں کسی کے
اگرچہ کوئی یہاں نہیں ہے
مومن خاں مومن کا ضرب المثل شعر یونہی بلاوجہ، بِلا ارادہ یاد آیا:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
صفحہ122پر ایک غزل کا مطلع ہے:
آدمی بُلبَلا ہے پانی کا
ہے یہی راز زندگانی کا
اور کئی مصرعوں کی طرح یہاں بھی پہلا مصرع’’واوَین‘‘ میں یعنی ’’اِنوَرٹڈ کوماز‘‘ میں ہونا چاہیے تھا،کہ کسی اُستاد کا مشہور شعر ہے:
کیا بھروسہ ہے زندگانی کا
آدمی بُلبَلا ہے پانی کا
ایک اور غزل کا ایک شعر ہے:
اپنے خُوں سے جلا کر جو دیپک چلے
منزلوں پر نہ اُن کو ملی روشنی
بے شک رنگِ زمانہ اور طرزِ منافقانہ یہی ہے بقول محسن بھوپالی بھی کہ:
نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل اُنھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے