سپریم کورٹ کے سامنے سپریم کورٹ
پی ٹی آئی کا دوسرا جلسہ بھی ہو گیا۔ لاہور کے علاقے گجو متہ سے سے متصل رنگ روڈ پر قائم سبزی منڈی میں جگہ ملی اور پی ٹی آئی اس کے لئے بھی مان گئی جس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی نے بھی اعتراف کرلیا کہ عمران خان کے بغیر مینار پاکستان نہیں بھرا جا سکتا ، لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان بھی جنرل پاشا، جنرل ظہیر اور جنرل فیض حمید کے بغیر مینار پاکستان نہیں بھر سکتے اور نہ ہی خالی کرسیوں کے دھرنے کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔
اس کے باوجود عوام میں عمران خان کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے باوجود کہ لوگ پی ٹی آئی کے جلسوں کو ٹی وی سکرینوں یا سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ عمران خان اپنی اور عثمان بزدار کی نااہلیوں اور بشریٰ پیرنی کی ہمراز فرح گوگی کی کرپشن کی وجہ سے عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے لیکن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے انہیں پھر سے زندہ کردیا اور اب وہ ملک کے مقبول ترین سیاستدان ہیں، اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ملک بھر میں مقبول تو ہیں مگر ملک بھر کے عوام کو قابل قبول نہیں ہیں،لیکن پی ٹی آئی ان کی مقبولیت کو ان کی قبولیت کے معنے پہنا کر اپنی سیاست چمکائے ہوئے ہے۔ دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چالیس پچاس برسوں سے نون لیگ تواتر کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر براجمان ہے۔ درمیان میں جنرل مشرف کے زمانے میں چودھری پرویز الٰہی کی لاٹری ضرور لگ گئی تھی مگر عوام نے انہیں پھر رد کردیا اور تمام تر نوازشات انجوائے کرنے کے باوجود انہیں ملکی سطح کا لیڈر ماننے سے انکار کردیا۔تاہم نون لیگ کی 1990سے اب تک مسلسل مقبولیت نے ایک اعتبار سے ان کے مخالفین کو اکٹھے بھی کردیا ہے، اس سے قبل وہ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے دھڑوں میں تقسیم تھے مگر پھر تین جرنیلوں کی مہربانی سے سب کے سب دھڑے تحریک انصاف میں ضم ہو گئے اور عوام نے بھی نوازشریف کو مسترد کرنے کے لئے اس اکٹھ پر رضامندی دے دی۔ اب وہ سارے دھڑے جانتے ہیں کہ ان کی تمام تر کوشش کے باوجود پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت ابھی بھی قائم دائم ہے، اس لئے وہ آخری امید کے طور پر عمران خان سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے بعد مریم نواز کی پنجاب میں مقبولیت کو آصف زرداری یا بلاول بھٹو چیلنج نہیں کر سکتے، اس لئے بھی لوگ منہ کے سواد کے لئے نواز شریف کو برا بھلا اور عمران خان کو مقبول لیڈر کہتے پائے جاتے ہیں۔
اس سے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں ایف بی آر کی تاجر دوست سکیم کے سربراہ معروف تاجر رہنما نعیم میر سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہ کہنے لگے کہ ملک کی معاشی بہتری کے لئے وہ تاجر دوست سکیم پر تاجروں کی بجائے ایف بی آر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم نے عرض کی کہ شہباز شریف اور نواز شریف کی طرح آپ بھی ریاست کے لئے سیاست قربان کرنے کے جذبے سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ کہنے لگے کہ اب اتنی دیر سے تو میں تاجر برادری کی سیاست کو کامیابی سے کر رہا ہوں، مزید اور کتنی دیر تک ایک ہی راگ الاپتا رہوں گا اس لئے اگر زوال آتا بھی ہے تو کوئی بات نہیں کہ بہت دیر تک میں نے عروج بھی تو دیکھا ہے ،کچھ ایسا ہی حال نواز شریف کا بھی ہے کہ وہ تین بار ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہیں اور اب چوتھی بار نہیں بھی بنے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ مرکز اور پنجاب میں ان کی اجازت کے بغیر اب بھی چڑیا پر نہیں مارتی، اس لئے اگربغض نواز میں نواز لیگ مخالف حلقے عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر اکٹھے بھی ہو چکے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ خود نواز شریف اتنے لمبے عرصے تک عروج دیکھ چکے ہیں کہ اب مزید دیکھنے کی خواہش ان کے چہرے سے ٹپکتی دکھائی نہیں دیتی۔
مسئلہ تو نواز مخالف حلقوں کا ہے جنھیں پنجاب میں مریم نواز کی وزارت اعلیٰ ایک آنکھ نہیں بھاتی، حیرت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی وہ خواتین جو اپنے آپ کو خواتین کے حقوق کی چمپیئن کہلواتی اور عورت کی خودمختاری کیلئے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچتی ہیں، انہیں بھی مریم نواز ایک آنکھ نہیں بھاتی ہیں اور وہ کھلے بندوں مریم نواز کو خاتون ہونے کے باوجود کوستی پائی جاتی ہیں۔ یعنی نواز شریف سے بغض ا ن سے جڑی مریم نواز کے لئے بھی اتنا ہی زوردار ہے کہ مخالف خواتین بھی ایک خاتون کا وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تاہم نواز مخالف حلقے اس بات کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں کہ اب ان کی پشت پر ایسٹیبلشمنٹ کا کوئی جنرل پاشا یا جنرل فیض حمید نہیں ہے اور آگے سیاست کے دریا میں اپنی نیا کو اپنے ہی زور بازو پر کھینچنا پڑے گا۔ اس جلسے کے انعقاد سے پی ٹی آئی کا ضعف مزید ہویدا ہوگیا ہے اور لاہور میں جلسے کے لئے جس طرح لاہور سے باہر کے لوگوں کو گاڑیوں میں بھر بھر کر لانا پڑا ہے وہ اس بات کو مزید تقویت دے گا کہ عمران خان کی ساری مقبولیت خیبر پختونخوا تک محدود ہوتی جارہی ہے اور وہ پنجاب میں نون لیگ کی مقبولیت کو ختم نہیں کرسکتے، اسی لئے تو نون لیگ اور بلاول بھٹو بلا خوف و خطر سپریم کورٹ کے سامنے سپریم کورٹ کھڑی کرنے جا رہے ہیں تاکہ ججوں کی سیاست کو نکیل ڈالی جا سکے جنھوں 2011سے عمران خان کو لاڈلا بنا رکھا ہے اور ملکی سیاست میں اودھم مچایا ہوا ہے۔