زبانِ یار جا پانی ۔۔۔ اور 100ڈالر 

زبانِ یار جا پانی ۔۔۔ اور 100ڈالر 
زبانِ یار جا پانی ۔۔۔ اور 100ڈالر 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:169
ناشتہ کر کے علی آ باد کی ویگن تلاش کی تو پتا چلا کہ دو بارہ ڈاک خانے تک جانا پڑے گا جہاں سے ویگنیں چلتی ہیں۔ ندیم اور اعظم کو بھیجا کہ سامان یہاں چھوڑ دیں اور جا کر ویگن میں سیٹیں رکھ کر لے آ ئیں۔ ہم اپنے سامان کے پاس بیٹھ کر ویگن کا انتظار کرنے لگے۔ قریب ہی ایک جا پانی لڑکی مقامی ٹیکسی ڈرائی ور سے جھگڑ رہی تھی۔ دو نوں کا مکالمہ لِسّانی رکاوٹ کی وجہ سے ہمارے مسلکی اختلافات کی طرح یوں الجھا ہوا تھا کہ ایک کو دوسرے کی بات نہ تو سمجھ آرہی تھی اور نہ دونوں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ جاپانی لڑکی نے سوست سے کریم آباد کے لیے ویگن بک کروائی تھی۔جو ڈرائیور نے ”ہنڈرڈ“ (اپنی دانست میں”ڈالر“) میں بُک کی تھی۔اب وہ لڑکی اسے ہنڈرڈ ”روپے“ کا ایک نیا اور کرارا بلکہ کنوارا نوٹ پیش کر رہی تھی۔ ڈرائیور بار بار ”ہنڈرڈ ڈالر“ کی تکرار کرتا جب کہ جا پانی لڑکی شہادت کی انگلی گا ڑی کے وائپر کی طرح ہلا ہلا کر ”نو، نو، ہنڈرڈ، ون ہنڈرڈ“ گردان کرتے ہوئے اسے سو روپے کا نوٹ تھماتی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ اگر”سو ڈالر“ ظلم کی حد تک زیادہ تھے تو ”سو روپے“ افسوس کی حد تک کم تھے مگر سیّاح کون سے نواب ہوتے ہیں۔ ڈرائیور نے سوچا ہوگا (اور میرا تجربہ ہے کہ ڈرائیور کبھی اچھا نہیں سوچتے) کہ اس جاپانی سیا ح لڑکی کے پاس ڈالر کے علاوہ کوئی اور کر نسی ہوگی ہی نہیں لیکن نتیجہ اس کی توقع سے مختلف اور تاب سے کہیں زیادہ برا نکل آیا تھا۔ وہ جا پانی لڑکی بھی اپنے فیصلے اور بٹوے کی بہت پکی تھی۔ بہت دیر تک سر کھپائی کے بعد تنگ آ کر ڈرائیور نے سو روپے لینے سے بھی انکار کر دیاجس پر جا پانی بی بی نے ”تھینک یو“ کَہہ کر پیسے پنٹ کی جیب میں ڈالے اور چلتی بنی۔ہوتا کوئی مری یا ناران کاڈرائیور تو اس بی بی کو پتا چلتا۔
 ویگن آ ئی تو ہم بھی علی آ باد کی طرف روانہ ہو گئے۔ دربار ہو ٹل سے ویگن نے موڑ کاٹا اور علی آباد کی طرف اترنے لگی۔
علی آ باد سے دوسری ویگن میں سوار ہوئے اور گلگت روانہ ہو گئے لیکن علی آباد سے نکلتے ہی پھر رکنا پڑا۔ ہمارے آ گے کئی ویگنیں اور بسیں قطار میں کھڑی تھیں جن کے آگے سڑک پر تازہ تازہ لینڈ سلائیڈ کے باعث ایک بڑی زردچٹان اور لا تعداد پتھر پڑے تھے۔ چٹان کے دوسری طرف بھی گاڑیاں کھڑی تھیں جن کے مسافر اتر کر چٹان کا جائزہ لے رہے تھے۔ہم بھی اتر کر باقی لو گوں میں شامل ہوگئے۔ چٹان بہت بڑی تھی اور اسے ہٹانا انسانی بس میں نہیں تھا۔ ابھی سمیع اور میں دوسرے مقامی لوگوں کے ساتھ اس چٹان کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ اچانک اوپر سے کچھ کنکر سڑک پر گرے اور میرے ارد گرد کھڑے لوگوں نے بگٹٹ دوڑ لگا دی۔ ہم بھی بلا توقف ان کی پیروی کرتے ہوئے ناک کی سیدھ میں دوڑ ے، سمیع میرے پیچھے تھا۔ کافی دور تک بھاگنے کے بعد ذرا کھلی جگہ رک کر مڑ کے دیکھا۔ سب لوگ اوپر اس طرف دیکھ رہے تھے جس طرف سے کنکر آئے تھے لیکن اب وہاں مکمل سکون تھا۔ کچھ دیر مزید انتظار کیا گیا پھر چند بڑے پتھروں کو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نیچے دریا کی طرف لڑھکا دیا البتہ بڑی چٹان کو ہٹا نا انسانی طاقت سے باہر کام تھا۔ شاید کسی کے اطلاع کرنے پر ایک بلڈوزر نما بھاری گاڑی آئی جس نے بڑی چٹان کو بھی کھسکا کر سڑک سے نیچے دریا کی ڈھلوان پر پھینک دیا۔ راستہ کھلا تو گاڑیاں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئیں۔
عمران چیمہ نے شمشال میں رکنے اور کریم آباد میں نہ رکنے کی وجہ سے گلگت پہنچتے ہی مکمل بغاوت کا اعلان کر تے ہوئے ناٹکو سے نہ جانے اور واپسی کی گاڑی خود چننے کا اعلان کر دیا۔ جتنی دیر میں ہم نے رمضان ہو ٹل سے دوپہر کا کھانا پیک کروایا وہ کسی گا ڑی میں نشستیں بُک کروا آیا اور فخر سے بتایا کہ فی ٹکٹ دو سو روپے کی بچت کرکے آ یا ہے۔ مجھے حیر ت ہوئی اور یہ حیرت اس وقت پریشانی میں بدل گئی جب میں نے اڈے میں ایک چھو ٹی ویگن کو دیکھا جس کی چھت پر ہمیں اپنے بیگ بندھوانے تھے۔ یہ ویسی ہی ویگن تھی جیسی پنڈی کے اڈے میں ہمیں ملی تھی اور ہم ذلیل ہوئے تھے۔ بتا یا گیا کہ گاڑی 12بجے چلے گی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔