اجتہاد کا وقیع چیلنج (2)

اجتہاد کا وقیع چیلنج (2)
 اجتہاد کا وقیع چیلنج (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مسلم ماخذات و متعلقات اور علمی روایات میں یہ بات سند کے درجے کو پہنچی ہو ئی ہے۔ کون سی بات؟کہ کتاب ہدایت (قرآن مجید) سے راست اکتساب و اجتہاد محض مجتہد ہی کر سکتا ہے۔سوال یہ کہ مجتہدکون ہے؟کہیں توکسی کو مجتہد ماننے کے لئے بس اتنا کافی سمجھا گیا کہ وہ بہت سی احادیث اور آثا رصحابہ کا علم رکھتا ہو۔ پوچھنے والے نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا۔۔۔ کیا ایک لاکھ احادیث کا علم کسی کو فتوی دینے کااہل بنا سکتا ہے؟فرمایا نہیں!ہاں البتہ کسی کواگر پانچ لاکھ حدیثیںیاد ہوں تو اسے مسندافتا پر فائز کیا جا سکتا ہے۔

(سیرت بخاری۔ عبدالاسلام مبارک پوری۔ج2۔ص 173) کہیں مجتہد کے لئے کتاب و سنت کے راست علم کی بجائے فقہ کی چند کتابوں کو ہی ازبر کرنا کافی جانا گیا۔بر صغیر میں سنی فکر کے سرخیل کے بقول جس شخص نے مبسوط یاد کرلی گویاوہ مجتہد ہو گیا۔

خواہ اسے روایت کا کوئی علم ہو نہ کسی حدیث سے واقفیت۔ ( حجۃاللہ بالغہ۔شاہ ولی اللہ۔ص 321)جبکہ علامہ بغوی تو اجتہاد کے ضمن اور مجتہد کے فن میں بہت آگے گئے۔ بقول بغوی مجتہدپانچ قسم کے علوم کا جامع ہو: کتاب اللہ کا علم،سنت رسول کا علم،سلف صالحین کے اقوال،علم لغت پر عبوراور قیاس کا علم۔ مزید یہ کہ اسے ناسخ و منسوخ،مجمل و مفصل،خاص و عام،محکمات و متشابہات، کراہت و تحریم،مستحب اور وجوب سے بھی پوری واقفیت ہو۔

انہوں نے یہیں بس نہیں کیاوہ اور آگے بڑھے۔فن حدیث میں ضعیف ،مسند اور مرسل کے باب میں باخبر ہو،قرآن و حدیث کے بظاہر اختلاف میں تطبیق کا فن جانتا ہو،احکام کے ضمن میں صحابہ و تابعین کے اقوال اور جمہور فقہاکے فتاوی سے بھی آگاہ ہو۔ (بغوی کی ان آرا کو شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ’’عقدالجید‘‘ میں تائیدا نقل کیا)


پانچ لاکھ احا دیث کا حفظ تو ایسا اسطورہ ہے جس کی تصدیق نہ تو تاریخ سے ہوتی ہے اور نہ تجربے سے۔البتہ کونسل ہی منصفی سے کہہ دے کہ بغوی کی کڑی شرائط کے ہوتے ہوئے آخر اجتہاد کیسے ممکن ہے؟صدیوں پر مشتمل فقہا کا علمی ذخیرہ غیر معمولی طور پر حجیم وضخیم ٹھہرا۔

کسی گوشت پوست کے انسان اور ایک زندگی کے لئے ممکن ہی نہیں کہ مجتہدین کے فیصلے او ران کے متبعین کے فتاوے اور تالیفات و تعبیرات کااحا طہ کر سکے۔سچ ہے اور کڑوا ترین سچ ہے کہ ایک فقیہہ یا مجتہد اس تشریحاتی جنگل یا تاویلاتی زنبیل سے جو چاہے برآمد کر سکتا ہے۔

امام غزالیؒ نے کہا۔۔۔مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجتہاد سے قبل یہ ضرور دیکھے کہ اس کا عمل سابقہ اجماع کے خلا ف تو نہیں۔ائمہ اربعہ میں سے کسی کے ہاں اس کے خیال کی تائید ہوتی بھی ہے یا نہیں۔(المستصفیٰ من علم الاصول۔ابو حامد غزالی۔ج2۔ص35)غزالی کی اس اجتہادی دانشوری پر سب سے موثر اور تندرست و توانا آواز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اٹھی۔

راشد شاز نے جواب میں اپنی ادراک میں لکھا۔۔۔دیکھا جائے تو مجتہد کو وحی سے اکتساب کی جوآزادی ایک ہاتھ سے دی گئی ہے، اسے دوسرے ہاتھ سے یہ کہہ کر چھین لیا گیا کہ اجماع سابقہ کے خلاف اس کا اجتہاد قابل قبول نہیں ہو سکتا۔


اجتہاد کی سعی بلیغ اس لئے بھی ناکام و نامراد رہی کہ اختلافات میں صدق و کذب اور خبیث و طیب الگ الگ چھانٹ دینے کی بجائے باطل تاویل پر دلیل لے آئی گئی۔سنت کی متضاد و متخالف شکلوں میں سب شکلوں کو سنت ہی کا مستند اظہار کہا گیا۔

وہ اس لئے کہ ہمارے قدیم فقیہہ اور مجتہد اسی خیال کے حامل تھے۔امام سفیان ثوریؒ ایسی بلند مرتبت شخصیت نے اختلافات کو وسعت پر محمول کیا۔کہا جاتا ہے سفیان ثوری ؒ تو لفظ ’’اختلاف‘‘کے استعمال میں تکلف برتا کئے کہ وہ سبھوں کو بیک وقت درست سمجھتے اور سمجھاتے تھے۔

جب صورتحال یہ ہو کہ الفاظ ترک کرنے سے حقیقت چھپ جانا مقصود لیا جائے تو کیا کہئے؟شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی مجتہدین کے فکری اختلا فات کو یکساں معتبر قرار دیاکہ تمام لوگ بیک وقت حق پر تھے۔


سنت کی تمام متضا دشکلوں کو اعتبار عطا کرنے اور اختلا فات کو بھی رحمت قرار دینے کی پرورش و پرداخت امام لیث بن سعدؒ ایسے امیرالمؤمنین فی التفسیر اور امام جصاصؒ ایسے مجتہد فی المذہب نے کی ۔’’جامع بیان العلم‘‘ میں لیث نے کہا ،فقہا کے مابین کسی چیز کوحلال یا حرام ٹھہرائے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ حرام ٹھہرانے والے سمجھتے ہوں کہ حلال قرار دینے والے تباہ ہو گئے۔یا پھر حلال ٹھہرانے والے سمجھتے ہوں کہ حرام کہنے والے دائرے سے دور جا پڑے۔

جصاص کے بقول فقہا کااختلاف سنتوں میں افضل تر سنت کی تلاش سے عبارت ہے،جن چیزوں میں فقہا مختلف فیہ ہوں، مسلمان جسے چاہیں اختیار کریں۔(احکام القرآن۔امام جصاص۔ص204)کیا ہماری کونسل کے جدیدداعی شخصی بصیرت اور نجی آرا کا محاکمہ کر سکیں گے؟


بیک وقت سب کو حق پر قرار دینا۔۔۔یہ پر آشوب دور اور انتشار کے عہد میں وقتی حکمت عملی تو ہو سکتی تھی،البتہ اسے دائمی کلیہ یا ابدی فار مولا بنانے کے عمل نے اجتہاد کا راستہ مسدود کر دیا۔اختلا فات کو تقدس عطا کرنے کے لئے پھر روایات کا استعمال ہوا اور فن تطبیق کا سہارالیا گیا۔

ایسی توجیہات یا تطبیقات سے فقہی تنازعات کی مشکلات میں وقتی طور پر راحت کاساماں ہوا ہو گا۔البتہ ایسی تعبیرات و تاویلات نے آگے چل کر مستقل ابہام کو جنم دیا۔پھر اگلوں کے لئے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا گیاکہ آخرحق اور حقیقت کیا ہے؟پھر اجتہاد کے جدید سے جدید نقیب بھی قول فیصل کر نہ سکے کہ ائمہ مجتہدین کے مابین اختلافی مسائل میں آخر حق پر ہے کون؟مسئلہ کی سنگینی اور معاملہ کی تنگ دامنی نے جب مسلم معاشروں کو ہلا مارنے والی حالت سے دوچار کیا،مفکرین و متفکرین نے پھرمزید فقہی تاویلات اور مسلکی تعبیرات کا دروازہ بند کرنے کا اعلان عام کر ڈالا۔

اس عمل سے نئے مکتبہ فکر کاراستہ تو بند ہو گیا،البتہ اس اقدام نے پرانی تشریحات و تعبیرات کو دوام بخش دیا۔کیا کونسل کے نئے مجتہدین پرانے علمی سرمایے اورتعبیری ذخیرے کا کمال ژرف نگاہی سے جائزہ لیں گے؟کہا جاتا ہے تشریح و تعبیر کا جبر جب اسلام کے فہم پر اثر انداز ہونے لگے، پھر ضروری آن پڑا کہ ہم مسلمات کا ازسر نو جائزہ لیں۔ (جاری)

مزید :

کالم -