امن کا ریمورٹ کنٹرول

امن کا ریمورٹ کنٹرول
امن کا ریمورٹ کنٹرول

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 دنیا میں امن بھی زیر گردش رہا ہے، امن کی فضا بھی گلوبل ونڈز کی طرح ہی ثابت ہوئی ہے،کبھی اس پار تو کبھی اس پار یعنی امن کبھی کسی مخصوص ریاست کے گرد نہیں رہا۔شاید انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ساتھ بڑا خطا کار بھی ہے جسکی بدولت امن انسانوں سے جلد روٹھ جاتا ہے اور کبھی کسی ریاست کو مستقل طور پر نصیب ہی نہیں ہوا۔یہ بھی درست ہوگا کہ ہر دور میں کچھ حاسد و شیطانیت پسند ریاستیں لوگ اور انکے پیرو کار بھی موجود ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ اپنی لپیٹ میں باقی ریاستوں و لوگوں کو بھی لے لیتے ہیں۔پھر رموٹ کنٹرول سے امن کی تاریخ ساز دھجیاں اڑاتے ہیں۔ایسی ریاستیں ایسے لوگ مذہب سے بالاتر ہوتے ہیں اور ہر دور میں مذہب کا لبادہ اوڑھے فرعونیت کو فروغ دیتے ہیں،انہیں وقت کا فرعون کہنا بجا ہوگا۔میں کوئی عالم نہیں ،عام انسان ہوں۔درد دل رکھتا ہوں، اور دنیا میں امن کا خواہاں ہوں۔دنیا کے فرعونوں کی نشاندہی کرنا میرے بس کی بات نہیں،میں زندگی کا تجزیہ اپنے خیالات کے مطابق کر رہا ہوں ۔متفق ہونا نہ ہونا ضروری نہیں۔امن تمہید باندھنے کا مقصد ہے کہ موجودہ دور میں عالمی امن کو لاحق خطرات پر بات کی جا سکے۔
یقین کیجئے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتا ،دیکھتا اور پڑھتا آیا ہوں کہ عالمی امن خطرات سے دو چار ہے،اور واقعی ایسا ہی ہے عالمی سطح پر دیکھ لیں فلسطین ، برما اور کشمیر جیسی کئی ریاستیں ہیں جہاں دنیا کے نمبر دار براہ راست انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے میں ملوث ہیں۔امن و انسانیت کا معیار اتنا پست ہوگیا ہے کہ گلی محلوں تک اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔افراتفری کا غلبہ ہے، ہر طرف ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے چکر میں انسانیت کی حدوں کو پھلانگ کر امن کی دجھیاں بکھیری جاتی ہیں۔یقین کیجئے یہ سب وقت کے فرعونوں کی بدولت ہے،ورنہ انسانیت کا احساس کسی براعظم ، ملک یہاں تک کہ شخص کے دل سے نہیں نکل سکتا ہے ۔کونسی ریاستیں شیطانیت کی پیرو کار ہیں اور کیسے پیروکار بنیں؟تمام ریاستیں جنہوں نے اپنی برتری و نمبرداری کے چکر میں انسانوں کو قتل کروایا اور اپنے پراپیگنڈے سے دوسری چھوٹی ریاستوں میں افراتفری پھیلا کر ان کے امن و آزادی کو داﺅ پر لگایا۔شروع ہی سے امن تباہی کا باعث ایسی ریاستیں ایسے لوگ اور نظریات بنے ہیں جنہوں نے لوگوں پر زبردستی حکمرانی اور ظلم کئے ہیںاور اپنی برتری اور بڑائی کے لئے شیطان کی بغل میں بیٹھ کر انسانیت کی دجھیاں بکھیریں ہیں۔عرصہ دراز سے دنیا میں یہی چلتا آرہا ہے۔درست ہے کہ اللہ رب العزت خطا کاروں کی رسیاں دراز کر دیتا ہے اور ایک دن وہ اپنی خطاﺅں کے بوجھ تلے ہی دب کر مر جاتے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کالعدم تنظیم داعش کے جھنڈے لہرا دیئے گئے

قارئین موجودہ دور کی سب بڑی ریاستی طاقت امریکہ ہے جو ٹیکنالوجی میں بھی بہت آگے ہے۔ذرا غور کیجئے کہ امریکہ نے امن کا نام استعمال کر کے کتنے لوگوں کا امن تباہ کر رکھا ہے۔امریکہ کی مکاری و عیاری کسی چھپی نہیں۔امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ آرڈر کے ذریعے دنیا میں ٹیکنالوجی عام کر کے دنیا کی توجہ اپنے نظریات کی طرف مبذول کروائی اور افراتفری کی فضا کو عام کیا۔اپنے شیطانیت پسندانہ عزائم کو دنیا بھر میں پھیلایا۔لوگوں کے نظریات پر گرفت حاصل کی۔آزادی و امن کا نعرہ لگا کر درحقیقت اپنا پیروکار بنایا اور متعصب پسند خیالات کو ترویج دی۔دنیا کے وسائل پر قبضہ کیا اور ان کو قرضوں کی لپیٹ میں لیا۔
پنجابی میں کہتے ہیں” کانا “کیا۔امریکہ نے بہت سی ریاستوں کو لالچ میں” کانا“ کر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔میڈیا پر تسلط جما کر اخلاق و عزت کا خاتمہ کیا، انا و میں کو ترجیح دی۔ان سب کی بدولت معاشرے کا توازن بگھاڑا اور افراتفری کو فروغ دیا کہ لوگ بھلائی کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔اخلاقی باتیں تو ہوں مگر کوئی عمل نہ کر سکے۔انفرادی طور پر ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی کا مارا ہو، ڈپریشن سوسائٹی کی جڑوں میں سرائیت کر جائے،زندگی برق رفتار ہوجائے اور کسی کو موقع ہی نہ ملے کہ وہ چند لمحات نکال کر معاشرے کی تشکیل کے بارے سوچ سکے ،ہر شخص اپنی میں کا مارا ٹیکنالوجی کی قید میں زندگی بسر کر جائے۔خود ہی سوچئے انسان نما امن دشمن کون ہیں؟، اورانکے مقاصد کیا ، ؟کیا یہ شیطان کے پیرو کار نہیں؟یہ تمام بڑی سپر پاورز امریکہ، روس، چائنہ جرمنی برطانیہ، اور بھارت سب امن دشمن ہیں ان سب کی بس یہی کاوش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے اپنے خطے میں موجود ریاستوں پر اپنا تسلط جمایا جائے،چاہے اس کی مد میں انسانیت کی دجھیاں ہی کیوں نہ بکھیرنی پڑیں۔ان سب کے طریقہ واردات ذرا مختلف ہیں،مقصد و ارادے ایک ہیں۔ان طاقتوں سے امن کی امید اور ان کے منہ سے امن کے نعرے بے سود ہیں ،جو خود امن و انسانیت کے دشمن ہوں۔انہیں بس یہی کہنا بجا ہوگا امن دشمن انسان نما شیطان.

...

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -