کام دنیا کی امامت کا!

  کام دنیا کی امامت کا!
  کام دنیا کی امامت کا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا،حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کی پیشگوئی کا وقت ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اس کا ثبوت،جواز پاکستان کی، مضبوط عسکری قوت اور حکمتِ عملی پر مبنی خارجہ پالیسی میں مضمر ہے۔ آج پاکستان گریٹر اسرائیل منصوبے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن کے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔پاک سعودی معاہدہ شروعات ہے،جلد ہی باقی عرب ملک بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کریں گے۔جب اہم اسلامی ریاستیں ایک مشترکہ دفاعی فریم ورک اختیار کرتی ہیں تو نہ صرف خطے کا توازن بدلتا ہے بلکہ امت ِ مسلمہ کے وقار اور سلامتی کا ایک نیا باب بھی کھلتا ہے۔پاکستانی طاقتور فوج وہ ستونِ استحکام ہے جو عرب دنیا کے بیرونی خطرات کو ناکام بنائے گی اور ان کی داخلی خود اعتمادی کو پروان چڑھانے میں معاون بنے گی،پاکستانی حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات، سفارتی مداخلت اور اقتصادی تعاون کے ذریعے قومی مفادات کو عالمی سطح پر تقویت دے رہی ہے۔ پاکستان نے اگر اپنی عسکری صلاحیتوں کو حکمت ِ عملی اور مدبرانہ مصلحتوں کے ساتھ ہم آہنگ کر لیا تو وہ نہ صرف دفاع میں بلکہ عالمی فیصلہ سازی، امن مشنوں اور علاقائی قیادت میں بھی اپنا موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا کی امامت کا فریضہ کسی خواب کی بجائے ایک عملی امکاں بن کر سامنے آ جائے گا۔ایک ایسا عہد جس میں ایمان، حکمت اور قربانی سے ہی رہنمائی ممکن ہے۔

کیونکہ دنیا کی آنکھیں ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی طرف اُٹھ گئی ہیں۔ قطر پر اسرائیل کے فضائی حملے نے نہ صرف خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلک عرب دنیا کی بے بسی بھی عیاں کر دی ہے۔ خلیجی ممالک کی سرزمینوں پر بلند و بالا عمارتیں، تیل و گیس کے بے پناہ ذخائر، شاہانہ طرزِ زندگی اور دنیا کی پرتعیش ترین سہولتیں تو موجود ہیں، لیکن جب آسمان سے اسرائیلی طیارے اور ڈرون بارود برساتے ہیں تو یہ تمام چمک دمک ماند پڑجاتی ہے۔عرب دنیا کی معیشتوں نے پچھلی چند دہائیوں میں حیران کن ترقی کی۔ دبئی کی فلک بوس عمارتیں، ریاض کی روشن شاہراہیں، دوحہ کے جدید اسٹیڈیم اور ابو ظہبی کے محلات دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ترقی صرف آرائش اور دکھاوے کی ترقی ہے، دفاعی خودکفالت اور جنگی صلاحیتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ قطر سمیت بیشتر عرب ممالک کی افواج محدود وسائل، غیر تربیت یافتہ ڈھانچے اور غیر ملکی انحصار پر کھڑی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جیسا چھوٹا سا ملک، جس کی آبادی بھی کئی عرب ریاستوں سے کم ہے، جب چاہتا ہے کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنا لیتا ہے بلکہ ایک ہی وقت میں اسرائیل کئی عرب ممالک پر یلغار کردیتا ہے۔ نہ کسی میں جواب دینے کی سکت ہے، نہ مزاحمت کی جرأت۔ نتیجتاً عالمی سطح پر عرب دنیا کو محض سرمایہ دار اور صارف سمجھا جاتا ہے، حقیقی قوت کا مرکز نہیں۔

جب بھی اسرائیل نے لبنان، شام، تیونس اور قطر پر فضائی حملے کیے۔ جواب میں صرف مذمتی بیانات داغے گئے۔ عرب عوام اپنے اپنے موبائل فونز میں دھوئیں کے اٹھتے مرغولوں کو محفوظ کر کے واٹس ایپ گروپس میں دھڑا دھڑ شیئر کر رہے تھے۔ حکمرانوں نے ایک دوسرے کو فون کالز کے ذریعے افسوس کا اظہار کیا اسلامی ممالک کا اجلاس بھی ہوا لیکن اسرائیل نے اپنے اگلے اہداف فکس بھی کر دیے ہیں۔ شاید قاہرہ، بغداد، عمان، ابوظبی، خدانخواستہ الریاض بھی ان میں شامل ہوں۔ اسرائیل سب کو باری باری آزمائے گا۔ ہمارے عرب بھائیوں میں فکر کا فقدان ہے۔انہیں چاہئے تھا دفاع کے لئے غیر مسلم ممالک کی افواج پر انحصار کی بجائے مسلم ممالک کی افواج کو یہ ذمہ داری دیتے۔ بیشک ہم معاشی طور پر ایک کمزور ملک ہیں، جغرافیائی طور پر ہمارا پلاٹ بھی پھڈے والا ہے، لیکن دنیا نے انگلیاں دانتوں میں داب کر یہ منظر دیکھا کہ پاکستان نے چار گھنٹوں میں ہی اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کو اُلٹا کر کے لما، پا لیا تھا۔ شکر کرنا واجب ہے۔

یہ کوئی راز نہیں کہ اسرائیل اور بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے دفاعی اشتراک میں بندھے ہوئے ہیں۔ بھارت اسرائیل سے جدید ہتھیار خریدتا ہے، ڈرون ٹیکنالوجی لیتا ہے اور سائبر سکیورٹی کے منصوبے بناتا ہے۔ پاکستان کے خلاف سازشوں میں اسرائیل ہمیشہ بھارت کا خاموش شراکت دار رہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھی اسرائیلی ڈرون بھارتی اڈوں سے اڑان بھرتے رہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان نے اپنے مضبوط دفاع، بہادر افواج اور جدید میزائل ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھا۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کے لئے ہمیشہ ایک ڈراؤنا خواب رہا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینک اور خفیہ ادارے بارہا یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت صرف بھارت کے لئے نہیں، بلکہ اسرائیل کے لئے بھی براہِ راست خطرہ ہے۔یہاں سوال اُٹھتا ہے کہ پاکستان اور عرب دنیا میں بنیادی فرق کیا ہے؟پاکستان وسائل کے لحاظ سے اتنا مالا مال نہیں۔ نہ یہاں تیل کے سمندر ہیں اور نہ ہی سونے کی کانیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے اپنے دفاع کو اولین ترجیح دی۔ چاہے فوجی یا جمہوری حکومت رہی ہو، ایک چیز پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہوا اور وہ ہے دفاعِ پاکستان۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر پابندیاں لگیں،دھمکیاں دی گئیں، اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں، لیکن یہ پروگرام مکمل ہوا اور آج پاکستان کا یہ سب سے بڑا اثاثہ ہے۔دوسری طرف عرب ممالک نے اپنی دولت کو دفاعی قوت میں تبدیل کرنے کے بجائے شاہانہ زندگی گزارنے پر لگا دیا۔دنیا کی سب سے مہنگی گاڑیاں، محلات، شاپنگ مالز اور تفریحی مقامات تو بنا لئے گئے لیکن اپنی آزادی اور سلامتی کے ضامن ہتھیار نہیں بنائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل بار بار ان پر حملہ کرتا ہے اور یہ محض احتجاجی قراردادوں اور بیانات تک محدود رہ جاتے ہیں۔قطر پر اسرائیل کا حالیہ حملہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے۔ یہ پیغام صرف قطر کے لئے نہیں،بلکہ پورے عرب کے لئے ہے کہ تمہاری دولت اور تمہارے محلات ہماری بمباری کے سامنے ہیچ ہیں۔ تمہارے پاس جنگی طیارے تو ہیں، مگر انہیں اڑانے والے دلیر پائلٹ نہیں۔ تمہارے پاس فوج تو ہے، مگر اسے قیادت دینے والے سپہ سالار نہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ عرب دنیا اپنی سمت درست کرے۔ تیل کے ذخائر ہمیشہ نہیں رہیں گے، محلات اور ٹاورز دفاع نہیں کر سکتے۔ حقیقی حفاظت کے لئے مضبوط فوج، جدید ٹیکنالوجی اور سب سے بڑھ کر عزم و حوصلہ درکار ہے۔

 قومیں دولت سے نہیں بلکہ حوصلے اور دفاع سے زندہ رہتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں باقی رہتی ہیں،جو اپنے دفاع کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔اہلِ عرب کو سمجھنا ہوگا کہ عزت صرف محلات اور بلند عمارتوں سے نہیں ملتی۔ عزت اُس وقت ملتی ہے جب دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا جائے۔ اگر اسرائیل کا غرور توڑنا ہے تو صرف ایک ہی راستہ ہے: دفاعی اتحاد، ٹیکنالوجی میں خود کفالت، اور اپنی فوجوں کو جذبہ ئ  قربانی سے سرشار کرنا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -