مریم نواز صاحبہ ملتان کو ایمرسن کالج لوٹا دیں

سیاسی مفادات کے لئے مستحکم ساکھ اور روایات کے حامل ادارے کس طرح برباد کئے جاتے ہیں،اس کی ایک بہترین مثال کل کا ایمرسن کالج ملتان اور آج کی ناکام ترین یونیورسٹی ہے۔2021ء میں جب عثمان بزدار وزیراعلیٰ تھے وہ کچھ اور تو ملتان کو نہ دے سکے انہوں نے سو سال پرانے ایمرسن کالج کو ختم کر کے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا، اپنے تئیں انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا، مگر درحقیقت انہوں نے اس ایک فیصلے سے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے کالج کا گھلا گھونٹ دیا،ملتان میں اس فیصلے پر بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔اساتذہ،والدین اور طلبہ و طالبات سڑکوں پرآ گئے اور دہائی دیتے رہے کہ اس بڑے کالج کی وجہ سے ہزاروں طالب علموں کو معیاری تعلیم مل رہی ہے،وہ طلبہ و طالبات جن کے والدین یونیورسٹی کی بھاری فیسیں ادا نہیں کر سکتے اُن کے لئے ایمرسن کالج ایک نعمت سے کم نہیں اور اُس کے خاتمے سے اعلیٰ تعلیم کا ایک بڑا دروازہ بند ہو جائے گا، لیکن عثمان بزدار اور اُن کے چند حواری بضد رہے کہ اس یونیورسٹی کی اشد ضرورت ہے۔اہل ِ علم نے بہت کہا کہ اگر آپ یونیورسٹی بنانا ہی چاہتے ہیں تو کہیں اور بنا دیں اس کالج پر تو شب خون نہ ماریں مگر اس ظالمانہ اور احمقانہ فیصلے کو نہ بدلا گیا۔ اس وقت ایمرسن کالج میں تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار طلبہ و طالبات پڑھ رہے تھے۔یونیورسٹی بنتے ہی اُن کے سمیسٹر کی فیس سات ہزار روپے سے چالیس ہزار روپے ہو گئی۔ پروفیسر نعیم اشرف جو ایمرسن کالج کے ایک متحرک استاد تھے، بتاتے ہیں کہ میرے پاس ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ فیس بڑھنے کی وجہ سے غریب گھرانوں کی طالبات گھر بیٹھ گئیں، اعلیٰ تعلیم نہ حاصل کر سکیں اور بالآخر اُن کے والدین نے اُن کی شادیاں کر کے انہیں تعلیم کے زیور سے محروم کر دیا،کیونکہ وہ اُن کے اخراجات براداشت نہیں کر سکتے تھے،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایمرسن کالج کا قیام 1920ء میں ہوا۔ایک صدی پہلے کے ادارے کو آپ بیک جنبش قلم ختم کر کے یونیورسٹی تو بنا دیتے ہیں مگر خطے کے حالات کو پیش نظر نہیں رکھتے۔یہ اس خطے کا واحد بڑا کالج تھا جہاں پورے جنوبی پنجاب سے غریب و متوسط گھرانوں کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے۔ یکدم آپ ایک بڑے تعلیمی ادارے کو معاشرے سے چھین لیتے ہیں اور صرف اِس لئے کہ جھوٹی واہ واہ کرا سکیں،دیکھو ہم نے ملتان میں ایک نئی یونیورسٹی قائم کر دی، تو اسے آپ کی علم دوستی نہیں بلکہ جہالت سے تعبیر کیا جائے۔
اب سنیئے اس نام نہاد ایمرسن کالج یونیورسٹی کو بنا کر محکمہ ہائر ایجوکیشن نے کیا گُل کھلائے، پہلے دو سال تو کوئی مستقل وائس چانسلر ہی تعینات نہیں کیا۔اُس کے بعد مستقل وائس چانسلر آئے تو اُن کی ترجیحات کچھ اور رہیں،وہ یونیورسٹی کی مستقل فیکلٹی ہی منظور نہیں کرا سکے۔ ایمرسن کالج کے اساتذہ سے کام چلایا جاتا رہا،لیکن وہ بھی تبادلہ کراتے رہے کہ یونیورسٹی کے حالات مخدوش تھے اور وقت پر تنخواہیں بھی نہیں ملتی تھیں۔آج یہ حال ہے کہ ساڑھے چار سال ہو گئے اس یونیورسٹی کو بنے، اس میں ایک بھی فل پروفیسر نہیں،ایمرسن کالج کے تمام سینئر اساتذہ کالجوں میں تبادلہ کرا کے جا چکے ہیں، یونیورسٹی میں اب اٹھارویں اور انیسویں گریڈ کے چند اساتذہ ہیں، باقی وزیٹنگ فیکلٹی سے کام چلایا جا رہا ہے۔یونیورسٹی میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں۔جب سے وائس چانسلر ایک سکینڈل کی زد میں آ کر گئے ہیں ایمرسن یونیورسٹی کے چہرے پر ایک بدنما داغ لگ چکا ہے۔ طلبہ و طالبات یہاں داخلہ لینے سے کترانے لگے ہیں۔والدین میں علیحدہ تشویش موجود ہے۔گویا یونیورسٹی ایک ناکام ادارے کی جیتی جاگتی مثال بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف آئی ٹی کے شعبوں میں فیکلٹی اور لیب کے بغیر سائبر کرائمز، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور دیگر جدید کورسز میں داخلے تو کر لئے گئے، مگر ان ڈگریوں کی منظوری دینے والے ادارے نے ایمرسن یونیورسٹی کو ایفی لیشن دینے سے دو بار انکار کیا ہے۔ نیشنل کمپیوٹنگ ایکریڈیشن کونسل اسلام آباد (NCEAC) جو کمپیوٹر کی تعلیم کے لئے اجازت دینے کا اعلیٰ ترین قومی ادارہ ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو دو بار تنبیہہ کر چکا ہے کہ منظوری لئے بغیر داخلے نہ کئے جائیں، مگر معصوم طلبہ و طالبات کو جدید ڈگریوں کا جھانسہ دے کر خوب بے وقوف بنایا گیا اور داخلے کئے گئے ہیں جن کا مستقبل اب داؤ پر لگا ہوا ہے۔اِس وقت ملتان آ کر کوئی سروے کرے اور یہ پوچھے کہ آپ ایمرسن کالج کی بحالی چاہتے ہیں یا ایمرسن یونیورسٹی تو سو فیصد لوگ یہی کہیں گے۔ایمرسن کالج کو اُس کی عمارت میں 2021ء والی پوزیشن پر بحال کیا جائے۔یونیورسٹی کے لئے عوامی حلقے گلگشت گول باغ کے قریب واقع علی گڑھ کالج کی عمارت کو مناسب قرار دے رہے ہیں،جو اس وقت خالی پڑی ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز بہت اہم اور جرأت مندانہ فیصلے کر رہی ہیں ملتان اور جنوبی پنجاب کے والدین، نوجوان اور اساتذہ اُن سے ایک ایسے فیصلے کی توقع کر رہے ہیں جو پچھلی حکومت میں کئے گئے ایک بہت غلط فیصلے کا ازالہ کر سکتا ہے۔ وہ اگر ملتان کو ایمرسن کالج لوٹا دیں تو یہ فیصلہ انہیں ملتان کی تاریخ میں امر کر دے گا۔اس فیصلے سے مستقبل میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طالب علموں کو فائدہ پہنچے گا۔خاص طور پر غریب طالبات کے لئے ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے سے تعلیم کے جو دروازے بند ہو گئے وہ کھل جائیں گے۔ یہ مریم نواز کی طرف سے ایک ایسا تحفہ ہو گا جو تعلیمی شعبے کے لئے ایک بہت بڑا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گا۔ یہ ویسے بھی ایک تاریخی ادارے کی شناخت مٹانے کی بہت بڑی غلطی کی تلافی ہو گی۔لاہور میں گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی بنایا گیا تو اُس کا نام گورنمنٹ کالج یونیورسٹی رکھا گیا،فیصل آباد میں بھی ایسا ہی ہوا،لیکن ملتان ایمرسن کالج کو نابود کر دیا گیا۔ ایمرسن کالج کی بحالی جنوبی پنجاب کے کروڑوں عوام کی خواہش ہے۔وزیراعلیٰ مریم نواز اس خواہش کو پورا کر سکتی ہیں اور آنکھیں اُن کی طرف لگی ہوئی ہیں۔
٭٭٭٭٭