پی ٹی آئی جلسہ کیوں ناکام ہوا؟
پی ٹی آئی کا اسلام آباد کا جلسہ اس لئے منسوخ ہوا کہ اس میں عمران خان شریک نہیں تھے، اگر عمران خان نے شریک ہونا ہوتا تو لوگ آگ کا دریا عبور کرکے بھی اسلام آباد پہنچتے اور عمران خان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے پائے جاتے۔ اب چونکہ لوگوں کو معلوم تھا کہ عمران خان تو اڈیالہ جیل میں ہیں، اس لئے اتنے کشٹ کاٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ جلسے سے ایک رات پہلے تک وہاں ہو کا عالم تھا، نہ بندہ نہ بندے کی ذات تھی، یہی نہیں بلکہ وہاں پر تو کوئی سٹیج، کوئی لاؤڈ سپیکر بھی نہیں تھا جس پر جب آئے گا عمران بج رہا ہوتا۔ یعنی عمران خان کے بغیر جلسہ کرنے والوں کو بھی علم تھا ان سے یہ رنگ نہیں جمایا جا سکے گا، اس لئے انہوں نے زبانی جمع خرچ کے سواکسی قسم کے خرچے کا تردد ہی نہیں کیا اور آخر میں جلسے کا التو عمران خان کے سر ڈال کر فاتحہ پڑھ دی۔ علیمہ خان تبھی تو چیخی چلائیں کیونکہ ان کے علم میں ہی نہیں تھا کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے؟
ایسا صرف عمران خان کے ساتھ نہیں ہے کہ ان کے بغیر جلسہ نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف کا بھی یہی عالم ہے کہ ان کی شرکت یقینی ہو تو مینار پاکستان پر بھی جلسہ ہو سکتا ہے اور اگر معاملہ صرف موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کا ہو تو پھر لاہور کے سرکلر روڈ پر بھی انہیں خالی کرسیوں سے ہی خطاب کرنا پڑتا ہے، ایسا ہی معاملہ بلاول بھٹو اور موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری کا ہے کہ بلاول ہوں تو جلسہ وگرنہ کارنر میٹنگ،یہ الگ بات کہ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو اب بلاول کا جلسہ بھی کارنر میٹنگ سے بڑھ کر نہیں ہوتا اور ہماری مستحکم رائے ہے کہ اس کے ذمہ دار جناب آصف علی زرداری ہیں جنھوں نے عمران خان کی پی ٹی آئی کے لئے میدان خالی چھوڑا اور آج عالم یہ ہے کہ پنجاب کے اندر پیپلز پارٹی کو تل دھرنے کو جگہ نہیں مل پارہی، غضب خدا کا لاہور جسے کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں بلاول بھٹو الیکشن ہا رگئے، حالانکہ جس حلقے سے انہوں نے الیکشن لڑا،اسے پیپلز پارٹی کا مضبوط انتخابی حلقہ تصور کیا جاتا ہے، اب تو واقفان حال کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے میٹھا بالکل چھوڑ دیا ہے اور احتیاط برتنا شروع کردی ہے۔
ایک میٹھا چھوڑ دینے سے ان کا وزن معمول پر آگیا ہے۔ واقفان حال کا یہ بھی بتانا ہے کہ حال ہی میں بلاول بھٹو نے لندن میں اپنا چیک اپ کروایا جہاں پر ڈاکٹر نے انہیں نشاستے والی غذاؤں سے منع کردیا ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ عام لوگوں کو سیاست بچوں کا کھیل لگتی ہے لیکن وہ جو اس میں مصروف ہوتے ہیں،انہیں کئی طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بلاول بھٹو پر تو دباؤ اس لئے بھی بڑھ کر ہے کہ ایک طرف وہ اپنے نانا کی میراث کے وارث ہیں تو دوسری جانب اپنی والدہ کا پرتو ہیں، مگرعوام کو ان سے جو امیدیں تھیں، انہیں جنرل پاشاسے لے کر جنرل فیض حمید تک تواتر کی کوششوں سے عمران خان کی طرف موڑ دیا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ جناب آصف زرداری نے علامہ طاہرالقادری کے پلیٹ فارم سے عمران خان سے سٹیج بھی شیئر کرلیا،اس ساری خرمستی کا مرکزی نقطہ نواز شریف کی مقبولیت کو لگام دینا تھا اور دھینگا مشتی سے اگرچہ نواز شریف 2024ء کا انتخاب جیت کر بھی ہارے ہوئے لگتے ہیں مگر دوسری جانب ان کے برادر خورد مرکز میں اور دختر نیک پنجاب میں ان کے سیاسی وارث بن کر براجمان ہیں اور پیپلز پارٹی اب نون لیگ کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے اور اس کے عوض جناب آصف زرداری ایوان صدر میں دوبارہ سے جلوہ گر ہیں۔ اب یہ دونوں جماعتیں مل کر زور لگا رہی ہیں کہ اگلے عام انتخابات سے قبل عمران خان کا جادو عوام سے سر سے اتار دیا جائے جبکہ عمران خان اپنی فطرتی پھڑیں مارنے اور یو ٹرن لینے کی عادت کے سبب ابھی تک relevantہیں اور ان کے بہی خواہ سوشل میڈیا کے سہارے جھوٹی سچی خبروں پر یقین کر کے ان کی جیل سے واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔
یہ عمران خان کی واپسی کی امید ہی ہے کہ اسلام آباد کا جلسہ منعقد نہ ہو سکا کیونکہ اگر عمران خان کے بغیر بھی پی ٹی آئی کامیاب جلسے کرنا شروع کردے گی تو پھر عمران خان کی کیا ضرورت ہوگی؟ خاص طور پر اگر پی ٹی آئی بونیر میں اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں کامیاب جلسے کر سکتی ہے تو پھر پشاور سے اسلام آباد کا فاصلہ اتنا زیادہ تو نہیں کہ کے پی سے لوگ جوق در جوق ترنول نہ پہنچ سکیں۔ مگر پی ٹی آئی کا مسئلہ کے پی نہیں، پنجاب ہے۔ جناب حماد اظہر نے پنجاب کے عوام کو حالیہ جلسے کے لئے نکلنے کی کال تو دی تھی مگر پھر وہ خود منظر سے غائب ہو گئے۔ گویا کہ جب تک پنجاب عمران خان کے لئے نہیں نکلتا تب تک پی ٹی آئی کے جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔یہ بات عمران خان کے مخالفین اچھی طرح جانتے ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مریم نواز نے اگست اور ستمبر کے بجلی کے بلوں میں 14روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کردیا ہے،کہ ایک ایسی صورت حال میں جب پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں ہی پنجاب میں اپنی دھاک جمانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے، مریم نواز کو پنجاب کی ویسی ہی پاپولر لیڈر بنا دیا جائے جیسے خود نواز شریف تھے۔خاص طور پر جب اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ بھی ابھی نون لیگ کی طرف ہے۔