آپ لوگ تقریر قائد 11 اگست مت پڑھا کیجیے
مارکس کی "داس کیپیٹل" میں نے زمانہ طالب علمی میں لے لی تھی، لیکن تاحال نظریہ قدر زائد کی ابتدائی سی تفہیم ہی ملی ہے۔ کالج کے ابتدائی ایام میں کیمسٹری اور فزکس کی میری اپنی لیبارٹری گھر میں قائم تھی۔ ارشمیدس تا ایڈیسن، مائیکل فیراڈے، ڈالٹن تک اور آئن اسٹائن کے بعد گاڈ پارٹیکل والے پروفیسر ہگز آج بھی میرا علمی گھرانہ ہے۔ 2020ء کے نوبل انعام یافتہ ٹرپل سی (Triple C) والے روجر پینروز سے نہ سہی ان کے رفقا سے میرا بخوبی رابطہ ہے۔ رہا ڈارون تو (Origin of Species) اور(Descent of Man) اپنے یار غار محمد حسین نے 1982ء میں آرکیٹا امریکہ سے بھیجی تھیں۔ علم الانسان (Anthropology) سے شغف کے باعث میں نے ابن مسکویہ کی تجارب الامم اور مصری جاحظ تک کو دیکھا۔ لیکن اپنی اس خجالت آمیز تعلی، تفاخر اور سربلندی کے بعد بحالت عجز عرض ہے کہ نظریہ قدر زائد، نظریہ اضافیت، نظریہ ہبوط آدم، گاڈ پارٹیکل تھیوری اور متشاکل مدور کائناتیات (Conformal Cyclic Cosmology) پر لکھنے کو کہا جائے تو میں دو سطریں نہیں لکھ سکتا۔ اعلیٰ سطحی فلسفے پر قلم اٹھانے کے لیے اس فلسفے سے ذرا اونچا یا مساوی قد چاہیے جو میرا نہیں ہے۔
قائد کی تقریر 11 اگست بھی وہی قد آور اہل علم سمجھ سکتے ہیں جن میں کم از کم دو صفات ہوں: رموز جہانبانی کا گہرا شعور اور تاریخ پر ہمہ جہت نظر۔ مارکس پر نقد کا تقاضا ہے کہ تب کے پروشیائی زرعی و صنعتی تغیرات کے ساتھ جدید کارپوریٹ معیشت کا علم بھی ہو۔ ڈارون کی خبر لینے کو کیا ملا مولوی ہونا یا علم نباتات کافی ہے؟ صاحب یہاں قدم رکھنے سے قبل لازم ہے کہ علم الارض Geology تا علم حیاتیات Biology کی خبر بھی ہو۔ ادھر اپنے ہاں مذہب، سیاست، قانون اور اقتصادیات پر بولنا لکھنا ہر چار چھ جماعت پڑھے شخص کے اوصاف حمیدہ میں سے ایک ہے۔ سیاسیات اور قانون کی دنیا میں قائد کی اس شاہکار الہامی تقریر سے وہ لوگ سیکولر نظریہ نکالتے ہیں جنہیں نہ رموز جہانبانی کا شعور ہے اور نہ تاریخ عالم کی شد بد۔
کاش یہ لوگ اور نہ سہی، میثاق مدینہ اور خطبہ حجتہ الوداع ہی پڑھ لیا کریں۔ قائد نے جو باتیں 11اگست 1947ء کو انگریزی میں کہیں، وہی باتیں جی ہاں وہی باتیں،ارے ہاں ہاں وہی باتیں، محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں قبل عربی میں کہی تھیں۔ قائد نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ مسلمانوں پر مشتمل حج کا اجتماع تھا لیکن بات کا آغاز اے مسلمانو نہیں، اے لوگو سے ہوتا ہے اور آخری تلقین یہ کہ میری یہ باتیں حاضر (مسلمان) غیر حاضر (بلا استثنا مذہب سبھی) لوگوں تک پہنچا دیں، فرمایا: "اللہ فرماتا ہے: اے لوگو، ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا……۔۔۔ تاکہ تم پہچانے جا سکو۔ عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کالے کو گورے پر، نہ گورے کو کالے پر"۔ قائد نے اپنے آقا کی اتباع میں یہی بات انگریزی میں یوں کہی:”تمہارا تعلق خواہ کسی قوم سے ہو،ماضی میں تمہارے تعلقات کیسے ہی کیوں نہ رہے ہوں، تمہارا رنگ، ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، ہر شخص اول، دوم اور آخر مملکت کا شہری ہے۔ سب کے حقوق اور فرائض بالکل مساوی ہیں“۔ اس جملے میں نئی بات کیا ہے؟ بتائیے، بولیے، جواب دیجیے۔
صدیوں قبل عربی میں کہا گیا ”سب لوگ (بلا استثنا ملک و مذہب) آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے“۔ اب11 اگست کی اس انگریزی سے کچھ نیا تلاش کر دکھائیے:”ہم اس بنیادی اصول پر کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے مساوی شہری ہیں“۔ 11 اگست کی انگریزی ملاحظہ ہو: "اگر تم (ہندو مسلم وغیرہ) ماضی کو بھول جاؤ گے، مخالفتوں کو ترک کر دو گے تو تم یقینا کامیاب ہو گے"۔ یہ انگریزی 14 صدیاں قبل عربی میں بشکل تلقین نہیں بصورت فرمان یوں جاری ہوئی: "اے خبردار، جاہلیت (وہی ماضی) کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے۔ تمہارے خون (بلا استثناء مذہب) سب معاف ہیں "۔ پھر سب سے پہلے آپ نے اپنے خاندان کا خون معاف کیا۔ میثاق مدینہ میں بھی یہی کچھ ہے۔ قائد کی انگریزی تقریر: "ہم سب ایک ریاست کے شہری اور مساوی شہری ہیں "۔ یہ انگریزی میثاق مدینہ کی اس عربی کا تازہ متن نہیں تو کیا ہے: "بنی عوف کے یہود سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ ایک تسلیم شدہ امت ہوں گے"۔ 11 اگست کی یہ انگریزی "آپ لوگ اپنے مندروں اور عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہو", میثاق مدینہ کی اس عربی سے کتنی مختلف ہے؟ "یہودی اپنے دین پر قائم رہیں گے اور مسلمان اور ان کے موالی سب اپنے دین پر"۔ آپ چپ کیوں ہو گئے؟ جواب دیجئے!
بعض اخباری "مورخین" کے نزدیک قائد کے اس جملے سے لادینیت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں: "آپ کا تعلق کسی مذہب, ذات یا عقیدے سے ہو، کاروبار مملکت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے"۔ لو جی، ہم اسلام پسند تو مارے گئے۔ لیکن ٹھہریے! کاروبار مملکت کیسے چلیں گے، اس کا جواب قائد نے یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میں یوں دیا: "جدید (معاشی) اسالیب کو اسلام کے سماجی اور معاشی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے میں اسٹیٹ بینک کے شعبہ تحقیق کے کام کا بڑی بے چینی سے منتظر رہوں گا۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے انسانیت کے لیے جو لاینحل مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔۔۔ (دو عظیم جنگوں سے پیدا شدہ) اس تباہی سے دنیا کو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغرب اپنی تکنیکی اور صنعتی استعداد کے باوجود جس بدترین افرا تفری کا شکار ہے، تاریخ نے اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا……۔(لہٰذا) مغربی(معاشی) نظریات ہمارے معاون نہیں ہوں گے۔ اپنی تقدیر سنوارنے میں ہمیں اپنا طریقہ اختیار کرنا ہے اور دنیا کے سامنے وہ معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور عدل اجتماعی کے حقیقی تصور پر مبنی ہو۔ یوں ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض سر انجام دیں گے اور بنی نوع انسان کو پیام امن دیں گے"۔
قائد کا یہ جملہ "آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، کاروبار مملکت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے" کیا ان کی تقریر یکم جولائی سے متصادم ہے؟ 20 دن بعد کیا وہ سیکولرزم سے تائب ہو کر یکا یک جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے تھے؟ یہ وہ سوال ہے جو اس تقریر سے سیکولرزم نچوڑنے والے ٹام، ڈک اور ہیری کو ہم سمجھانا چاہیں تو نہیں سمجھا سکتے۔ یہ دونوں الہامی تقاریر سچے مسلمان کی ہیں۔ہر ماہر طبیعات نظریہ اضافیت اور ہر ماہر حیاتیات نظریہ ہبوط آدم نہیں سمجھ سکتا۔ بعینہ ان تقاریر قائد کو مرغان صحرا کے اچھوت سمجھنا چاہیں بھی تو نہیں سمجھ سکتے، تا وقتیکہ اللہ کریم انہیں ہدایت دے جو فی الوقت ان کے پاس نہیں ہے۔ بہتر ہے، یہ لوگ ان پیچیدہ جھمیلوں میں پڑے بغیر کچھ کھا پی کر سو جایا کریں۔ مزید گفتگو اگلی دفعہ ہوگی۔