ایک عظیم انسان، عہد ساز ادیب!

ایک عظیم انسان، عہد ساز ادیب!
ایک عظیم انسان، عہد ساز ادیب!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

21جون کو ایک عہد کو منوں مٹی تلے ڈیفنس کراچی کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ ایک عظیم انسان، ایک عہد ساز شخصیت، اُردو زبان کے ادیبِ شہیر، ایک منفرد قلمکار، اُردو ادب میں مزاح نگاری کے بادشاہ بلکہ شہنشاہ مشتاق احمد یوسفی کو اُن کے لاتعداد پرستاروں کی آہیں کراہیں اور آنسوؤں کی جھڑی انہیں زمین دوز ہونے سے نہ روک سکیں مزاح نگاری کا وہ عہد آج ہمیشہ کے لئے زمین کی گہرائی کے سپرد کردیا گیا، جس عہد کو پہلے پہل مشہور نقاد، محقق پروفیسر ڈاکٹر ظہیر فتح پوری مرحوم نے ’’عہدِ یوسفی‘‘ کے نام سے موسوم کیا تھا اور جسے آج یار لوگ ابنِ انشا سے منسوب کر رہے ہیں۔

طویل عرصہ بیمار رہ کر 20جون 2018ء کو یوسفی صاحب 94 بلکہ 97برس کی عمر پا کے رخصت ہوئے۔مشتاق احمد یوسفی اپنے دورِ درخشاں کی سینچری بناتے بناتے رہ گئے۔ عام معلومات کے مطابق وہ 4ستمبر 1923ء کو (راجستھان انڈیا) کی ریاست جے پور میں عبدالکریم خاں یوسفی کے ہاں پیدا ہوئے۔مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ ایک زمانہ چلا گیا، ایک عہد ختم ہوگیا مگر یہ بھی حقیقت ہے:
تخت خالی رہا نہیں کرتا
کوئی وارث ضرور ہوتا ہے
مشتاق احمد یوسفی نصف صدی سے زیادہ عرصہ قلمکاری میں فعال رہے تاہم بہت کم کتابیں مطبوعہ صورت میں یادگار چھوڑیں۔ پہلی ہی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ سے اہلِ علم و ادب کی نظروں کو خیرہ کرنے کے بعد انہوں نے ’’خاکم بدہن‘‘ ’’زرگزشت‘‘ ’’آبِ گم‘‘ اور ’’شامِ شہر یاراں‘‘ جیسی کل پانچ کتابیں ادبی اثاثے کے طور پر پسماندگانِ ادب کے لئے مطبوعہ چھوڑیں مگر یہ پانچ کتابیں بہت سے کثیر الکتب مصنفین کی پانچ سوکتابوں پر بھاری ہیں۔

انہوں نے کم لکھا مگر خوب لکھا۔ وہ ایک ایک مضمون ’’کِل کِل‘‘ کے لکھتے تھے۔ ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف بڑے غورو خوض سے سپرد قلم و قرطاس کرتے مگر اشعار کے معاملے میں، مصرعوں کی دانستہ تحریف و تضمین سے ہٹ کر بھی میں نے غلطی ہائے اشعار کے سلسلے میں جب جب نشان دہی کی، کبھی بُرا نہیں منایا، آئندہ ایڈیشنوں میں خاموشی سے دُرستی کرلی۔

میرا اُن سے ربط ضبط 1966ء سے 1980ء تک یعنی پہلے پندرہ سالہ دَورِ ادارت ’’ادبِ لطیف‘‘ میں گہرا ہوا۔ وہ متعدد بینکوں کے سربراہ رہے۔ جس بینک کے سربراہ ہوتے میں اُن سے اُس بینک کا اشتہار بار بار لینے کراچی پہنچ جاتا، ہمیشہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر مصافحہ کرتے اور سِیٹ چھوڑ کر صوفے پر میرے پہلو میں آبراجمان ہوتے۔ 
مَیں ادب لطف کے لئے اشتہار کا طالب کسمسا کر رہ جاتا وہ پہلے کافی پلاتے پھر گھنٹی بجا کے پی اے کو بُلواتے اوراشاروں اشاروں میں میرا کام ہوجاتا واپسی میں پی اے سے مجھے اشتہار کا آرٹ پل اور ریلیز آرڈر تیار مل جاتا اور مجھے ان کی متعلقہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا چکر بھی نہ لگانا پڑتا۔ ایسے وضعدار لوگ اب کہاں؟ ممکن ہے طنز و مزاح نگاری میں اور بھی نثر نگار آ جائیں مگر اتنا بڑا انسان کہاں سے ملے گا؟ مشتاق احمد یوسفی جیسا عظیم انسان۔ مختلف بینکوں میں مشتاق احمد یوسفی، خالد شمس الحسن، جمیل الدین عالی اور دوسرے کئی اداروں میں نور الحسن جعفری]محترمہ ادا جعفری کے شوہر[۔ تبت سینٹر کے محترم اللہ والا صاحب ]نسیم اللہ والا کے والد گرامی[ سیٹھ داؤد، سیٹھ آدم جی، اے کے سومار، روشن علی بھیم جی اور کے پی ٹی کے محمد اسحق ارشد (ایم آئی ارشد) جیسے لوگوں بلکہ شخصیتوں کے دَم قدم سے ہر ادبی پرچہ نہال تھا۔مشتاق احمد یوسفی نے جو اعلیٰ معیاری ادب تخلیق کیا اُس کی فقیدالمثال پذیرائی صفحاتِ تاریخِ ادب پر ہمیشہ مزین رہے گی، اُنہیں پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ پاکستان رائٹرز گلڈ کے توسط سے آدم جی ادبی ایوارڈ ملا۔ لائف اچیومنٹ ایوارڈ ’’کمالِ فن‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان سے ملا۔ حکومتِ پاکستان سے ستارۂ امتیاز ہلالِ امتیاز ملا۔ اِسی قسم کے اعترافِ فن اور ہر سطح پر پذیرائی اور عوام و خواص میں بے پناہ مقبولیت کے حوالے سے احمد فراز نے کبھی کہا تھا: 
اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
مقبولیت کا ایسا ہی عالم دنیائے نثر میں مشتاق احمد یوسفی کو بھی حاصل رہا میں نے مشتاق احمد یوسفی کی تمام کتابیں پڑھیں، ایک اُنہوں نے خود عنایت کی تھی باقی سب مَیں نے خریدیں میں 15سال مسلسل1966]ء تا1980ء[سال میں ایک دو بار اُن کا ملاقاتی رہا۔ یہ اُن کا دَور جوانی تھا۔ اگرچہ وہ جوانی میں بھی دھان پان سے بزرگ ہی لگتے رہے، میں آج مختلف ٹی وی چینلز پر اُن بونوں کے دعوے سن رہا تھا جنہوں نے زندگی میں کبھی اُن کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھ کر اُن کی پیش کردہ کافی یا چائے کا کپ نہیں پیا۔

وہ بھی خاتون کمپیئر سے کہلوا رہے تھے۔آپ کا اور مشتاق احمد یوسفی کا بہت گہرا ساتھ رہا ہے اُن کی قربتوں کے حوالے سے کچھ فرمائیے۔۔۔!اور قربتوں کا جھوٹا احوال میں اُن اَدبی بونوں کی زبانی سن رہا تھا جنہوں نے دُور سے یوسفی صاحب کو دیکھا کسی تقریب میں علیک سلیک ہوگئی۔۔۔ میری حقیقی ملاقاتیں میرے اپنے قد کاٹھ یا ’’شاعرِ اعظم‘‘ ہونے کی وجہ سے نہیں رہیں، وہ حیران ہوتے تھے کہ میں بالکل نوجوانی میں ’’اَدب لطیف‘‘ جیسے لیجنڈ رسالے کا کامیاب مُدیر کیسے ہوں؟ اُنہوں نے اگرچہ اپنی کوتاہ قلمی کے سبب مجھے کوئی غیر مطبوعہ تحریر اَدب لطیف کے لئے نہیں دی، مگر اشتہار ہر اُس بینک کا دیاجس کے وہ سربراہ رہے محض ایک بار ایک چھوٹا سا مضمون ادب لطیف کو دیا تو اُس شمارے میں اُن کے بینک کا اشتہار نہ چھپ سکا۔ اِس طرح کے اصول پسند وضعدار، ادب نواز، ادب پرور اہلِ قلم اب اور کہاں!

مزید :

رائے -کالم -