تقریر کی لذت

   تقریر کی لذت
   تقریر کی لذت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ صدر آصف علی زرداری دو دن کے لئے اپنے نواسوں سے ملنے دبئی چلے جاتے اور یوم پاکستان کی تقریب سے قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی خطاب کرتے۔ یہ سوال اس لئے پوچھا جا رہا ہے کہ صدر صاحب تقریر کرتے ہوئے بہتر پرفارم نہیں کر رہے تھے۔ جب امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے تو ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان جو مباحثہ ہوا تھا، اس میں جوبائیڈن زیادہ متاثر نہیں کر سکے تھے۔ امریکی میڈیا نے بعد میں آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ جوبائیڈن مباحثے کے دوران ہوش و حواس میں نہیں تھے۔ جس پر ایوان صدر سے یہ وضاحت جاری کی گئی تھی کہ مسلسل سفرکی تھکان کے باعث جوبائیڈن اچھا پرفارم نہیں کر سکے۔آئندہ کسی ڈیبیٹ  میں ان کی پرفارمنس بہتر ہوگی، لیکن امریکی عوام ان سے متاثر ہونا چھوڑ چکے تھے، اس لئے اگلی کوئی ڈیبیٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو نیچا نہ دکھا سکی۔ ایک تقریر جسے براہ راست دنیا بھر میں نشر ہونا تھا اور تقریر بھی ملک کے قومی دن پر کی جانی ہے تو سوال یہ ہے اسے اتنی آسانی سے کیسے لیا جا سکتا ہے۔ ایوانِ صدر میں ایک پورا شعبہ موجود ہے جو صدر کی کسی تقریر یا دورے کو کامیاب بنانے پر مامور ہوتا ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے تقریر نویس نے یا دیگر عملے نے اس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایا کہ صدر آصف علی زردری جو تقریر کرنے جا رہے ہیں، اس کے بارے میں انہیں بریفنگ دی جائے۔ انہیں ایک بار سنا ہی دی جائے بلکہ بہتر تو یہ ہوتا کہ پہلے سن لی جاتی۔ میری طرح آپ نے بھی صدر، وزرائے اعظم اور دیگر بڑی شخصیات کی تقاریر بہت سنی ہوں گی۔ انیس بیس کے فرق سے بات بن جاتی تھی مگر اس بار معاملہ دس بیس کا ہو گیا۔ صدر آصف علی زرداری لفظوں کو درست ادا نہ کر سکے، کئی الفاظوں کا تلفظ انہیں سمجھ نہ آیا، ایسا نہیں کہ صدر آصف علی زرداری کی اردو اچھی نہیں، وہ بہت عمدہ تقاریر کرتے رہے ہیں، مگر اب لگتا ہے پیرانہ سالی یا بیماری کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یومِ پاکستان کی پریڈ سے خطاب کی تقریریں اتنی ولولہ انگیزہوا کرتی تھیں کہ رگوں میں خون کی حدت بڑھ جاتی۔ خاص طور پر جب ملک کے صدور عسکری پس منظر کے حامل تھے تو تقریروں کا رنگ ڈھنگ نرالا ہوتا تھا۔ ہمارے سویلین صدور بھی اچھی تقریریں کرتے رہے اور کبھی ایسا تاثر نہیں ابھرا جو پوری قوم کے لئے ڈپریشن کا باعث بن گیا ہو۔ سیاست  میں ویسے تو بہت کچھ چلتا ہے لیکن قومی دنوں کے موقع پر ہم نے دنیا کو ایک آہنی عزم کا پیغام دینا ہوتا ہے۔ 23مارچ کی پریڈ دیکھنے کے لئے پوری دنیا کے سفارت کار موجود ہوتے ہیں اس موقع پر قوم کے جذبات اور عزائم کی نمائندگی کا فریضہ صدر مملکت کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ قوم تقریر سننے کے لئے ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر صورتِ حال اس قسم کی پیدا ہو جائے جو کل کی صدارتی تقریر کے دوران پیدا ہوئی تو اسے قابلِ رشک ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ بعض حقیقتیں راز رہیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتیں لیکن اگر آشکار ہو جائیں تو ضرررساں ثابت ہوتی ہیں۔

عمران خان جب وزیراعظم بنے تو ان کی حلف برداری تقریب میں خاصی بدمزگی پیدا ہوئی، وہ اپنے حلف کو درست طریقے سے نہیں پڑھ سکے۔ کئی لفظ پڑھتے ہوئے انہیں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا بلکہ وہ غلط پڑھ گئےّ اس پر میں نے ایک کالم لکھا اور سوال اٹھایا کہ وزیراعظم کے پروٹوکول والے کیا اتنا نہیں کر سکتے ایک دن پہلے حلف کی ریہرسل کرا دیں۔ ایک اتالیق مقرر کر دیں جو وزیراعظم کو حلف کا ایک ایک لفظ پڑھ کر سنائے، ان کی غلطیاں درست کرے۔ اس پر مجھے ایوان وزیراعظم سے ایک دوست افسر کا فون آیا۔ کہنے لگے بات تو آپ کی درست ہے، ایسا ہونا چاہیے مگر یہاں مسئلہ یہ ہوتا ہے بلی کے گلے میں گھنٹے کون باندھے، کون وزیراعظم کو یہ باور کرائے وہ اپنے حلف کو بار بار پڑھ کر یاد کرلیں۔ سب اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں ایسا کہا تو وزیراعظم کہیں گے تم نے مجھے اَن پڑھ سمجھ رکھا ہے۔ کیا میں اردو بھی نہیں پڑھ سکتا۔ اس لئے سب حلف کی فائل اندر بھجوا کر حلف والی تقریب کا انتظار کرتے ہیں۔ حلف اٹھانے والے وزیراعظم کو بھی از خود اتنی توفیق نہیں ہوتی حلف کو پڑھ لے کچھ سمجھ نہیں آتا تو اپنے سیکرٹری سے پوچھ لے، جس کا نتیجہ ان غلطیوں کی صورت نکلتا ہے جو عین حلف کے موقع پر سامنے آتی ہیں اور پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس کا نقصان کتنا ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ آج تک عمران خان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار تھے حالانکہ ان سے خاتم النبینؐ نہیں بولا گیا تھا۔

حلف ہوں یا قومی دنوں پر کی جانے والی تقریریں، یہ سب اردو میں ہوتی ہیں،لکھتا کوئی ہے پڑھنی کسی اور کو ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ برسوں پہلے کی بات ہے میں ایورنیو سٹوڈیو لاہور میں موجود تھا۔ جہاں میرے بڑے بھائی رائے فاروق مشہور ہدایتکار حسن طارق کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہوتے تھے۔فلم کا ایک سین تھا جس میں وحید مراد نے قدرے طویل ڈائیلاگ بولنا تھا۔ سین کی ڈیمانڈیہ تھی کہ ایک ہی سپیل میں ڈائیلاگ مکمل کرنا تھا۔ سکرپٹ بوائے انہیں مسلسل ڈائیلاگ یاد کرا رہا تھا جب فلمبند کرنے کی باری آئی تو وحید مراد آدھے ڈائیلاگ کے بعد بھول گئے حسن طارق کو سین کٹ کرنا پڑا۔ دوبارہ سکرپٹ یاد کرایا گیا۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اتنا بڑا اور مقبول اداکار حسن طارق کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑا ہو گیا۔ حضور ڈائیلاگ کو چھوٹا کرلیں یاد نہیں ہو رہا۔ مجھے یاد ہے حسن طارق قدرے غصے میں تو آئے مگر پھر بات مان لی اور یوں سین مکمل ہوا۔ آصف علی زرداری ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ پہلے بھی عہدہ صدارت پر متمکن رہے ہیں، سردو گرم چشیدہ ہیں، لفظوں کا زیر و بم بھی جانتے ہیں اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی تقریر کی گونج تو آج تک موجود ہے، مگر اس بار وہ قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے، جس قسم کے صحت کے مسائل سے وہ گزر رہے ہیں اس میں یہ از حد ضروری تھا ایک توان کی تقریر مختصر رکھی جائے اور دوسرا انہیں تقریر کی پریکٹس بھی کرائی جائے۔

مزید :

رائے -کالم -