تحریکِ آزادیِ ہند کے نامور سپوت: ماسٹر تاج الدین انصاری

تحریکِ آزادیِ ہند کے نامور سپوت: ماسٹر تاج الدین انصاری
تحریکِ آزادیِ ہند کے نامور سپوت: ماسٹر تاج الدین انصاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ماسٹر تاج الدین انصاری برصغیر پاک و ہند کے بڑے سیاسی راہ نما تھے۔ انہوں نے برصغیر پاک و ہند کو انگریز سامراج سے آزادی دلانے میں بڑا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کا خاندان کئی پشتوں سے پنجاب کے مشہور شہر لدھیانہ میں آباد تھا۔

لدھیانہ شہر کے لوگوں میں سیاسی شعور بہت زیادہ تھا، جس کا اعتراف پورے برصغیر کے لوگوں کو تھا اور آج بھی ہے، جس کا ثبوت تحریک آزادی ہند کا مورخ فراہم کرتا ہے۔

لدھیانہ شہر میں چوٹی کے سیاسی لیڈر پیدا ہوئے،جن میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفتی محمد نعیم لدھیانوی، ایم حمزہ (ایم این اے)جیسے سیاسی میدان کے بڑے شہسوار شامل ہیں۔ اس فہرست میں مولانا تاج الدین انصاری کا نام بھی چوٹی کے لیڈروں میں ہوتا ہے۔

ماسٹر تاج الدین انصاری کی پیدائش 1890 میں لدھیانہ شہر میں ہوئی۔ لدھیانہ متحدہ پنجاب کا مشہور شہر تھا۔ جہاں پورے ہندوستان کی طرح مسلمان ،ہندو،سکھ اور عیسائی اکٹھے رہتے تھے۔

تقسیم کے وقت جب شہروں اور علاقوں کا بٹوارہ ہوا تو لدھیانہ مسلم اکثریت کا شہر ہونے کے باوجود ہندوستان کا حصہ بنا دیا گیا اور مسلمانوں کو وہاں سے بے دخل ہونا پڑا۔ لدھیانہ کے سارے لوگ پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ماسٹر تاج الدین انصاری اگرچہ سیاسی آدمی تھے تاہم ان کا ہوزری کا کارخانہ تھا۔ ان کے کارخانے میں تیار شدہ مال پورے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے علاقوں میں بھی ایکسپورٹ ہوتا تھا۔ 1919ء میں امرتسر میں ایک بہت اندوہناک واقعہ پیش آیا، جس نے ماسٹر تاج الدین انصاری کا رخ عملی سیاست کی طرف پھیر دیا۔

انہوں نے اپنے وسیع کاروبار کو خیرباد کہا اور کوچۂ سیاست میں قدم رکھا، تاکہ برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے لئے خدمات سر انجام دے سکیں۔ امرتسر کا ایک مشہور باغ جلیانوالہ باغ کے نام سے مشہور ہے۔

اس باغ میں جلسہ ہورہا تھا۔ جلسہ کے سامعین میں ہندو، مسلم اور سکھ سب شریک تھے۔

ایک انگریز جرنیل ڈائر کے حکم سے وہاں پولیس نے گولی چلا دی، جس کے نتیجہ میں سیکڑوں سامعین مارے گئے۔ بس اس واقعے نے ماسٹر تاج الدین کی زندگی کا رخ پھیر دیا اور انہوں نے اپنی بقیہ عمر انگریز سامراج کو ہندوستان سے نکالنے اور ہندوستان کے رہنے والوں کو آزادی دلانے پر وقف کر دی اور اپنے آخری سانس تک انگریزوں کے خلاف نبرد آزما رہے۔ وہ پہلے انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے۔

پھر مسلمانوں کی انتہائی مستعد جماعت مجلس احرارِ اسلام کے رکن بن گئے۔ اس جماعت کے سربراہ چودھری افضل حق تھے۔ جو آزادی کے متوالے اور اچھے لکھاری تھے۔ ماسٹر تاج الدین کا ہوزری کا کاروبار بہت وسیع تھا۔ لیکن انگریز دشمنی اور آزدی کے حصول کی جدوجہد میں کاروبار ماند پڑ گیا لیکن انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ انگریز دشمنی کے بدلے میں کئی مرتبہ جیل گئے۔ جب رہائی ملتی پھر کسی تقریر کی وجہ سے دھر لئے جاتے اور جیل کی ہوا کھانی پڑتی۔

ان کو اﷲ نے چاند سا بیٹا عطا کیا۔ جب بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس وقت بھی ماسٹر صاحب جیل ہی میں تھے۔ بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ان کو جیل ہی میں ملی۔
ماسٹر تاج الدین انصاری نے لدھیانہ کے مہاجر کیمپ سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی پاکستان کی طرف ہجرت کو ممکن بنایا۔ آپ مہاجر کیمپ کے انچارج تھے۔ مہاجر مسلمانوں کی خدمت کا کام آپ نے جذبۂ خدمت کے طور پر سر انجام دیا تھا۔ اس کے لئے باقاعدہ کوئی حکم نامہ جاری نہیں ہوا تھا۔ آپ آخر وقت تک کیمپ میں موجود رہے۔ تاآنکہ آخری مسلمان خاندان بھی وہاں سے روانہ ہو کر سرزمین پاکستان پہنچ گیا۔

جب اتھل پتھل زیادہ ہوئی تو مسلمانوں پر سکھوں کے حملے بھی بڑھ گئے اور بہت سے مسلمان بھی شہید ہو گئے۔ ان تمام کے کفن دفن کا فریضہ بھی ماسٹر تاج الدین انصاری اور ان کے ساتھ کام کرنے والے رضاکاروں نے سرانجام دیا۔ ماسٹر تاج الدین انصاری حساس دل رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے نہایت تن دہی سے کام کیا۔

مسلمانوں کی ہجرت، سکھوں اور ہندوؤں کے حملے کے تمام واقعات آپ کے سامنے رونما ہورہے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کو سپرد قلم بھی کیا۔ اس کے لئے وہ روزانہ ڈائری لکھتے تھے اور واقعات کو کتابی شکل میں جمع کرتے تھے۔

انہوں نے اپنی اس کتاب کو ’’سرخ لکیر‘‘ کا عنوان دیا جو بعد میں چھپ کر منظر عام پر بھی آئی۔ ان واقعات کو دیکھ کر، پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کتاب سرخ لکیر بعد میں ناپید ہو گئی۔ ان کے بیٹے نذیر اصغر کے پاس اس کے کچھ اوراق موجود تھے۔ اب شاید وہ بھی طاق نسیاں ہو گئے ہیں۔
ماسٹر تاج الدین انصاری مسلمانوں کے معروف لیڈر تھے۔ اس لئے ہندو سکھ ان کے دشمن تھے۔ اس دشمنی میں سکھ پیش پیش تھے۔ اسی دشمنی کے پیش نظر ہندوؤں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ جو شخص ماسٹر تاج الدین کا سر لے کر آئے گا اس کو پانچ ہزار روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔

اس زمانے میں پانچ ہزار بڑی خطیر رقم تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے ماسٹر تاج الدین صاحب کی حفاظت کی اور وہ محفوظ رہے۔ اگرچہ ان پر ہندوؤں نے حملہ بھی کیا لیکن اﷲ نے ان کو امان میں رکھا۔

اسی دوران ایک روز لدھیانہ شہر میں لاؤڈ سپیکر پر یہ انتہائی پریشان کن اعلان ہو ا، جس کے الفاظ تھے ’’ مسلمانوں کے لئے مہاجر کیمپ بن گیا ہے۔

سب مسلمان اپنی تشریف کا ٹوکرا مہاجر کیمپ لے جائیں، تاکہ لدھیانہ چھوڑ کر پاکستان جاسکیں۔ اس کام کے لئے ان کو پندرہ منٹ کی مہلت دی جاتی ہے۔ وہ لدھیانہ خالی کریں ورنہ ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری انتظامیہ پر نہ ہوگی‘‘۔

اس اعلان کے ساتھ ہی سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے۔ راستہ چلتے اکادکا مسلمان کو دیکھ کر سکھ ہندو حملے کرتے اور پیٹ میں چھرا گھونپ دیتے تھے۔

ایسے عالم میں جب مسلمانوں کا لدھیانہ میں رہنا دوبھر ہوگیا تو ماسٹر تاج الدین انصاری مسلمانوں کے لئے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے۔

لیکن جب ہندو مسلم کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی اور لدھیانہ میں مسلمانوں کا رہنا ناممکن ہوگیا تو ماسٹر تاج الدین انصاری مسلمان مہاجر کیمپ میں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سرتوڑ کوشش کرنے لگے۔ جب آخری مسلمان مہاجر کیمپ سے نکل گیا تب سب سے آخر میں ماسٹر صاحب نے بادل ناخواستہ لدھیانہ کو خیرباد کہا اور پاکستان چلے آئے۔
انہوں نے خود تو لاہور میں قیام کیا لیکن ان کے اہل خانہ نے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی۔ ماسٹر صاحب کا جوان بیٹا ہجرت کی اتھل پتھل کو برداشت نہ کرسکا اور 38برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے ماسٹر صاحب کی زندگی ہی میں فوت ہوگیا۔ یہ صدمہ ماسٹر تاج الدین صاحب کے لئے پیغامِ اجل ثابت ہوا۔

بیٹے کی وفات کے بعد ماسٹر تاج الدین کی صحت کو گھن لگ گیا اور وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے۔ سر گنگا رام ہسپتال میں ان کا علاج ہوتا رہا۔ بالآخر آزادی کا یہ متوالا مجاہد یکم مئی 1970ء کو اﷲ کے حضور حاضر ہوگیا۔

ان کی نمازِ جنازہ لاہور میں ادا کی گئی۔ آج ماسٹر تاج الدین انصاری مرحوم جیسے کتنے ہی عظیم انسان زمین کی تہہ میں آسودہ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں آزادی پر قربان کردیں اور لوگوں نے بھی ان کو اپنے ذہنوں سے بھلا دیا۔ ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کے تذکروں کو زندہ رکھا جائے اور نژادِ نو ان کے کارناموں سے اپنی زندگی کے لئے روشنی حاصل کرتی رہے۔

اس کالم کے لئے بیشتر مواد محمد اسلم صاحب کی اہم کتاب ’’1947میں لدھیانہ کے مسلمانوں پر کیا گزری‘‘ سے حاصل کیا گیا۔ یہ کتاب تقریباً دوہزار صفحات پر محیط ہے، جس سے بڑی مفید او ر اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -