اقوام متحدہ کے 79 برس 

اقوام متحدہ کے 79 برس 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقوامِ متحدہ  یا یونائیٹڈ نیشنز(یو این) کو وجود میں آئے 79 برس مکمل ہو گئے۔ گزشتہ روز دنیا بھر میں اِس ادارے کا عالمی دن منایا گیا۔اِس کا قیام 24 اکتوبر 1945ء کو عمل میں آیا، جس کے بعد سے ہر سال اِس دن کو اقوام متحدہ کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ریاست سان فرانسسکو میں 50 ممالک کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی تھی جس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام کا فیصلہ کیا گیا،اِس کا منشور بھی وہیں مرتب ہوا،اِس ادارے کا نام سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی تجویز پر اقوام متحدہ رکھا گیا۔ ہر وہ ملک جو اَمن پسند ہے،اِس  کے چارٹر کی شرائط کو تسلیم کرنے کو تیار ہے اور  ادارے کی نظر میں وہ ملک اِن شرائط کو پورا کرنے کی سکت رکھتا ہے،اِس کا رُکن بن سکتا ہے۔ رُکن ملک پر لازم ہے کہ وہ  یو این کی ذمہ داریوں کو برابری کی بنیاد پر ادا کرے۔ آغاز میں اِس کے صرف 51 ممبر تھے لیکن آہستہ آہستہ دوسرے ممالک بھی ساتھ ملتے گئے اور اِس وقت ارکان ممالک کی کل تعداد 193 ہے۔ اِس کی سلامتی کونسل جنرل اسمبلی اراکین کو معطل یا خارج کر سکتی ہے اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے تو اُسے بھی خارج کیا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ سلامتی کونسل ہی معطل شدہ اراکین کے حقوق رکنیت کو بحال کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور میں درج ہے کہ یو این آنے والی نسلوں کو جنگ سے بچائے گا، انسانوں کے بنیادی حقوق،اُن کی اِقدار کی عزت اور قدر و منزلت کو یقینی بنائے گا، نہ صرف مرد اور عورت کے حقوق کی برابری کو یقینی بنائے گا بلکہ چھوٹی اور بڑی قوموں کے مساوی حقوق کی پاسداری بھی کرے گا۔یہ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے، آزادی کی فضاء میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور معیارِ زندگی بلند ہو تاہم اِن مقاصد کے حصول میں وہ کس حد تک کامیاب ہو پایا ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ 

صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اِس دن کی مناسبت سے جاری کیے گئے پیغام میں کہا کہ ترقی اور انسانی حقوق کا ویژن آج کھلم کھلا خلاف ورزیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے،اِس کی نمایاں مثالیں مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یو این چارٹر میں درج اقدار کا احیاء کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون اور پُراَمن بقائے باہمی پر عملدرآمد ہی عالمی اَمن کے قیام کی کنجی ہے، پاکستان نے بین الاقوامی اَمن و سلامتی کے قیام کے لیے اہم خدمات انجام دی ہیں، اِس کے لیے اقوام متحدہ کے اَمن مشنوں میں فوجی اور پولیس کے دستے فراہم کیے جاتے رہے ہیں کیونکہ پاکستان کثیرالجہتی اقدامات اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ یو این چارٹر کا منصفانہ طریقے سے نفاذ بھی ایک بڑا چیلنج ہے، یہ دن یو این چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے حصول کے عزم کا اعادہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ اِس کی قراردادوں کے باوجود مسئلہ کشمیر اور فلسطین تاحال حل نہیں ہو سکے،اِس کی بانی دستاویز کی دفعات کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو بحران مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کو سب کے لیے ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو حق دلانے میں کردار ادا کرے،وہ  اَمن، انسانی حقوق اور ترقی کے لیے اُمید کی کرن ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کا قیام دنیا میں جنگ کے خاتمے اور انسانیت کے لیے اَمن، انصاف اور بہتر زندگی کے فروغ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا لیکن بین الاقوامی امور کے ماہرین کی کثیر تعداد کی رائے میں یو این اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اُن کی رائے میں کئی عالمی تنازعات میں اِس کا کردار محض مذمت تک ہی محدود رہا جس کی وجہ سے 79 برس گزر جانے کے باوجود دنیا میں آج بھی اَمن قائم نہیں ہو سکا، موجودہ حالات میں غزہ میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اِس کی ناکامی کی واضح مثال ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے کی جا رہی اِن خلاف ورزیوں کی نشاندہی وہ خود کر چکا ہے۔ دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا کو اَمن اور انصاف دینے کے لیے بنایا گیا یہ ادارہ فلسطین اور کشمیر سمیت کئی تنازعات کو حل کرانے میں ناکام رہا ہے۔ اِن دونوں مسئلوں پر اب تک جنرل اسمبلی میں سینکڑوں اور سلامتی کونسل میں درجنوں قراردادیں پاس کی جا چکی ہیں لیکن اسرائیل اور بھارت انہیں خاطر میں ہی نہیں لاتے پھر بھی اُن کی رکنیت قائم و دائم ہے۔ 

متعلقہ ماہرین کے مطابق اقوام متحدہ کے قانون کی اہم ترین شق ویٹو پاور ہے جو عالمی اَمن کی بحالی اور مظلوم اقوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے اِس کے چارٹر میں رکھی گئی تھی تاہم ماضی قریب میں اِس کا استعمال فلسطین اور دیگر ممالک پر اسرائیلی بربریت جاری رکھنے کے لیے ہوا،اِس عمل نے تو ویٹو پاور پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے۔ فلسطینی ریاست کے قیام میں ناکامی کی اہم وجہ بعض عالمی طاقتوں کی اسرائیل کے لیے اندھی حمایت ہے، جس کے بل پر وہ آج بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ یہی صورتحال کشمیر کی بھی ہے، بھارت خود ہی یکم جنوری 1948ء کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا، 28جنوری 1948ء کو سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کی رضامندی سے ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصوابِ رائے سے ہو گا۔پاکستان نے استصوابِ رائے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کی لیکن بھارت آج تک ایسا کرنے سے کتراتا آیا ہے۔ اب اِس نے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت بھی بدلنا شروع کر دی ہے تاکہ اگر کبھی بادل نخواستہ استصوابِ رائے کرانا بھی پڑے تو فیصلہ اُس کے حق میں ہو۔ عالمی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے بھارت کا ساتھ دیتی ہیں، اہلِ کشمیر پر ظلم کی جب بات آتی ہے تو اُن کی سننے اور سمجھنے کی صلاحیت شاید موقوف ہو جاتی ہے۔ طاقتور ممالک کو فلسطینیوں کی نسل کشی نظر آتی ہے اور نہ ہی لبنان اور شام سمیت دیگر ہمسایہ ممالک پر اسرائیلی بمباری کے شکار لوگوں کی آہ و بکا سنائی دیتی ہے۔عالمی امور کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل یو این پر چند بڑے ممالک کا قبضہ ہے،جو ایسٹ تیمور کے بارے میں اور طرح بات کرتے ہیں جبکہ کشمیر پر ان کا رویہ یکسر مختلف ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بننے والی اقوام متحدہ کی پیش رو لیگ آف نیشنز پر وہی سوالات اُٹھائے گئے تھے جو آج اقوام متحدہ پر اُٹھائے جا رہے ہیں۔اِسے اپنی کارکردگی پر غور کرنے کی ضرورت ہے، موجودہ حالات میں اُسے اپنے آپ کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ ویٹو پاور کب اور کیسے استعمال کی جا سکتی ہے اِس پر بھی غور کر لینا چاہئے، جو ممالک اِس کے چارٹر کی پاسداری نہیں کرتے، اِس کی قراردادوں پر عمل نہیں کرتے اُن کی رکنیت معطل کرنے کا کوئی لائحہ عمل طے کیا جانا چاہئے۔ اِقوام متحدہ کوئی تو ایسا نظام بنائے جس سے کسی طاقتور کو کمزور پر ظلم کرنے سے روکا جا سکے۔اِس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اب علاقائی تعاون کی تنظیمیں زیادہ فعال ہو رہی ہیں۔دُنیا کی اِس سے آج بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں، کسی بھی تنازعے یا مسئلے کی صورت میں ممالک اِسی کی طرف دیکھتے ہیں،اِس کے ذیلی ادارے مختلف ممالک میں خشوع و خضوع سے کام کر رہے ہیں۔ایسے میں اَمن کے قیام کے لیے بھی اِسے متحرک ہونا چاہئے، صرف مذمت ہی کافی نہیں ہے، پہلے ہی دیر ہو چکی ہے کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔ اِس وقت اقوام متحدہ کی سب سے بڑی آزمائش دنیا میں اَمن قائم کرنا ہے جس پر اِسے ہر صورت پورا اُترنا چاہیے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -اداریہ -