ٹرمپ کی مسلمان رہنماؤں سے ملاقات

ٹرمپ کی مسلمان رہنماؤں سے ملاقات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر مسلم حکمرانوں سے ملاقات کی، جس کا مقصد غزہ میں تنازع کے خاتمے کے لئے اپنا منصوبہ پیش کرنا تھا۔ یہ ملاقات اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر ہوئی جس میں پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، قطر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، مصر اور اُردن کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ جنرل اسمبلی میں امریکی صدر نے خاصا سخت خطاب کیا،ان کی مسلمان رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی اِس نشست کا کوئی باضابطہ اعلامیہ تو جاری نہیں ہوا لیکن مغربی میڈیا کے مطابق صد ٹرمپ نے ان سے غزہ جنگ بندی اور اُس کے بعد آبادکاری کے عمل سے متعلق امریکی پلان پر بات چیت کی۔ اِن کیمرہ ملاقات سے قبل میڈیا کے سامنے مسلم رہنماؤں سے براہِ راست خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانا ہے، یہ وہ گروپ ہے جو اِس سلسلے میں دنیا کے کسی بھی دوسرے گروہ سے زیادہ کام کر سکتا ہے، اِس لئے اِن کی موجودگی اُن کے لئے اعزاز ہے۔ اُنہوں نے وہاں 32 ملاقاتیں کیں مگر اسے بہت زیادہ اہم قرار دیا، کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو ختم کرنے جا رہے ہیں جو شاید کبھی شروع ہی نہیں ہونی چاہئے تھی۔ اِس موقع پر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب یہاں صرف اِس جنگ کو روکنے اور قیدیوں کو واپس لانے کے لئے موجود ہیں، وہ امریکی قیادت پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ اِس جنگ کو ختم کریں اور غزہ کے عوام کی مدد کریں۔ بعض بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلاء، علاقائی اَمن فوج کی تعیناتی، متاثرہ علاقے کے لئے ایک بین الاقوامی حمایت یافتہ انتقال اور تعمیر نو کے عمل پر مشتمل ہے۔ ایک اسرائیلی ٹی وی اور ایک امریکی ویب سائٹ نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے اگرچہ یہ منصوبہ تیار نہیں کیا تاہم اسرائیلی وزیراعظم کو اِس کے ممکنہ خاکے سے آگاہ کیا جا چکا ہے جس میں فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کا کردار تو شامل ہے لیکن حماس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ عرب اور مسلم ممالک غزہ میں فوجی دستے بھیجنے پر متفق ہوں تاکہ نہ صرف اسرائیل کا انخلاء ممکن ہو سکے بلکہ تعمیرنو کے پروگرام کے لئے درکار رقم کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اِس کثیرالجہتی اجلاس سے قبل امریکی ٹی وی کو بتایا تھا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تنازعے کا مستقل حل صرف ایک مذاکراتی تصفیہ ہی ہو سکتا ہے، ممکنہ معاہدے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہو گا جس میں اہل فلسطین کے پاس اپنی زمین ہوگی اور وہ اُس پر حکومت کریں گے تاہم یہ کسی بھی صورت اسرائیل پر حملوں کے لئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہیں ہو گی۔ ایک اور امریکی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس کثیرالجہتی ملاقات کو غزہ میں تنازعہ ختم کرنے، تمام باقی قیدیوں کی رہائی اور ایک انسانی امدادی پروگرام شروع کرنے کا آخری موقع قرار دیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس ملاقات سے قبل جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ غزہ سے تمام  یرغمالیوں کی فوری رہائی چاہتے ہیں،اگر آپ غزہ میں اَمن چاہتے ہیں تو ان کی رہائی کی حمایت کریں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ طویل عرصے سے غزہ جنگ کے خاتمے کی بھی کوشش کر رہے ہیں مگر حماس جنگ بندی کی کوششیں رد کرتی آئی ہے، اِس نے قابل ِ عمل اَمن معاہدوں کو مسترد کیا، حماس کے مطالبات پورے کرنے کے بجائے یرغمالی رہا کرنے کامطالبہ کیا جائے، مختلف ممالک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کے لئے بڑا انعام ہو گا۔

امریکی صدر نے فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں کو حماس کے لئے انعام تو قرار دیا لیکن بہت ہی اچھا ہوتا اگر وہ اْن اسرائیلی مظالم کا ذکر بھی کرتے جو دہائیوں سے فلسطینی جھیلتے آ رہے ہیں اور جن کی وجہ ہی سے حماس جیسی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں۔ایک طرف تو امریکی صدر آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے خدوخال پر بات چیت کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب اُن کے لاڈلے اتحادی اسرائیل کے وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ فلسطینی ریاست نہیں بن سکتی، وہ عملی طور پر ”ای ون“ نامی توسیعی منصوبہ شروع کر چکے ہیں جس کا مقصد مغربی کنارے کو تقسیم کر کے اِس کے شمال کو جنوب سے الگ کر دینا ہے تاکہ جغرافیائی طور پر جُڑی ہوئی ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی تمام اُمیدوں اور دو ریاستی حل کے امکانات کو ختم کیا جا سکے۔ مغربی ممالک نے اِسی کے پیش ِ نظر فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کیا تھا، فرانسیسی صدر نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں فلسطین کو الگ ریاست تسلیم کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے یہی کہا تھا کہ اسرائیل فلسطین کی الگ ریاست بننے ہی نہیں دینا چاہتا، اِس لئے اُس کا تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ اُن کے بعد لکسمبرگ، بیلجیئم، موناکو اور مالٹا نے بھی سرکاری طور پر فلسطینی ریاست کی حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور پُرتگال نے چند روز قبل فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا۔ یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کے 193 ارکان میں سے 151 ارکان فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں اور اِسی وجہ سے امریکی صدر مسلمان رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر یرغمالیوں کی رہائی کی صورت میں جنگ بندی اور بعد کے معاملات پر بات چیت پر رضامند ہوئے وگرنہ اِس سے قبل تو وہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ اسرائیل وزیراعظم پر چھوڑ دیتے تھے یا پھر خود ہی غزہ کو سنبھالنے کی بات کرتے تھے۔اس پر عرب اور مغربی ممالک نے سخت ردعمل دیا اور پھر صدر ٹرمپ کو اسے محض ایک تجویز قرار دینا پڑا۔ غیر مسلح فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں دنیا کو فلسطین کے عوام کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ مستقبل میں اسرائیل نہ اُن کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا اور نہ ہی اُن کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے گا۔ حق ِ دفاع کی آڑ میں وہ غزہ پر جو ظلم ڈھا رہا ہے، دنیا کی حالیہ تاریخ میں اْس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس ساری صورتحال میں یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ جو ممالک دفاعی اعتبار سے کمزور ہیں اُن پر کبھی بھی کوئی بھی حملہ آور ہو سکتا ہے، قطر کے معاملے میں دنیا یہ دیکھ چکی ہے کہ ایک پُرامن اور ثالث کے طور پر پہچانے جانے والے ملک پر بھی اسرائیل نے کس طرح حملہ کیا۔ اِس واقع نے بین الاقوامی قوانین کی بے بسی کو عیاں کر دیا، جبکہ اقوامِ متحدہ کا کردار محض مذمتی بیانات تک محدود رہا۔ خود امریکی صدر نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مان لیا کہ اس ادارے میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اُن کے بقول وہ سات جنگیں رکوا چکے ہیں، مگر ان معاملات میں اقوامِ متحدہ کا کوئی کردار نہیں رہا، یہ اور بات کہ فلسطین کے حوالے سے پیش کی جانے والی قراردادیں ہمیشہ امریکہ کے ویٹو کے باعث ہی ناکام ہوتی رہی ہیں۔ اس لئے ضروری ہوگا کہ یا تو فلسطین کی الگ ریاست انہی مساوی بنیادوں اور حقوق کے ساتھ قائم کی جائے جن پر آج موجودہ اقوام  بشمول اسرائیل اور امریکہ قائم ہیں، یا پھر ایسی طاقتیں اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائیں جو اسرائیل کو ٹکر دے سکتی ہوں۔

مزید :

رائے -اداریہ -