سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 8

دروازے پر لوہے کے ڈانڈوں والے نیزوں کی انیوں میں اڑسی ہوئی مشعلیں جل رہی تھیں اور سبز استنبول ریشمیں پردہ پڑا تھا جس پر چاندی کے تاروں سے قرآن پاک کی آیتیں کڑھی ہوئی تھیں اور جو شامی ابتدائی سردی کی برفیلی ہوا میں لرز رہا تھا وہ مع گھوڑے کے اندر گھُس گیا۔ اندر سے کشادہ خیمے کے بیچوں بیچ شہتیر سے ایک بوڑھا آدمی بندھا ہو اتھاجس کی سفید نچی کھنچی داڑھی کانپ رہی تھی۔ اور ننگے جسم کے تازہ زخموں سے خون بہہ رہا تھا اور اس کے سامنے ایک آدمی چھوٹی سی مشعل لئے پھونک ڈالنے کے انداز میں کھڑا تھا۔ ابھی وہ اس منظر کے خوف پر غالب نہیں ہو پایا تھا کہ ایک لمبے تڑنگے آدمی نے اس کے گھوڑے کی زنجیر یں تھام لیں۔ اس کی ایک بغل میں ایک پھول سی لڑکی پھڑ پھڑا رہی تھی۔ اس کے گھوڑے کو دھکیل کر خیمے کے باہر کر دیا گیا۔ وہ بوڑھا آدمی اسی طرح چیختا رہا اور وہ دروازے پر کھڑا سنتا رہا۔ ایک سوار نے اس کے گھوڑے کی راسیں شاہی بارگاہ کی طر ف پھیر دیں اور وہ چلنے لگا۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۔۔۔اور اسی رات کی اس مقدس گھڑی میں جب فرشتے آسمان سے نزول کرتے ہیں اور گنہگار انسانوں اور بدنصیب قوموں کے آنسوؤن سے بھیگے ہوئے تقدیر نامے سروں پر رکھ کر لے جاتے ہیں اور عرش اعظم کا پایہ پکڑ کر خدائے قہار اور خدائے کریم کے حضور میں گڑ گڑا تے ہیں اور تقدیر یں بدل ڈالنے کا پروانہ حاصل کرتے ہیں۔ رات کی اسی برگزیدہ گھڑی میں اس نے گھوڑے کے ایال اور تلوار کا قبضہ پکڑ کر آنسوؤں سے وضو کی ہوئی آواز میں خدا سے دعا مانگی کہ اگر ہمارے امتحان اور عذاب کا زمانہ ختم ہو گیا ہو تو مجھے وہ حوصلہ اور طاقت عطا کر کے میں ان ناپاک بھیڑیوں کو اپنی متبرک سرزمین سے دھکیل کر سمندر میں غرق کر دوں اور اگر یہ سعادت میرے مقدر میں نہیں ہے تو ابھی اور اسی وقت اور اسی گھڑی مجھے موت عطا کر دے۔ پھر ایک خیمے سے بڑی سریلی آواز آئی۔ اس نے راسیں کھینچ لیں اور سننے لگا۔
میرے بال مشک کے دریا کی پرُشور موجیں ہیں۔
میری آنکھوں کے آبگینوں میں وہ شراب چھلکتی ہے جس کے لئے فرشتے آسمانوں پر عبادت کرتے ہیں۔
اگر سورج اور چاند کو ایک ساتھ دیکھنا ہو تو میر ا گریبان کھولو
اور میری رفتار کا دوسرا نام ہی گردشِ ایام ہے۔‘‘
وہ گھوڑا بڑھا کر خیمے کی جھری پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ ولایت دمشق کے سب سے بڑے عامل فضیل کی مشہور کنیز مغیرہ حوا کا لباس پہنے مشعلوں کی روشنی میں تڑپ رہی تھی ۔اور گارہی تھی اور بعلبک کا عامل عیاز صلیبی افسروں کے کانوں سے خوشامدانہ سرگوشیاں کر رہا تھا۔ وہ ساری رات بکتر کے تابوت میں دفن گھوڑے کی پیٹھ پر گڑا رہا ۔
لوئی ہفتم شام کے شمالی مضامات کو تاراج کر کے واپس آرہا تھا اور شہنشاہ کو نریڈ بعلبک کو غارت کر کے لشکر اٹھا چکا تھا۔ بلکہ ان دونوں لشکروں کے انتظار میں پڑی ہوئی تھی اور چاہتی تھی کہ ان کے ساتھ ہی دمشق پر یلغار کر ے اور ایک ہی ریلے میں فیصلہ کر دے ۔ صبح کی نماز کے بعد ہی ایلس نے اسے خبردی کہ دن میں آرام کر لو کیوں کہ آج رات دمشق کی فصلوں پر شب خون کے پرچم اڑائے جائیں گے ۔ پھر اس نے ملکہ سے تصدیق کی اور بدحواس ہو گیا۔ جب قحطان سے ملاقات کی کوئی صورت نہ نکلی تب وہ ملکہ کو پر چا کہ درا فشاں کی سیر کو نکلا اور تھوڑی دیر بعد ملکہ اپنی خدمت گزار عورتوں کے ساتھ مچھلی کے شکار میں پھنس گئی۔ وہ گھوڑا اٹھا کر ’’برج فتح ‘‘ کے سنسان دروازے پر آیا۔ یہ برج عمادالدین زنگی نے اپنی فتح کی یادگار میں بنوایا تھا جو ایک طرف جبل لبنان کے جنگلی راستوں اور دوسری طرف زرافشاں کے اتاروں کی نگہبانی کرتا تھا لیکن جس کی فوجی اہمیت ختم ہو چکی تھی اور جو شکاریوں کی قیام گاہ بن کر رہ گیا تھا۔ اس نے چاروں طرف گھوم پھر کر اطمینان کیا پھر راسیں دروازے کے قلابے میں باندھیں اور تلوار کھینچ کر پوری احتیاط سے برج کی آخری منزل پر چڑھ گیا۔ اس نے شیرازی کبوتروں کا جوڑا طاقچوں سے اتارا۔ ایک کبوتر کو پکڑ کر گالوں سے لگایا اور گردن پر بوسہ دیا اور ذبح کر کے دوسرے کبوتر کورنگ دیا ور ہوا میں اچھال دیا۔ وہ دمشق کی طرف اڑتے ہوئے کبوتر کو آنکھوں پر ہتھیلی کا چھجہ بنائے دیر تک دیکھتا رہا۔ جب وہ کھوگیا تو پھر مردہ کبوتر کو پھینک کر بھاری بھاری قدموں سے نیچے آتر آیا۔برج کا ایک چکر لگا کر وہ کانٹے دار جھاڑیوں اور کھجور کے درختوں میں کھوئے ہوئے چشمے کے کنارے آیا اور وضو کرنے لگا۔ بڑی دیر تک پوری محویت کے ساتھ اپنے خدا کو یاد کرتا رہا اور دمشق کی حفاظت کی دعا مانگتا رہا۔
شام ہوتے ہوتے شہنشاہ کو نریڈ آگیا اور آتے ہی طبل جنگ پر چوٹ لگا دی۔ رات چڑھتے چڑھتے پچاس ہزار بکتر پوش سواروں کا جرار لشکر دمشق پر شب خون کیلئے چڑھ دوڑا ۔ آگے آگے لوئی ہفتم بیس ہزار سواروں کے ساتھ چل رہا تھا۔ اس کے پیچھے جرمانیہ کے دس ہزار مشہور سورما پیدل تھے۔ ان کے عقب میں کونریڈ شمالی یورپ کے بیس ہزارلشکر کو کمان کی طرح پھیلائے ہوئے آرہا تھا ۔ ابھی مشرق کی پیشانی پر سیاہی مسلط تھی کہ مسلح آدمیوں کا سمندر دمشق کی فصیل کے نیچے چھائے ہوئے باغیوں کے سامنے آگیا۔ کونریڈ کے نقشے کے مطابق لشکر کو بابِ مغرب پر ہلہ کر کے شہر میں گھس جانا چاہیے تھا لیکن اس کی گزارش پر ملکہ نے لوئی کی زبان سے مشورہ دیاکہ لشکر اس طرح پھیلا دیا جائے کہ شمال مغرب اور جنوب کے دروازے ہدف بن جائیں اور زرد کر کے تین طرف سے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی جائے۔ کونریڈ نے بحث میں وقت کھونے کے بجائے اتفاق کر لیا۔ سارا لشکر باغیوں میں پھیل کر چلنے لگا۔ ابھی وہ پتھر کے ان مکعب مکانوں سے دور تھے جو شہر پناہ کے دمدموں کا کام انجام دیتے تھے کہ درختوں سے نفخ کی ہانڈیاں برسنے لگیں۔ جن کی چیختی ہوئی ہولناک روشنی موت کے خنجر کی طرح لپکنے لگی اور کونریڈ جیسا جانباز مجاہد گھوڑے سے اتر کر مسیح کی دہائی دینے لگا۔ میلوں میں پھیلے ہوئے لشکر کی ایک ایک انچ زمین نالوں، فریادوں اور آنسوؤں سے چھلک اٹھی ۔ جب ہانڈیوں کا زور کم ہوا اور تیروں ، نیزوں اور پتھروں کی بارش شروع ہوئی تب افرنجیوں نے سنبھال لیا اور گھوڑوں پر سوار ہو کر دھاوا کیا اور اپنی صفوں کو قائم کر کے چلے۔ اب درختوں پر چھپے ہوئے مسلمان سپاہی پھاندنے لگے اور جنگ مغلوبہ شروع ہو گئی۔ لوئی جس سے ایک عورت نہیں سنبھلتی تھی۔ اس یلغار کو کیا سنبھالتا۔ واپسی کا قرنا پھونک کر پیچھے ہٹ آیا ۔ اب شہنشاہ کونریڈنے نیزوں پر مشعلیں چڑھائیں ۔ باب شمال کی کمان اپنے بھتیجے کو سونپی اور فرانس کی بدترین فوجوں کی ہمت ندھانے چلا اور آتے ہی آتے فرانس کی چھوڑی ہوئی جگہ کو اپنے سواروں سے بھر دیا۔ جرمانیہ کے سوار گھوڑوں سے اتر پڑے اور اپنی شہرت کے مطابق زمین پر گھٹنے گاڑ کر مسلمانوں کے سیلاب کو نیزوں پر واقعی روک لیا۔ وہ ملکہ پر اپنی تکونی ڈھال کا سایہ بنا میدان سے دور کھڑا رہااور خود کے چہرے پوش میں بند ہونٹ مسلمانوں کی فتح کی دعا مانگتے رہے ۔ صبح ہوتے ہوتے لشکر کا ایک حصہ کٹ چکا تھا اور کونریڈ باغوں سے پیچھے ہٹ آیا تھا اور مسلمان اپنی کمین گاہ میں واپس چلے گئے اور دوپہر ہوتے ہوتے سینٹ پال کی مقدس صلیب ایک ڈھلواں گاڑی پر چڑھ کر آگئی جسے بارہ کنواریاں اور چوبیس اسقف سفید داڑھیوں پر سیاہ لباس پہنے انجیل مقدس کی دعائیں پڑھتے روتے ہوئے اور عقب میں کل فوج لئے آگئے۔ ملکہ نے اسے دیکھتے ہی سینے پر صلیب بنائی اور رو رو کر مسیح کے غضب کو اکسانے لگی۔ لاشوں سے پھلے ہوئے باغوں کو دیکھ کر تازہ دم لشکر جوش و غروش سے نعرے لگانے لگا۔ بڑے بڑے نائٹ طبقہ دارو دیہ اور لبیطار کے شہسوار ہاسپٹلرز کی آبرو اور ٹمپلرز کے نام لیوا صلیب کے سامنے گر کر شہید ہو جانے کی قسمیں کھانے لگے ۔ خود کو نریڈ ننگے سر آیا اور بڑی دیر تک کھڑا آنسو بہاتا رہا۔ پھر سیکٹروں دبابے اور منجنقیں باغات پر پتھر برساتی رہیں ۔ لمبی چوڑی ڈھالوں کے سارے میں افرنجی سور ما خاص کو نریڈ کی کمان میں لیٹ کر آگئے بڑھنے لگے اور ایسا معلوم ہوا کہ باغوں کے مورچے ، مکعب سنگین مکانوں کے دمدمے اور شہر پناہ کی گمین گاہیں سب مٹی کے کھلونوں کی طرح ٹوٹ پھوٹ کر بہہ جائیں گی۔ اس نے اپنے حواس کو درست کیا اور ملکہ کو سمجھا بجھا کر گھوڑے اڑاتا ہوا اسقف اعظم کے پاس پہنچا اور لوئی کی پشت پناہی میں ارشاد کیا کہ شہر پناہ کا مشرقی حصہ اتنا کمزور ہے کہ آپ پہنچتے پہنچتے شہر پناہ میں داخل ہو جائیں گے۔ اس بات میں وزن اس لئے محسوس ہوا کہ بہر حال وہ حصہ شہر کی پشت پر تھا اور وہاں حملہ آور غنیم اپنا وقت غارت کرنے کے بجائے پہلے ہی سامنے کے مغربی حصہ پر ٹوٹ پڑنا آسان سمجھتا تھا۔ ملکہ کی سوگوار صورت اور درد ناک آواز اور لوئی کا جھلسا ہوازرہ بکتر کام آیا اور صلیب مقدس مشرق کی طرف چلنے لگی ۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
کونریڈ جو دبابوں اور منجنیقوں کے سائے میں باغ پر نازل ہو چکا تھا اور ایک حد تک عبور کر چکا تھا اس نئے حکم پر بوکھلا گیا لیکن اسقف اعظم کے حکم کی تعمیل پر مجبور ہو کر پیش قدمی کرتے ہوئے سارے لشکر کو لپیٹ کر شہر پناہ کی مشرقی دیوار کے نیچے ڈال دیا۔ اس کارروائی میں شامل ہو چکی تھی۔ لوئی ہفتم نے کمر کھولنے کا قرنا بجوا دیا۔ کونریڈ بھی گھوڑے سے اتر آیا ۔ بادشاہوں اور نوابوں کے لئے خیمے نصب ہو رہے تھے کہ ہنگامہ مچ گیا۔ اب صلیبی لشکر کے آگے شہر پناہ کی اونچی مضبوط دیواریں تھیں۔ نیچے بنجر زمین تھی جو کچھ دور چل کر بیولوں کے ناقبلِ عبور جنگل سے مل جاتی تھی۔ بائیں بازو پر کچی فصلوں کے کھیت تھے جن کے سلسلے دمشق کے مشہور عالم باغات تک چلے جاتے تھے اور داہنی طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا غیر آباد علاقہ تھا۔ ان میں اکا دکا پانی کے چشمے تھے جن کو زہر ڈال کر بیکار کر دیا گیا تھا۔ جب کونریڈ کا ذاتی دستہ پانی ڈھونڈ کر ہار گیا تو زرافشاں کی طرف چلا لیکن اب زرا فشاں کے مشرقی کنارے پر اس کے چچا اور شام کے مشہور سپہ سالا ر اسد الدین شیر کو تازہ دم بکتر پوش مجاہدوں کا سمندر لئے کھڑے تھے۔ جن کی موجوں نے زر افشاں کی روانی چھین لی تھی۔حکم سے معذور اور پیاس سے مجبور سپاہیوں نے باگیں اٹھا دیں اور شیر کوہ نے انہیں کاٹ کر پھینک دیا۔ کوئی تلوار کا مارا خوش نصیب زندہ بچ گیا اور یہ خبر بد سنائی۔ اس نے گھوڑے کی پیٹھ ہی پر گردن جھکا کر خدا کا شکر ادا کیا۔
کونریڈ جس کے لنگر سے گھوڑا دھچکتا تھا چنگھاڑتا ہوا نکلا اور المانیہ سے انتروتک اپنی تاریخ رکھنے والے نامی گرامی خاندانوں کے شمشیر زنوں کو نام لے لے کر پکارا اور پانچ ہزار سواروں کے ساتھ جن میں صرف بائیس بائیس سو تھے پانی لینے چلا اور جاتے ہی جاتے شیر کوہ پر ٹوٹ پڑا لیکن ہزاروں لاشیں اور ان کی دوگنی مشکیں اور ان سب سے زیادہ قیمتی اپنی آبرو کھو کر صرف جان بچا سکا۔ وہ ساری رات سوتے جاگتے خدا کا شکر ادا کرتا رہا۔ (جاری ہے )
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں