غریبی میں نام پیدا کر
کہتے ہیں عورت کو اُس کی شکل اور مرد کو کمائی کا طعنہ نہیں دیا کرتے۔ یہ باتیں مہذب معاشروں کی ہیں، وگرنہ دیرینہ ہمکار طاہر ملک کے دعوے کے باوجود کہ ”ملک جی، آپ شکل سے امیر لگتے ہیں“ یہ کالم نویس آج کل دونوں الاہموں کا مستحق ہے۔ دو افراد پر مشتمل گھرانے میں صنفِ نازک کی طرف سے باضابطہ طعنے کی نوبت ابھی نہیں آئی۔ پر فل ٹائم تدریس سے وابستہ بیگم نے خود سے چار سال بڑے جز وقتی استاد کو ایک ہی ہفتے میں دو عدد بُش شرٹ اور چار جوڑے جرابیں دلوا کر ایک نئی کشمکش سے دوچار کر دیا ہے۔ یہی کہ آیا مذکورہ تحفے ایک پالتو شوہر کے مردانہ احساسِ برتری کو کندھا دینے کے لیے ہیں یا آخر کار اِس انکشاف کا ٹِکر چل گیا ہے کہ ڈھائی سا ل پہلے وطن کی سب سے پرانی جامعہ میں صحافت کے طلبہ کو جو تین سمسٹر پڑھائے تھے وہ چیک آج تک رُکے ہوئے ہیں۔
وسیع تر سوچ رکھنے والے آدمی کے ذہن میں یہ بحث اِس سوال سے بھی جُڑی ہوئی ہے کہ آخر آدمی کے دنیا میں آنے کا مقصد ہے کیا۔ یعنی آپ دنیا میں کیا اس لیے آئے تھے کہ موسم کی مناسبت سے اپنی سکت کے مطابق کپڑے خرید لیں یا نہ خرید سکنے کی صورت میں آئی ایم ایف کے آئندہ پیکج کا انتظار کرتے رہیں؟ جس تنخواہ دار بستی میں اپنا لڑکپن گزرا، وہاں ایسے پڑوسیوں سے کہ ’اک بڑا شاعر، بہت چھوٹا سا جو افسر بھی ہے‘ کئی بار سنا کہ ”فکر کاہے کی؟ لڑکا انجنئیرنگ میں ہے، بیٹی میڈیکل کالج میں۔ بس ذرا اِن سے فارغ ہو جائیں تو مَیں اور تمہاری چچی حج پہ چلے جائیں گے“۔ یوں ہمارے درجنوں چچا اور چچیاں دیکھتے ہی دیکھتے حج کر آئیِں، مگر یہ عبوری دارالحکومت راولپنڈی کے نواح میں اردو بولنے والی اُس کنٹونمنٹ کی بات ہے جہاں ہماری اسکول کی تعلیم ہوئی۔
اِس سے پہلے ’بانگِ درا‘ کے دیباچہ سے سر عبدالقادر کے الفاظ دُہراؤں تو پنجاب کے ایک گوشے میں، جسے سیالکوٹ کہتے ہیں، جب نیم قصباتی فضا میں آنکھ کھولی تو لوگوں کو سماجی عقائد و نظریات میں زیادہ خود کفیل پایا۔ اکثر کی زندگی اپنے اپنے نواحی گاؤں کی معیشت سے جُڑی ہوئی تھی۔ سو، بچپن کے اقوال زریں میں ہر روز کا یہ جملہ بھی سُنا کہ (گیہوں کے) دانے اور چاول تو گھر کے ہو جاتے ہیں اور گائے بھینس کی بدولت دودھ گھی بھی اپنا، فِکر کِس بات کی؟ چھوٹی زرعی اکائیوں والے ہمارے ضلع میں اپنے دانوں اور چاول والی زمینوں کا ملکیتی رقبہ کتنا تھا اور کیا ہر ایک کی اراضی کسی ایک فرد کی ملکیت ہوتی یا سارے خاندان کی؟ جواب دینے میں ’بِزتی‘ کا پہلو ہے۔ بس کم وسیلہ انسان ہوتے ہوئے بھی خوشحالی کے برعکس خوش باشی کی گیدڑ سنگھی کہِِیں سے ہمارے دادا کے ہاتھ لگ گئی تھی۔
یہی دیکھ لیں کہ پاکستان بننے سے سولہ سال پہلے سری نگر جیل کے باہر جب حریت پسندوں پہ گولی چلی تو سید عطا اللہ شاہ بخاری کی پکار پر صرف دو ہفتوں کے اندر پنجاب کے چالیس ہزار نوجوان بطور احتجاج یہ نغمہ گاتے ہوئے جموں و کشمیر میں جا قید ہوئے کہ ’اٹھو اٹھو مومنو، رخ کرو کشمیر دا، راج کر تباہ سٹو ڈوگرے بے پیر دا‘۔ قیدیوں میں ہمارے دادا اور قریبی دوستوں چاچا اقبال، چچا محمد علی اور حافظ عثمان کی ٹولی بھی تھی۔ رضاکار سرخ قمیض اور نیلی نیکر میں سیالکوٹ سے روانہ ہوئے اور سوچیت گڑھ کی ریاستی سرحد پہ گرفتار کر لیے گئے ا،س سے آگے اودھم پور جیل اور پھر گورکھا فوجیوں کے ٹھیکری پہرے والا فیروز پور کیمپ۔ چالیس بعد سال مَیں نے پوچھا کہ اباجی، گرفتاری دیتے ہوئے آپ کو چھ سالہ بیٹے اور دو سالہ بیٹی کا خیال نہ آیا تو انہوں نے سادگی سے کہا: ”بیٹا، وہ تو قومی کام تھا نا“۔
سیلف میڈ دادا کی یہ حرکت بھی خوب ہے کہ قومی کام سے فارغ ہوتے ہی انہوں نے جرمن ساخت کی ڈاج موٹر کار خرید لی جو معتبر ذائع کے مطابق دوستوں ہی کے کام آتی رہی۔ یہ مردانہ روایت تھی یا کسی اجتماعی احساسِ ِمحرومی کا نتیجہ کہ ہمارے بچپن میں سفید پوش بزرگ نیم خالی جیبوں کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھے چائے پہ چائے کا آرڈر دیتے جاتے۔ پھر بِل ادا کرتے ہوئے دوسروں کو جسمانی طور پر روکنے کی کوشش کہ ”نہیں نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“ مَیں اور چھوٹا بھائی زاہد اپنے والد اور اُن کے دوستوں کے اِس طرزِ عمل سے متاثر تھے۔ حسنِ اتفاق یہ کہ ہم دونوں کی اولین تنخواہیں بھی کم و بیش ایک ساتھ ہی وصول ہوئیں۔ چنانچہ بٹوے جیب میں ڈال کر ایک ساتھ چائے خانے پہنچے تو یہ طے تھا کہ آج ابا کا ایکشن ری پلے دکھایا جائے گا۔
پہلی پہلی یہ تنخواہیں گرمیوں میں نہیں، گلابی جاڑوں میں مِلیں۔ چنانچہ گرم سوٹوں میں ملبوس بائیس اور تئیس سال عمر کے دو نوجوان راولپنڈی صدر کے ایک ریستوران میں داخل ہوتے ہیں۔ باوردی بیرا خالی میز کی طرف باادب اشارہ کرتا ہے۔ چائے کا آرڈر، ساتھ ہنٹر بیف جس کا تودہ کاؤنٹر ہی پہ نظروں میں سما گیا تھا۔ سفید ٹیبل کلاتھ کے آر پار گپ کا دَور چلتا ہے، چائے دو مرتبہ ریپیٹ ہوتی ہے۔ اب جو بِل آیا ہے تو دونوں نے کسی شعوری منصوبہ بندی کے بغیر اسکرپٹ پر عملدرآمد شروع کردیا: ”نہیں جی نہیں، میں دوں گا‘‘۔۔۔ ”کیسے ممکن ہے؟“۔۔۔ ”کمال کرتے ہیں، ملک صاحب“۔ پیسے تو کسی ایک نے ادا کر دیے مگر وہ جو بڑوں کی طرح پہلی بار ’ملک صاحب ملک صاحب‘ کہنے کی لذت ہے وہ عجیب تھی۔ باہر نکلتے ہی زاہد نے کہا ”لگتا ہے کچھ زیادہ ہی ایکٹنگ ہو گئی۔“
ویسے مہمان نوازی کی اِسی اوور ایکٹنگ کی بدولت چند سال کے اندر وہ حکمتِ عملی بھی سیکھ لی جسے ’بیرا سیٹ کرنا‘ کہتے ہیں، یعنی آرڈر مفصل مگر بِل مختصر۔ یہ حرکت بہرحال میری ذات تک محدود رہی۔ دوسرے، یہ میرے ایما پر نہ ہوا بلکہ آرڈنینس کلب واہ میں اِس کی ترغیب مجھے دوسری جنگِ عظیم کی یاد گار مونچھوں والے فیروز نامی ویٹر نے دی تھی۔ ایک شام جب کلب کے لان میں بیف برگر، چپس اور چائے کے کئی دَور ہو چُکے تو رات بھیگنے پر فیروز نے چپکے سے لہجہ کی شاعری کی۔ فرمایا:”آپ کے سوا کوئی چِٹ سائن نہیں کرتا، اس لیے آج صرف چائے ہی لکھی ہے۔“ مَیں نے خاموشی سے دس کا ایک نوٹ فیروز کی طرف کھسکا دیا۔ اگلے دن محسوس ہوا کہ علی افسر نامی ویٹر بھی فیروز کے کہنے میں ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے گروُ اویس توحید گواہ ہیں کہ نئی صدی کے آغاز پر لندن میں ’کوِینز وے‘ کے خان ریستوران میں بھی غریبی میں نام پیدا کرنے کا موقع مِلا تھا۔ بی بی سی کے کام کے سلسلے میں تین ماہ صبح و شام کے قیام و طعام کے دوران اویس نے جب مجھ سے آرڈنینس کلب کا قصہ سنا تو دوستانہ انداز میں کہنے لگے کہ یہاں لندن میں بیرا سیٹ کر کے دکھائیں تو جانیں۔ ریستوران میں بیٹھے بیٹھے مَیں یہ چیلنج قبول کرنے پر غور کر رہا تھا کہ بیروں کا کیپٹن میرے قریب آ گیا ”سر، پونڈوں میں ٹِپ نہ دیا کریں، ساری مالک دھرا لیتا ہے“۔ مَیں نے مخصوص پنجابی لہجے میں جواب دینے کے لیے منہ کھولا تو کیپٹن خوش ہو کر بولا:”آپ تو اپنے سیالکوٹ کے لگتے ہیں۔ جتنے دن لندن میں ہیں ہر روز سویٹ ڈش میری طرف سے“۔ اِس اعلان پر اویس توحید کی حیرت مِلی مسکراہٹ دیکھنے کی چیز تھی۔