اجلاس میں شور شرابا، ہلڑ بازی، ہاتھا پائی 

   اجلاس میں شور شرابا، ہلڑ بازی، ہاتھا پائی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پاکستان کے قیام کو 77 سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے لیکن اس دوران ہم ملکی آزادی کے بڑے مقاصد یعنی معاشی ترقی کی خود مختاری اور سیاسی استحکام کے حصول کا با عزت مقام پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ حالانکہ اس سر زمین پر بہت قابل، ذہین،محنتی، جفاکش، تعلیم یافتہ، ہنر مند اور باکردار افراد کی کافی تعداد ہے جو مطلوبہ استعداد  اور تجربہ میں بھی کم نہیں ہے۔ نیز یہاں قدرتی وسائل اور زرعی پیداوار کی ضروریات اجناس مثلاً گندم، چاول، سبزیوں  پھلوں، گنا اور کپاس کی بھی کوئی قلت نہیں۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے سے بعض اجناس مثلاً دالیں خوردنی تیل اور چائے وغیرہ بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ زیر زمین قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر بھی یہاں مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ اگرچہ ہم ان کی زیادہ وسعت یا تعداد ابھی تک سطح زمین سے باہر لا کر صحیح طور پر استفادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ 

مذکورہ بالا حقائق واضح کرتے ہیں کہ وافرضروریات زندگی اور باہمت افراد ی قوت کی کثرت کے باوجود وطن عزیز کے لوگوں کی اکثریت کا پسماندگی اور بے تحاشا مہنگائی سے دوچار ہونے اور طویل عرصہ سے ترقی سے آگے بڑھنے کی بجائے تنزلی کی مشکلات سے الجھے رہنے سے عیاں ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور ارباب اختیار کی منصوبہ سازی میں بڑی خرابیاں اور ان کی کارکردگی میں بد انتظامی یا بددیانتی کی غلط کاریاں کی جاتی رہی ہیں۔ کیونکہ ملک کی معیشت کو بہتر رواں اور موثر رکھنے کے لئے گزشتہ کئی سال سے ہمارے حکمرانوں کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں  اور بیرونی ممالک سے کڑی شرائط پر قرضے اور مالی امداد لینے کی ضرورت لاحق رہی ہے۔ بیرونی اداروں اور دوست ممالک کے قرضے واپس کرنا یہاں بیشتر حکومتوں کے لئے بہت مشکل مسئلہ بنا رہا ہے جو آج کل بھی ہے۔ کیونکہ ان خطیر رقوم پر سود کی مالیت ہی اس قدر ضخیم یعنی اربوں میں ہوتی ہے کہ اس سود کی واپسی کے لئے بھی ہمارے حکمران طبقوں کو مزید قرضے حاصل کرنے کی منت سماجت کی اذیت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملکی سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے قارئین کرام کو علم ہو گا کہ آئی ایم ایف کا وفد محض چند ہفتوں کے بعد جائزہ لینے دوبارہ یہاں آیا  تاکہ وہ وفاقی وزارت خزانہ کی قیادت سے مذاکرات کر کے اپنے حالیہ منظور شدہ قرضہ کی شرائط پر عمل درآمد کے بارے میں بعض ناکامیوں کی بابت مزید وضاحت اور بہتر کارکردگی کی یقین دہانی حاصل کر سکے۔

 ستم ظریفی یہ ہے کہ وطن عزیز کے  خراب معاشی حالات کی بنا پر گزشتہ چند سالوں میں ہمیں دیوالیہ ہونے کے خطرات کے خدشات سے نبردآزما ہونا پڑتا رہا۔ ابھی کوئی چند ماہ قبل چین، سعودی عرب اور یو اے ای سے چند ارب ڈالرز قرض لینے پر ہماری معاشی حالت قدرے بہتر اور دیوالیہ ہونے سے بچنے میں بمشکل کامیاب ہوئے۔ ان حقائق سے واضح ہے کہ ہمارے حکمران اور اعلیٰ حکام اپنے ملک کے دستیاب مالی و سائل سے بڑھ چڑھ کر اخراجات کرنے کی روش سے باز نہیں آئے اور ٹیکس کی مطلوبہ رقم بھی متعلقہ طبقوں سے وصول نہیں کی جا سکی اس طرح کی غلطیوں سے عوام کی عزت و شہرت ملک اور دیار غیر میں بری طرح متاثر ہوتی رہی ہے۔ جبکہ اندرون ملک تو کروڑوں لوگوں کی زندگی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ یہ غیر ذمہ داری کا انداز کار، بہت ناقص، نقصان دہ، افسوس ناک اور فوری طو رپر اصلاح طلب ہے۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات اپنے مختص مالی وسائل سے تجاوز نہ کریں اور  پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے۔ ہمارے حکمران طبقوں کو اپنی تنخواہوں، مراعات بڑی گاڑیوں کے استعمال اور دیگر امور میں شاہانہ انداز سے اخراجات کی بجائے بہتر کارکردگی اور سادگی کے طرز عمل کو اختیارکر کے خوردبرد اور فضول خرچی کے رجحات کو قانونی ذرائع سے روکنے پر فوری  توجہ اور ترجیح دینا چاہیے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی ایوانوں میں حکومتی نمائندوں اور حزب اختلاف کے اراکین اپنے حریفوں کو تہذیب شائستگی اور باہمی عزت و احترام کے آداب و الفاظ سے مخاطب کر کے اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔  

یہ امر عوام میں جارحیت کا رجحان پیدا کرتا ہے جیسا گزشتہ چند ماہ سے پارلیمنٹ اور  صوبائی اسمبلیوں میں شور شرابا، ہلڑ بازی اور ہاتھا پائی سے باہمی تلخ کلامی اوربدتمیزی کے حالات دیکھنے اور پڑھنے میں آ رہے ہیں ظاہر ہے کہ ایسے نازیبا طرز عمل سے متعلقہ نمائندوں کے علاوہ ملکی وقار و احترام پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ یہاں سیاسی ایوانوں اور سڑکوں پر ہلڑ بازی کے ارتکاب سے ملک کی جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ چند روز قبل 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں بدنظمی کی خاصی اذیت ناک اور پریشان کن دیکھنے میں آئی۔ اس بارے میں سب متعلقہ نمائندوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کی بجائے ملک کی عزت و وقار کو مقدم رکھ کر اپنی آئندہ کی سیاسی کارکردگی میں ضروری احتیاط، نظم و ضبط،سنجیدگی اور شائستگی کے طرز عمل کا مطاہرہ کریں۔ کیونکہ ٹی وی چینلز پر چلتی کاروائی تو بیرونی ممالک میں کسی وقت دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ 

یاد رہے کہ انتخابات میں شکست سے دو چار ہوئے امیدواروں کو اپنی ناکامیوں کے خاتمہ یا درستی کے لئے، متعلقہ اداروں اور عدالتوں سے رجوع کرنے سے ہی مطلوبہ ریلیف حاصل ہو سکتا ہے۔ اس معاملہ میں ملکی نظام،انصاف اور حالیہ آئینی و قانونی ترامیم کے نفاذ سے کوئی جماعت یا طبقہ انکار و انحراف نہیں کر سکتا۔  کیونکہ مذکورہ ترامیم جب تک موجود اور موثر رہیں گی ان کے فوائد و نقصانات کو سب اہل وطن کو تسلیم اور قبول کرنا لازم ہے۔ تاہم 26 ویں آئینی اور قانونی ترامیم کو اگر مجاز اعلیٰ عدالتیں حالیہ چیلنج کی گئی درخواستوں کی سماعت کر کے غیر آئینی، غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیں تو پھر ان فیصلوں پر اپوزیشن کے تحفظات کا کافی حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔ ملکی معیشت کی جلد بہتری اور عوام کی مشکلات کو جلد ختم یا کم کرنے کی ذمہ داری، متعلقہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب اراکین پر عائد ہوتی ہے۔ 

اس لئے انہیں باہمی محاذ آرائی اور تضحیک آمیز نعرہ بازی کے واقعات میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے سے اجتناب کر کے باہمی عزت مفاہمت اور مصالحت کے لب و لہجوں میں فراخ دلی، قوت برداشت سے خوشگوار اور دوستانہ ماحول اختیار کر کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کا جلد مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہو گا خیال رہے کہ جو نمائندے آج کل اپوزیشن میں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ مستقبل قریب یا چند سال بعد حزب اقتدار کی نشستوں پر براجمان ہو جائیں اس لئے انہیں جمہوری اقدار کے تسلسل پر حب الوطنی اور نیت نیت سے قانونی طو رپر درست کار کردگی کا مظاہر ہ کر کے عوام کی خدمت کرنی چاہیے۔ 

مزید :

رائے -کالم -