فلسطین اور عالمی اَمن

فلسطین اور عالمی اَمن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آرمی چیف سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ شہری آبادی، سکولوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور امدادی کارکنوں پر حملے جنگی جرائم ہیں، عالمی برادری اسرائیلی افواج کے مظالم کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اِسے روکنے کے لئے متحرک ہو۔اُنہوں نے یہ گفتگو پاکستان میں تعینات فلسطینی سفیر احمد جواد ربیع سے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ملاقات کے دوران کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی جانوں کے ضیاع پر تعزیت  کے ساتھ ساتھ تشویش کا اظہار بھی کیا۔اُن کا کہنا تھا اسرائیل اپنی خود غرضی اور تنگ نظری کے سبب فلسطینیوں پر ظلم و جبر کر رہا ہے،اسرائیل کے مظالم انسانیت اور شہری اقدار کے منافی ہیں۔  آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کی نظر میں غزہ میں تشدد کی تازہ لہر انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور  ریاستی سرپرستی میں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا نتیجہ ہے، مسئلے کا حل1967ء سے پہلے کی سرحدی بنیاد پر قائم آزاد فلسطینی ریاست ہی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر تاریخی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے، ان کے خلاف یکطرفہ جنگ کے سترہویں روز اسرائیل نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران400 مقامات پر شدید ترین بمباری کی جس کے نتیجے میں 182 بچوں سمیت مزید704 فلسطینی شہید ہو گئے،اِن میں سے56خان یونس کے پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کے نتیجے میں شہید ہوئے۔سات اکتوبر سے اب تک اسرائیلی بربریت کے سبب شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد چھ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔شہداء میں 2360 بچے اور1100 خواتین شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد شہید ہونے والوں کی نسبت کئی گنا ہے۔خطے میں امدادی کاموں میں مصروف ایک کارکن مصطفی برغوتی نے خبردار کیا ہے کہ ایندھن میں قلت کے سبب غزہ کے باقی ماندہ ہسپتالوں میں کام کسی بھی وقت بند ہو سکتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین نے بھی اِسی خدشے کا اظہار کیا ہے۔یاد رہے کہ ایندھن نہ ہونے کے سبب غزہ کے چھ ہسپتال پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب مصر کی سرحد  پر واقع رفع کراسنگ سے امدادی سامان جانے والے سلسلے میں بھی خلل آ گیا ہے اور آخری اطلاعات کے مطابق امدادی سامان  لے کر جانے والے20 ٹرک غزہ میں داخل نہیں ہو سکے۔

غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی ایکشن کے بعد دنیا واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔عرب اور مسلم ممالک اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز تو بلند کر رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ ایسے ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر ہیں جس سے مظلوم نہتے فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم سے امان مل سکے۔دوسری طرف امریکہ اور یورپی ممالک کسی پس و پیش کے بغیر اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے اسرائیل وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اسرائیل اِس جنگ میں اکیلا نہیں،فرانس داعش کے خلاف لڑنے والی جنگ کا رخ حماس کی طرف موڑ سکتا ہے۔فرانسیسی صدر اکیلے نہیں جو اسرائیل کی حمایت کا اعادہ کرنے تل ابیب پہنچے،اِن سے قبل امریکی صدر، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے علاوہ برطانیہ کے وزیراعظم بھی اظہار یکجہتی کے لئے اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔یورپی ممالک تو اسرئیلی کی حمایت میں اِس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ جب پوری دنیا اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہریوں کی شہادت پر نوحہ کناں ہے تو یہ علی الاعلان اِسے اسرائیل کا حق ِ دفاع قرار دے رہے ہیں۔اقوام متحدہ اور اُس کے ذیلی ادارے بھی اِس صورتحال میں بے بس نظر آ رہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی  یا امداد کی فراہمی کے لئے کوئی قرارداد پیش ہوتی ہے توامریکہ اِسے ویٹو کر کے اسرائیل کو ”لائسنس ٹو کِل“ دے دیتا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بہرحال کسی دباؤ کے بغیر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کے سہ ماہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے  اُن کا کہنا تھا کہ فلسطینی 56سال سے حبس زدہ ماحول میں زندہ ہے،حماس کو بنیاد بنا کر فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس کی اجازت دی جانی چاہئے۔ اُنہوں نے کہا کہ غزہ بھیجی جانے والی امداد سمندر میں قطرے کے برابر ہے، فلسطین میں امداد کسی پابندی کے بغیر بھیجی جانی چاہئے۔اُن کا کہنا تھا کہ غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی واضح  خلاف ورزی کی جا رہی ہے،انسانی بنیادوں پر جنگ فوری بند کی جائے۔ انتونیو گوتریس کا واضح موقف اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا،یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اُن سے فوری طور پر مستعفی ہونے مطالبہ کیا ہے۔اسرائیل اقوام متحدہ کو کتنی اہمیت دیتا ہے  اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا سکتا ہے کہ اُس نے غزہ کا دورہ کرنے والے اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری کو غزہ میں داخل ہونے سے روک کر ہدایت کی کہ وہ باقاعدہ ویزہ لے کر آئے۔ مسلم دنیا اِس ساری صورتحال پر پریشان تو ہے لیکن وہ امریکہ اور یورپ کی طرح کوئی واضح پوزیشن نہیں لے پا رہی۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد سلمان نے امریکی صدر جوبائیڈن سے ٹیلیفون پر بات چیت کی، دونوں رہنماؤں نے خطے میں اَمن کے لئے عملی اقدامات پر تفصیلی گفتگو کی۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی روسی صدر سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہر گزرتے لمحے میں شہادتوں اضافہ ہو رہا ہے۔ روسی صدر نے اَمن کی کوششوں میں ترکیہ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے تاہم اِس سب کے باوجود ابھی تک کسی طرف سے بھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آ سکا۔خلیجی ممالک اور یورپ میں بات چیت کے دروازے کھلے ہیں اُمید ہے دونوں فریق جلد کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اِس سارے سفارتی جوڑ توڑ میں ایک،ایک لمحہ غزہ کے بے گناہ فلسطینیوں کے لئے قیامت خیز ثابت ہو رہا ہے،اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے اور نہ پینے کو پانی،ہسپتالوں میں ادویات اور امدادی سامان ختم ہو چکا ہے جبکہ ایندھن کے بحران کا حل نہ نکالا گیا تو حالات بالکل قابو سے باہر ہو جائیں گے۔موت جس تیزی سے فلسطینیوں کی طرف بڑھ رہی ہے، جنگ بندی کی کوشش اُتنی ہی سست رفتار نظر آتی ہے۔اگر کوئی چاہتا ہے کہ فلسطین میں مزید شہادتیں نہ ہوں اور اَمن قائم ہو تو پھر اُسے اپنی سیاسی مصلحتوں اور مفادات سے بالا تر ہو کر اِس کا عملی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ امریکی وائٹ ہاؤس کے ترجمان اپنے تازہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ اِس معاملے پر ایران سے براہِ راست کشیدگی نہیں چاہتے تاہم  اگر ایران نے بین الاقوامی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینیوں کے لئے کچھ ”آؤٹ آف دی باکس“ کرنے کی کوشش کی تو امریکہ اور یورپ سے تصادم کا خدشہ ہے جو عالمی اَمن کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتا ہے۔عالمی برادری کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی میں اُس کا ساتھ دے کر وہ انسانیت کے قتل ِ عام میں حصہ دار بن رہی ہے۔جنگ کے بھی کچھ قواعد ہوتے ہیں،اصول و ضوابط ہوتے ہیں لیکن اسرائیل کھلے عام ان کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔اس کے ساتھ کھڑے ممالک کو اسرائیل کا ”حق ِ دفاع“ تو نظر آ رہا ہے لیکن انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آ رہی۔عالمی اَمن کی خاطر اِس مسئلے کا جلد از جلد حل نکالا جانا چاہئے،فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہئے،اِس وقت ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھاری ہے،ہر ایک فلسطینی کی جان قیمتی ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -