تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 57
پھرلال قلعہ کے ان محلات خاص میں درود کیا جو شہنشاہ کے استعمال میں رہتے تھے اور خود شہنشاہ کی ذات کی طرح آراستہ وپر شکوہ تھے اور جہاں اورنگ زیب کو کھڑے ہونے کی بھی اجازت بہت کم نصیب ہوتی تھی،خود اورنگ زیب گوشہ سلطانی کی تزئین وآرائش دیکھ کر دنگ ہو گیا جس سے زیادہ انسانی تخیل سوچنے سے معذور ہے۔
روشن آرا کے جلو میں بیگمات شاہی مبارکباد کو حاضر ہوئیں۔گرانبار نذریں پیش کیں۔اشرفیوں،زیوروں،وظیفوں اورجاگیروں کے انعام حاصل کئے۔پھر عالمگیر نے روشن آرا کو مخاطب کیا۔
’’بادشاہ بیگم!‘‘
یہ لفظ سنتے ہی سینکڑوں آوازوں نے اس عظیم الشان خطاب پر روشن آرا کو مبارکباد دی۔یہ وہ خطاب تھا جو سالہاسال سے جہاں آرا بیگم کا سرمایہ افتخارتھا۔تہنیت کاشور جاری تھا کہ کنیزیں پیچھے ہٹ گئیں۔
تب عالمگیر نے کہا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’وہ بد نصیب دارالحکومت کے حدود میں داخل ہو چکا ہے۔اس کے مستقبل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟‘‘
روشن آرا بیگم کا چہرہ جیسے چمک اٹھا۔وہ اپنی مسند سے اٹھی۔ایک بار پھر اس مبارک خبر کیلئے مبارکباد دی۔دوسری نذر پیش کی اور مضبوط لہجے میں بولی۔
’’داراشکوہ کے مستقبل کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔جب تک وہ زندہ ہے ظلِ سبحائی سلطنت کی بازیابی کے خواب دیکھتے رہیں گے اور غدار جو آپ کی تلوار کے خوف سے چپ ہیں،سازشیں بننے لگیں گے۔اس لئے جلد از جلد اس بداقبال (دارا) کا قصہ پاک کر دیجئے تاکہ ہمیشہ ہمشہ کیلئے سکون میسر ہو۔‘‘
عالمگیر نے بہن کو ایک لاکھ دینار سرخ اور خلعت بے بہا کا دوسرا انعام دیا شاید اس مشورے سے محظوظ ہو کر۔
خواص پورہ کے ایک محل کے چاروں طرف،عالمگیری لشکر کی دیوارکھڑی ہو گئی۔ڈیوڑھی پر زنبوریں،تفنگوں اور توپوں کا پہرہ قائم ہو گیا۔پھر ایک ہاتھی نظر آیاجس کی پیٹھ پر بند عماری رکھی تھی اور حفاظت پر تین ہزارتلوار یں جلو میں لئے بہادر خاں کو کلتاش مستعد تھا۔ہاتھی کے ملک جیون اپنے بلوچ عزیزوں،دوستوں اور سپاہیوں کے ساتھ مستعد تھا۔پوری احتیاط اورمکمل انتظام کے بعد عماری کھولی گئی اور بہادر خاں کے اشارے پر دارشکوہ نے بیڑیوں سے بوجھل پاؤں سیڑھی پر رکھ دیئے۔
دارا کے سوتی میلے کپڑے پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔چہرہ سیاہ ہو گیا تھا۔آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے تھے۔وہ سرپر سوتی عمامہ باندھے تھا۔اس میں سر پیچ تھا نہ جیغہ نہ کلی۔اس کے جسم پر موٹاخاکستری سوتی کرتا تھا اور اس سے گیا گزرا پا ئجامہ تھا جس کی مہریوں سے بدرنگ چمڑے کی حقیر گرگایباں جھانک رہی تھیں۔کاندھے پر ایک بیخنی رنگ کی موٹی چادر پڑی تھی۔اجاڑ بدہیئت داڑھی تقریبا سفید ہو گئی تھی۔کھچڑی کاکلیں کندھوں پر ڈھیر تھیں۔ہزاروں سپاہیوں کی ٹکٹکی باندھے ہوئی آنکھیں اسے گھور رہی تھیں لیکن وہ نظریں چرائے خاموش کھڑا تھا۔پھر سپہرشکوہ اتار گیا۔بد نصیب شاہزادہ اور دبلااور پیلا ہو گیا تھا۔اس کے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھول دی گئیں۔اس نے اپنے آزاد ہاتھوں سے پہلا کام یہ کیا کہ داراکے قریب جا کر اپنے کثیف کرتے کے دامن کو پنکھے کی طرح ہلانے لگا۔دارانے گوشہ چشم سے مجبور بیٹے کی یہ خدمت دیکھی تو اس کے پشت پر ہاتھ رکھ دیا۔سرکے اشارے سے منع کر دیا۔پھر ایک میلی کچیلی ہتھنی بٹھا دی گئی ۔اس پر نہ ہودج تھی نہ عماری۔صرف کھجور کی چھال کے پتلے پتلے گدے بندھے تھے۔سب سے پہلے دارا کو سوار کرایا گیا۔اس کے آگے سپہرہ شکوہ کو بیٹھا دیاگیا اور پیچھے ایک بلوچ ننگی تلوار لیکربیٹھ گیا۔بہادر خاں کے چھ ہزار سوارچمکتے ہوئے چہار آئینوں میں بندننگی تلواریں علم کئے آگے آگے چل رہے تھے،اس کے بعد دارا کی پستہ قد ہتھنی تھی ۔ اس کے پیچھے چھ ہزار سوار برقنداز تھے جن کی تفنگیں بھری ہوئی تھیں اور اونٹوں پر چڑھی ہوئی زنبوریں تیار تھیں۔
جب شاہ جہاں آبادکے گنجان بازاروں سے داراکی رسوائی کا بدقسمت جلوس گزرا توسڑکیں اورچھتیں اور چبوترے اور دروازے انسانوں سے بھر گئے۔عالمگیر نے دارا کو کوچہ و بازار میں اس لئے پھرایا تھا کہ رعایا اس کا انجام دیکھ لے تاکہ کسی وقت کوئی جعلی داراشکوہ کھڑا ہو تخت و تاج کا دعویٰ نہ کر سکے۔لیکن ہوایہ کہ وہ ولی عہد سلطنت کی غداری کا یہ بھیانک منظر دیکھ کر رعایا بے قرار ہو گئی۔اس قیامت کی آہ وزاری برپا ہوئی تمام شاہجہاں آباد میں کہرام مچ گیا۔اتنے آنسو بہائے گئے کہ اگرجمع کر لئے جاتے تو دارا اپنے ہاتھ سمیت ان میں ڈوب جاتا۔اتنے نالے بلند ہوئے کہ اگر ان کی نوائیں سمیٹ لے جاتیں تو شاہ جہانی توپوں کی آوازوں پر بھاری ہوتیں۔
ملک جیون پر جو ہزاری امراء کا خلعت پہنے آراستہ عرب گھوڑے پر چل رہا تھا۔چھتوں سے گالیوں کی اتنی بوچھاڑ ہوئی کہ وہ نہا گیا۔اتنا کوڑا کرکٹ اس پر پھینکا گیا کہ وہ امیر سے بجائے مسخرا معلوم ہونے لگا۔تیز دھوپ میں جھلستا ہوا دارا ان بازاروں سے گزرتا رہا تھا جن میں اپنے عہدوعروج میں بادشاہوں کی طرح نکلا کرتا تھا۔غم سے پاگل رعایا نے جگہ جگہ اس کی ہتھنی پر ہجوم کیا،اس کے حضور میں غمگین نعرے پیش کئے اورآنسوؤں کی نذر گزاریں۔عالمگیر اور حکومت کو بددعائیں دیں۔ہیبت نامی عہدی نے یہ روح فرسا منظر دیکھا تو حواس پر قابو نہ رکھ سکا اور تھوڑے ساتھیوں کے ساتھ تلوار کھینچ کر دارا کے محافظوں پر ٹوٹ پڑا۔لیکن ہزاروں تلواروں کے سامنے اس کے چند دلاوروں کی کیا بساط ہو سکتی تھی۔تھوڑی دیر میں زخمی ہو کر گرفتار ہو گیا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں