تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 56
بہادر خاں کو کلتاش اور راجہ رام سنگھ جو ذاراکے تعاقب پر مامور تھے۔دو منزل پر مقیم تھے۔جیون کا قاصد دیکھتے ہی عقابوں کی طرح اڑے اور دارا کو اپنے اختیارمیں لے لیا۔مرزا راجہ سامنے نہیں آیا۔سامنے آنے کا متحمل نہ ہو سکا۔کوکلتاش نے قلم دان داراکے سامنے رکھ دیا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ٹھٹھہ کے قلعہ دارا خواجہ سرا بسنت کے نام فرمان لکھے کہ آپ کے حرم اور خزانے کے ساتھ ہمارے حضور میں حاضر ہو جائے ۔‘‘
دارا نے ایک لفظ منہ سے نکالے بغیر لکھ دیا۔پھر ہاتھیوں میں بند عماریاں رکھی گئیں۔دارا شکوہ سے سپہرہ کو الگ بیٹھا یا گیا۔پیروں میں زنجیریں ڈالی گئیں اور چادوں ہاتھی تین تین ہزار سواروں کے ساتھ مختلف راستوں سے شاہجہاں آباد کیلئے روانہ کر دئیے گئے۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
**
خضر آباد میں مقیم عالمگیر کے گوش گزار کیا گیا کہ اکبر آباد سے تخت طاؤس لایا جا چکاہے اور قلعہ شاہ جہاں آباد کا دیوان عام آراستہ کیا جا چکا ہے اور نجومیوں کی بتلائی ہوئی مبارک ساعت کل طلوع ہونے والی ہے۔عالمگیر نے دوسرے دن تخت پر نزول اجلال فرمانے کا اعلان کر دیا۔
مسلم ہندوستان کی پوری تاریخ میں اورنگ زیب کا جشن تاج پوشی اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے بے مثل تھا۔ہر چند کہ شاہ جہاں سب سے شاندار مغل شہنشاہ تھالیکن اس کی تخت نشینی کے وقت تخت طاؤس وجود میں نہ آیا تھا۔لال قلعہ کے بے نظیر مرصع محلات ابھی تعمیر نہ ہوئے تھے جن کے ویران نظارے آج بھی ہمارے ذہنوں مین طلسمی دریچے کھول دیتے ہیں۔
فجر کی نمازکے بعد اورنگ زیب خضر آباد سے برآمد ہوا۔سب سے آگے زیوروں میں گندھے اور قاقم و سنجاب میں ڈوبے ہوئے بوبت کے اونٹ تھے۔ان کی پشت پر رکھے سونے چاندی کے دمامے اور نقارے اور ڈھول گرج رہے تھے۔نفیریاں گا رہی تھیں اور جھانجھیں بج رہی تھیں۔ان کے پیچھے بے شمار جنگی دوہری قطاروں میں آہستہ آہستہ چل رہ تھے ۔وہ زریں عماری اطلسی جھولیں،طلائی گھنٹیاں اور نقرئی زنجیریں پہنے تھے۔ان کی پشت پر شہنشاہ کے ماہی مراتب و طوغ اور اظہار و نشان تھے۔ ان کے بعد وہ منظر نظر گھوڑے تھے۔جن کی رکابیں سونے کی تھیں اور لگا میں مرصع تھیں۔ان کے پیچھے جنگی ہاتھیوں کی قطاریں تھیں جو فولادی پاکھروں میں غرق تھے۔ان کے پیچھے برق اندازوں،تفنگ برداروں اور تیر اندازوں کے گھنے دستے تھے۔ ان کے عقب میں وہ جلیل القدر عالمگیری سپہ سالاراور مرزا اور خاں اور نواب اور سنگھ اور میرا اور راجے تھے جنہوں نے اپنی تلواروں سے اورنگ زیب کی مرضی کے مطابق ہندوستان کی تاریخ بنائی تھی اور اب روئے زمین کے سب سے بڑے فیل خانے کا سب سے شاندار ہاتھی تھا جس کی پشت پر رکھے ہوئے تخت زرنگارپر بلخ سے دکن اور بلوچستان سے آسام تک تما م کشور ہندوستان کا مطلق العنان شہنشاہ محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ غازی پورے جاہ وجلال کے ساتھ متمکن تھا۔
ہر چند ا س کی عمر چالیس سے تجاوز کر چکی تھی تاہم ایشیائی شاہزادوں برخلاف اس کی جفاکش زندگی سے جسم کو تناسب اور کسی قدر دبلا بنائے رکھا تھا۔بیضاوی چہرے پر وہ لمبی کھچڑی داڑھی تھی جس کے سائے میں تما م ہندوستان کے قاضیوں کے مذہبی منصوبوں کے آشیانے تھے۔بے شکن بلند پیشانی پر ٹھنڈی،پتھریلی ،سنجیدہ آنکھیں چمک رہی تھیں جس کی متانت کو نہ دنیا کا کوئی خوف و منظر متاثر کر سکتا تھا اور نہ رحم و کرم کا کوئی جذبہ متزلزل کر سکتا تھا۔اس کے بعد فوج کے مشہور دستے پوری تنظیم کے ساتھ اپنے اپنے امیروں کی رکاب میں حرکت کر رہے تھے۔ہاتھیوں کی پشت سے سونے چاندی کے پھول اور سکے مسلسل برس رہے تھے جس جلوس شاہی کو دیکھنے کیلئے امنڈ آنے والا آدمیوں کا سمندر لوٹ رہاتھا۔وہ شاہ جہاں آباد کے بازارو ں سے گزرتا لاہوری دروازے کے راستے سے قلعہ معلی میں داخل ہو گیا۔
وہ بے مثال سازوسامان جسے تین پشتوں کی شہنشاہی اور دنیا کی سب سے دولت مند سلطنت نے جمع کیا تھا،اظہار میں لایا گیا۔آراستہ دیوان عام کورنش کیلئے کھڑا تھا۔
ستو ن اس زریفت سے منڈھے گئے تھے جس کا تناسوت کا او ر بانا سونے کا تھا۔چھت پوش پر مرصع فانوسوں کے چاندی تارے چمکائے گئے تھے۔دیواروں پر ایران وگجرات کا وہ زریفت پڑاتھا۔جس کی تصویروں میں بادشاہوں کی مشغولیات کی عکاسی کی گئی تھی۔محرابوں میں طلائی زنجیریں جھول رہی تھیں جن میں جواہر نگار چمک رہے تھے۔مرصع گلال بار میں عجائبات عالم میں شمار ہونے والا تخت طاؤس رکھا تھا۔تخت کے سامنے دو بے نظیر شاہی نمگرہ کھڑا تھا جس کے چاروں ستون جواہر سے ہفت رنگ تھے اور جو رسیوں کے موتیوں کی زنجیروں کے سہارے کھڑے تھے اور اس کے فرش پر لعل و جواہر سے بنا ہوا قالین بچھا تھا۔تخت طاؤس سے دونوں طرف گوہر نگار چھتر کھلے ہوئے تھے۔ ان کے نیچے زرخالص کے دو دیوان بنے تھے اور ان پر شہنشاہ کے ہتھیار رکھے تھے۔
دیوان عام کا تمام صحن دل بادل شامیانے کے سائے میں تھا جسے ہزاروں مزدوروں اور درجنوں ہاتھیوں کے کئی دنوں میں کھڑا کیا تھا۔اس کا سرخ زرنگار مخمل گنگا جمنی ستون،شفق رنگ چھت اور صد قالینوں کا فرش دھوپ میں اس طرح چمک رہا تھاکہ آنکھیں خیرہ کئے دے رہا تھا۔
شہنشاہ کے تخت طاؤس پر قدم رکھتے ہی نوبت خانہ شاہی کے سینکڑوں باجے بجنے لگے۔ماہرین فن ساز نوازوں کے دھن چھڑتے ہیں،ثریا پیکر اور ستارہ لباس رقا صاؤں نے تھرکنا شروع کر دیا۔کشور ہند کے قاضی القضاۃ نے ممبرپر کھڑے ہو کر خدا کی حمد اور رسول ؐکی منقبت سے خطبہ کا آغاز کیا۔تخت خلافت پر قدم رکھنے والے ہر نام کے ہونٹوں سے ادا ہوتے ہی ایک خلعت بے بہا کے عطا کئے جانے کا اعلان ہوتا رہا اور جیسے ہی قاضی اعظم نے محی الدین محمد اوررنگ زیب عالمگیر بادشاہی غازی کا نام لیا ،خلعتوں،جواہروں،اشرفیوں اور روپیوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا۔پھر لٹا دیا گیا۔حاضری دربار نے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے کھڑے بڑھا کر تبرکے طور پر جو مل سکا،اٹھا لیا۔پھر زمین بوس ہو کر خلیفہ وقت کے عمرو اقبال کی دعائیں دیں۔حسب مراتب نذر یں گزاریں۔اس وقت جب کہ نامی گرامی امیر نذریں گزار چلے تھے اور خلعت بے بہا انعام پا چکے تھے،میر عدل نے التماس کیا۔
’’با غی شاہزادہ جو گرفتار ہو چکا ہے،عنقریب دارالخلافت میں حاضر ہونے والا ہے۔‘‘
عالمگیر نے ایک ابرو اٹھا کر اس خبر کو سنا مگر کوئی جواب دیئے بغیر اس راجہ کو دیکھنے لگا جو نذر پیش کر رہا تھا۔
دیوان عام میں تین گھڑی جلوس فرما کر شہنشاہ دیوان خاص میں طلوع ہوا جس کی عمارت کے لعل و جواہر جگمگا رہے تھے اور جو سو برس سے جمع کئے جانے والے عجیب و غریب اور نادر ساروسامان سے آراستہ تھا۔تخت پر بیٹھے ہی اس نے دانش مند خاں کو مخاطب کیا۔
’’اس بد بخت کے ساتھ کیاسلوک کیا جائے ؟‘‘
دانش مند خاں شاہ جہانی امراء میں سے ایک تھا اور دکن کی لڑائیوں میں اورنگ زیب کے ہمرکاب کیا گیا تھااور جوا پنی ذہانت کی وجہ سے اورنگ زیب کا مقرب ہو گیا تھا۔خانہ جنگی کے زمانے میں پردے کے پیچھے رہ کر کڑے وقت میں اورنگ زیب کی رہبری کر چکا تھا اور اپنی دوراندیش اور دانش مندی کیلئے مشہور تھا اس لئے شاہ جہاں کی سرکار سے دانش مند کا خطاب حاصل کر چکاتھا۔ہر چند کہ خان داراشکوہ کو پسند نہیں کر تا تھا لیکن بلاتامل ملتمس ہوا۔
’’اب خدائے بزرگ و برتر نے خلیفہ وقت کو تخت طاؤس آرائی کا شرف عطا کر دیا ہے ،دشمن پا مال ہو چکے اور کشور قدم مبارک کے نیچے ہے۔ظلِ الٰہی کی چشم پوشی کا تقاضاہے کہ بداقبال شاہزادے کی جان سے درگزر کیا جائے اور گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا جائے۔‘‘
اورنگ زیب خان کا یہ جواب سن کر چپ ہو گیالیکن اس سے پتھریلے چہرے کے خطوط اورسخت ہو گئے۔چشم وابرو کی ہر جنبش کے راز دارامیر تکدار سے واقف ہو گئے۔غدار اور چالاک وزیر الملک نواب اللہ خاں نے ہاتھ باندھ کر گزارش کی۔
’’غلام کی ناچیز رائے میں شاہزادے کو زندہ رکھنا آئین سیاست کے خلاف ہے۔ہزاروں میل میں پھیلے ہوئے اس ملک میں جب کوئی فتنہ سر اٹھائے گاتو اس کی سازشی کمندیں گوالیار کے قعلہ کاشکار کھیلنے کی جسارت کریں گی اور شاہزادے کو نشان کا ہاتھی بناکر اپنی خواہشات کی تکمیل کاخواب دیکھیں گی‘‘
عالمگیرکے گوہر عمامے کی کلغی لرز گئی اور چہرے پر بشاشت دوڑ گئی۔نواب شائستہ خاں دست بستہ حاضر تھا ۔نواب اس خاندان کا چشم وچراغ تھا جس کو یہ شرف حاصل تھا کہ اس آفتابوں نے یکے بعد دیگرے دوشہنشاہوں کے دلوں پر حکومت کی ہے۔اعتماد الدولہ اور آصف خاں کے وارث نے لقمہ دیا۔
’’بندہ درگاہ کی ناچیز رائے میں فتنہ کا سر کچلنے کے بجائے اس کو پیدا ہونے سے روک دینا عین دانش مندی ہے۔‘‘
عالمگیر نے متانت سے اسے’’صائب‘‘رائے کو سنا اور دربار برخاست کئے جانے کا اشارہ کیا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں