تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 55

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 55
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 55

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند روز بعد جہاں آرانے مجبور ہو کر قلعہ حوالے کر دیا۔شاہزادہ محمد سلطان قلعہ میں داخل ہو گیا۔خزانوں اور کارخانوں پر قبضہ کر لیا۔اکبر آباد سے فرصت پاکر اورنگ زیب شاہ جہاں آباد کیلئے سوار ہوا۔شاہزادہ مراد جو تاج پہنتا تھا اور تخت پر بیٹھا تھا اور اپنے خواصوں کے مشورے پر ایک منزل کے فاصلے سے کوچ و مقام کرتاتھا، ایک دن دعوت میں مدعوکیا گیا۔ہر چند کہ جانثاروں نے اسے سمجھایاکہ اورنگ زیب نے فتح کے بعد ساموگڑھ میں دارا شکوہ کی بارگاہ آپ کو دینے کے بجائے خود استعمال کی۔ظلِ سبحانی سے نامہ و پیام اپنی ذات تک محدور و مخصوص رکھا ۔قلعہ معلی اپنے بیٹے کے اختیار میں دے دیا۔بادشاہ بیگم سے آپ کی ملاقات کا انتظام نہ ہونے دیا۔داراشکوہ کا بے نظیر محل اپنے عمل میں رکھا۔اس صورت میں آپ کو اپنے لشکر سے جدانہ ہونا چاہئے لیکن مراد اور نگ زیب کا شکار گاہ کا ایک معصوم چرندہ ثابت ہوا۔چند جانثاروں کے ساتھ دعوت میں شریک ہوا۔شراب پی کر آرام کرنے لگا۔ابھی آنکھ جھپکی تھی کہ تقدیر سو گئی۔شیخ میر نے پیروں میں زنجیریں ڈال دیں۔چار ہاتھیوں پر بند عماریاں رکھی گئیں۔پر عماری پر چار ہزار سوار متعین کئے گئے اور چاروں ہاتھی مختلف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔انہیں میں سے ایک میں مرادسوار تھا،قید تھا اور گوالیار پہنچا دیا گیا اور جب پوست کا پانی اس کے بے پناہ جسم پر اثر نہ کر سکا تو ایک فرضی مقدمہ قائم کیا اور گردن اڑا دی گئی۔اورنگ زیب نے مرزا راجہ سنگھ ااور داؤد خاں روہیلہ کو فرامین لکھے کہ سلطان سلیمان کا ساتھ چھوڑ کر حضور میں حا ضر ہو جائیں ورنہ ان کی آل اولاد سے آباد شہروں او ر قلعوں کو زمین کے برابر کر دیا جائے گا۔جس نے ظلِ الہیٰ کو مغرول کر دیاہو۔داراشکوہ سے اکبر آباد اور شاہ جہاں آباد کو خالی کردیا جائے گا۔اس کے فرمان کے آگے سر نہ جھکانا ہندوستان میں کسی امیر سے ممکن نہ تھا۔داراشکوہ کو پنجاب کی طرف دھکیل کر اس نے شجاع کا رخ کیا۔کھجوہ کی ایک لڑائی لڑ کر شاہزادے کو آسام میں گمنام موت مر جانے پر مجبور کر دیا۔اچانک پتہ چلا کہ داراشکوہ اجمیر کی طرف حرکت کر رہا ہے اور زبردست لشکر کے ساتھ اجمیر پر چڑھ آیا۔اکبر آباد،لاہور،گجرات اور اجمیر،جہاں جہاں سے وہ گزرابداقبالی سائے کی طرح لگی رہی۔اورنگ زیب کی تلواروں کا تعاقب نقش پاکی طرح پیچھے لگا رہا۔جب دار اشکوہ داور پہنچا تو اشرفیوں کے اونٹ اور جواہرات کے صندوق لٹ چکے تھے۔توشہ خانہ برباد ہو چکا تھا۔اب دارا شکوہ تخت سے مایوس ہو چکا تھا۔

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان سلیمان کی ہزیمتوں کی خبروں پر کہ وہ کشمیر کی پہاڑیوں میں بے یارومددگار ٹھوکریں کھا رہا ہے ۔رو چکا تھا لیکن زندہ تھا۔داور میں جیسے تقدیر نے یہ روشنی بھی گل کر دی۔نادرہ بیگم جو شاید مغل تاریخ کے عہد زریں کی سب سے بدنصیب بیگم تھی۔اس کا لڑکپن سلطان خسرو کی دردناک موت پر روتے گزر ا تھااور اب چھتیس برس کی عمر میں اس سے بڑے اورلاڈلے بیٹے سلیمان کی بھیانک گمشدگی پر خون رو رہی تھی اور اب اجمیر کی شکست کے بعد دارا شکوہ کے مستقبل سے مایوس ہو چکی تھی اور ہر گھڑی اپنی زندگی کی سب سے بھیانک خبر سننے کے اندیشے سے بے قراری رہتی تھی۔ایک رات انگشتری کے نگینے کے نیچے رکھا ہوا زہر کھا کر سو رہیں اور دارا کی کمر جو چوالیس بر س کی عمر ہی ٹوٹ گئی تھی،ٹوٹ گئی۔اس نے آنسو خشک کئے کہ اب صرف روتے رہنے کے علاوہ زندگی میں کچھ رکھا نہیں تھا۔اور ان سواروں کو طلب کیا جو ہتھیلی پر جانیں رکھے سپر کے ماننداس پر سایہ کئے ہوئے تھے۔
سات خواجہ سراؤں کو روک کر سبھوں کو حکم دیاکہ بیگم کے جنازے کے ساتھ لاہور جائیں اور حضرت شیخ میر کے مقبرے میں دفن کردیں۔پھر ایک قاصد کے ذریعہ داور کے زمین دار ملک جیون کو یاد کیا۔جیون وہ شخص تھا جو کسی سنگین جرم میں ماخوذ ہو ا تھا اورشاہ جہاں نے اس ہاتھی کے پیروں کے نیچے ڈال دینے کا حکم صادر کیا تھا لیکن دارا نے کسی خدمت گزاری کی سفارش پر ا س کی جان بخشی کا پروانہ حاصل کرلیا تھا۔وہی ملک جیون داور کا زمیندار تھا۔دارا کی آمد کی خبر سن کر اپنی گڑھی سے دوکوس دور تک پا پیادہ پیشوائی کو حاضر ہوا۔دارا کے گھوڑے کا تین بار طواف کیا ،رکاب کو بوسہ دیا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔
’’غلام کی آل اولاد صاحب عالم کے گھوڑوں نچھاور ہونے کو حاضر ہے۔‘‘
دارا نے جس کی آنکھیں بیگم کی موت کے بعد سے اکثر پر نم رہتی تھیں۔آنسوؤں سے دھندلی نگاہیں اٹھا کر دیکھا اور احسان سے گر انبار آواز میں بولا۔
’’اگر جنت آشیانی ہمایوں کی طرح ہمارے ساتھ بھی تقدیر نے یاوری کی تو ہم خود تمہاری دفا کا انعام دیں گے ورنہ خدائے بزرگ و برتر اس کا اجر دے گا۔‘‘
’’ملک ایران یہاں سے کتنی دور ہے؟‘‘
’’ایران؟صاحب عالم ان پہاڑیوں کے قدموں سے ایران شروع ہو جاتاہے۔
قندھار یہاں سے صرف منزل ہے۔‘‘
’’ہماری خواہش ہے کہ ایک رات تمہارے ساتھ بسر کر لیں اور صبح ہوتے ہی تمہاری رہبری میں ایران کیلئے سوار ہو جائیں۔‘‘
’’غلام دنیا کے اس کونے بھی صاحب عالم کے ہمر کاب رہنے کو حاضر ہیں لیکن ذرے کو مہمان نوازی کا شرف عطا کیا جائیگا۔‘‘
دارا خاموش ہو گیا اور پھر سوچ کو گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔سپہر شکوہ چودہ برس کا شاہزادہ سات خواجہ سراؤں کے ساتھ پیچھے پیچھے آرہا تھا۔
تین دن کی مہمان نوازی کے بعد دارا سوار ہو گیا۔فیروز میواتی کے پیش کئے ہوئے نوگھوڑوں پر یہ مختصر سا شاہی قافلہ خوشگوار دھوپ میں جگمگاتے جنگلی پھولوں کے درمیان لہراتی ہوئی پگڈنڈیوں پر گزر رہا تھا۔ملک جیون آگے آگے رہبری کر رہا تھا۔دارا سواری کے پیچھے بیاس کے پچاس مسلح سوارچل رہے تھے ۔ابھی وہ داور سے دو میل نکلے تھے کہ سواروں نے دفعتہ گھوڑے چمکا کر داراکے گرد حلقہ ڈال دیا۔دارا سر جھکا ئے اپنے زخمی خوابوں میں ڈوبا چلا جا رہا تھا،اس حرکت پر چونک پڑا۔نگاہ اٹھائی تو جیون گھوڑا پھیرے کھڑا تھا۔ہاتھ میں تلوار علم تھی۔دارا کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’’جیون،تم؟‘‘
’’صاحب عالم تلوار رکھ دیں۔‘‘
کئی وحشی بلو چیوں نے ایک ساتھ دارا کی تلوار پر ہاتھ ڈال دیا۔سپہر شکوہ جو ایک لمحہ کیلئے اس حادثہ پر چکرا گیا تھا۔دارا کی ایک تلوار پر ہاتھ پڑتے دیکھ کر تڑپ گیا اور اپنی چھوٹی سی تلوار کھینچ کر حملہ کردیا لیکن بکتر پوشوں پر اس کی نا آزمودہ کا رتلوار کا کیا اثر ہوتا۔چند لمحوں میں اسے قابو میں کر لیا گیا۔جب ملک جیون کے آدمی سپہرہ شکوہ کے ہاتھ رسیوں سے باندھنے لگے تو دارا چیخ پڑا۔
’’غدار،گستاخ،بے ادب،یادرکھ سپہرہ شکوہ ایک بلند اقبال باپ کا بیٹا ہی نہیں،شاہجہاں کا پوتا اور عالمگیر کا بھتیجا بھی ہے۔آل تیمور پر اٹھنے والے ہاتھ ایک نہ ایک دن قلم ہو کر رہیں گے۔‘‘
لیکن ملک جیون اورنگ زیب عالمگیر سے ساز باز کر چکا تھا۔دارا کی مجبور آنکھوں کے سامنے اس کا بچا کھچا سامان لوٹ لیا گیا۔اس کے بعد سپہرہ شکوہ کے جواہرات تک اتارلئے گئے۔(جاری ہے )

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں