تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... آخری قسط
دارا دیر تک لال قلعہ کے سامنے کھڑا رکھا گیا۔اس وقت ایک فقیر ہاتھ باندھے ہوئے سامنے آیا۔آنسوؤں سے بوجھل آواز میں گزارش کی۔
’’سلطان!کل جب دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا تو اکیلا وارث تھا اور ولی عہدسلطنت تھا اور مہین پور خلافت تھا اور ام البلاد شاہ جہاں آباد تیرے ناچیز غلاموں کی سوای کے خدم و چشم سے دہل جاتا تھا،میں تجھ سے سوال کرتا ہوں،صرف تجھ سے،اورتو میرا دامن مرادسے بھر دیا کرتا تھا اور میں تیری رحمت و سخاوت کی امید پر اپنے لعل و گوہر کنکروں،پتھروں کی طرح لٹا دیا کرتا تھا۔لیکن جب تیرے آفتاب غروب ہو گیا تو لاکھوں بدنصیبوں کی طرح میرا بھی آرام رخصت ہو گیا۔اب آج تیرا دیدارنصیب ہوا تو اس حال میں کہ اگر پہاڑ دیکھ لے تو غم سے پانی ہو کر بیٹھ جائے،دریا دیکھ لے تو خشک ہو جائے،باغ دیکھ لو اجڑ جائے۔سلطان اب میں تجھ سے کیا مانگوں؟تو مجھے کیا دے سکتاہے۔؟‘‘اور اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر سسکیاں بھرنے لگا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دارا نے پوری کوچہ گردی میں پہلی بار نگاہ اٹھائی۔آنسوؤں سے دھندلی نگاہ اٹھائی اس شوکت وحشمت کے ساتھ جو صرف مغلوں کیلئے آسمان سے اتاری گئی تھی۔ہفتوں کے بعد کسی کو مخاطب کیا۔
’’وقت جو کسی کا غلام نہیں ہوتا،لیکن جس کے سب غلام ہوتے ہیں، ہمارا جو عالم کردیا ہے، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ تاہم تو خالی ہاتھ نہیں جاسکتا۔‘‘
اپنے اوپر نظر کی تو چند کیشف کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ کاندھوں سے سوتی میلا کھردرا چادر اُتا رکر اس کی طرف پھینکا۔ فقیر نے وہ چادر زمین سے اُٹھائی، آنکھوں سے لگائی، سر پر رکھی اور ایک چیخ مار کر ایک طرف کو چلا لیکن کوکلتاش کی آواز بلند ہوئی۔
’’قیدی کسی کو بھیک نہیں دے سکتا۔‘‘
دارا نے بہادر خاں کو کلتاش کو حیرت سے دیکھا۔ گویا پوچھ رہا ہو کہ دارا شکوہ کسی کو بھیک نہیں دے سکتا۔ چند سواروں نے جھپٹ کر فقیر کو جالیا اور اس سے چادر چھیننے لگے لیکن فقین جان دینے پر تلا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کی چھینا جھپٹی کے بعد وہ قابو میں لایا گیا۔ اس کی تار تار کفنی سے جھانکتی ہوئی چاندی سی جلد اس کے ہاتھوں اور چہرے سے مختلف پائی گئی۔ چہرے پر برملا ہوا بھبھوت چھڑایا گیا تو دارا چونک پڑا۔ سامنے لالہ کھڑی تھی، لالہ، بلخ کی لالہ، قندھار کی لالہ، چنبل کی لالہ اور دارا کے سامنے وہ زنجیروں میں جکڑی جارہی تھی۔ چاروں طرف سے چڑھ آنے والے اسلامی ہجوم پر سوار گھوڑے دوڑارہے تھے۔
پھر بہادر خاں کو کلتاش اپنے قیدی کو مانگ کر خواص پورہ کے محل میں لے گیا۔ پھاٹکوں، برجوں اور فیصلوں پر توپین چڑھا کر معتبر امیروں کے رکاب میں بھاری پہرہ کھڑا کر دیا۔ عالمگیر جو ہیبت کی جسارت کی خبر سن کر غضب ناک ہوگیا تھا، پہلا حکم یہ دیا کہ ہیبت کو اور اس کے ساتھیوں کو نصف زمین پر گڑھ کر شکاری کتے چھوڑ دئیے جائیں اور دوسرا حکم یہ نافذ کیا کہ دارا شکوہ کا سر اتار کر پیش کیا جائے۔
دوسرے حکم پر غلاموں، چیلوں، سیادلوں اور خواجہ سراؤں کی صفوں میں سناٹا ہوگیا۔ اس خطرناک اور دردناک خدمت کے خیال ہی سے دل کانپ گئے۔ دارا کے قتل کا گناہ اپنے ہاتھوں انجام دینا کوئی ایسامشکل کام نہ تھا لیکن عالمگیر کے مقربین یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ دارا کی موت کا حکم صادرکرنے والا شہنشاہ دارا کی موت کے بعد ہر اس شخص سے انتقام لے گا جس کے دامن پر دارا کے خون کے دھبے نظر آئیں گے۔ یہ انداز غلط بھی نہیں تھا۔ خانخاناں نجابت خاں، امیر الا مراء نواب خلیل اللہ خاں، میر آتش برق انداز خاں اور راجہ چمپت رائے بندیلہ وغیرہ تمام غداروں سے چند برسوں کے اندر اورنگزیب نے انتقام لیا۔ خود ملک جیون امارت کے منصب پر پہنچ کر اپنے وطن کی صورت نہ دیکھ سکا۔ داور کے قریب خفیہ احکامات کے ذریعے اسے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ جیون کی لاش ملی لیکن اس کے دونوں ہاتھ، سپہرہ شکوہ کو باندھنے والے ہاتھ، بازو سے قلم تھے۔ دارا کو قتل کرنے والوں کے سرچند ہی ہفتوں میں قلم کرالئے گئے۔
عالمگیر نے گوشۂ چشم سے ایک ایک چہرے کودیکھا لیکن حکم کی تعمیل کے خیال سے خوفزدہ چہروں کو دیکھ کر مکدر ہوگیا۔ پھر صف بستہ غلاموں کی صف سے ایک غلام نذر بیگ نے آگے نکل کر سات سلام کئے اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا ۔
’’جہاں پناہ اگر اس بندہ درگاہ کو حکم دیں تو ابھی سرحاضر کردوں۔‘‘
شہنشاہ نے سیف خاں کی طرف نگاہ کی۔
’’اس مہم کی سربراہی تمہارے سپرد ہوئی۔‘‘
سیف خاں نے تلطفِ شاہی کی شکرگزاری میں سرجھکادیا۔
پھر قاضی القصناۃ کی طلبی ہوئی۔ سیاسی قتل کو مذہبی احکام کی پابندی کا اعتبار بخشا گیا۔ یعنی دارا کے قتل کا فتویٰ لے لیا گیا۔ اس وقت بہادر خاں کا پیش خانہ قطب میں لگادیا گیا۔ چار چنڈول تیار کرکے خواص پورہ کے محل کے سامنے کھڑے کردئیے گئے۔ ہزار ہا سوار لشکر گاہ سے نکل کر قطب کی طرف حرکت کرنے لگے۔ گویا دارا شکوہ بہادر خاں کی حراست میں قید ہونے کے لئے گوالیار جانے والاہے۔
خواص پور کا محل فوجی مرکز بنا ہوا تھا۔ اندرونی درجے کے سرخ سنگین دالان میں لکڑی کے شمع دان کھڑے تھے۔ بدبودار موم کی بدوضع شمعیں جل رہی تھیں۔ چولہے پر تانبے کی پتیلی چڑھی تھی اوربرسات کی گیلی لکڑیوں کے سلگنے سے تمام دالان دھویں سے بھرا ہوا تھا۔ دھویں کی سیاہی اور شمع کی پیلی روشنی میں ایک لڑکے کا چہرہ روشن تھا۔ میلی سوتی آستینوں سے نکلے ہوئے چمکیلے ہاتھوں میں تانبے کی رکابی لکڑیاں جلانے کے لئے ہل رہی تھی۔ یہ سپہرہ شکوہ تھا، داراکا بیٹا اور شاہ جہاں کا پوتا تھا اور جو عالمگیر کا داماد بھی ہوا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اورپتیلی میں مسور کی دال پک رہی تھی۔ مسور کی دال زہر کو ظاہر کردیتی ہے۔ اس لئے قرون وسطیٰ میں سیاسی قیدیوں کی واحد غذا بن گئی تھی۔
تھوڑی دور کے فاصلے پر کھجور کی چٹائی پر دارا شکوہ دو زانوں بیٹھا تھا۔ اس کے قریب ہی لگن میں تھوڑا سا آٹا رکھا تھا جسے وہ گوندھنا چاہتا تھا لیکن سپہرہ شکوہ گوندھنے نہ دیتا تھا۔ چٹائی کے برابر بان کا پلنگ بچھا ہوا تھا۔ اس پر دری پڑی تھی اور تکیہ رکھا تھا اور صحن میں آسمان کے آنسو ٹپک رہے تھے۔ پانی برس رہا تھا۔ پھر پشت کے کمروں میں قدموں کی چاپ ہوئی۔ سپہر شکوہ نے ہاتھ کی رکابی پتیلی پر رکھی اور اچھل کر دارا کے پہلو سے لگ کر دو زانوں بیٹھ گیا۔ وہ لوگ اندر آچکے تھے۔ ان کے کپڑے دارا کی سیہ بختی سے زیادہ سیاہ تھے۔ پگڑیوں کے سیاہ شملے ان کے چہروں کو چھپائے ہوئے تھے اور جلادوں کی سی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ وہ تعداد میں ساتھ تھے اور خوف ناک بھوتوں کی طرح دارا کو گھیر چکے تھے۔ پھر نذر بیگ نے سپہر شکوہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ داراجو ان کی خونی آنکھوں میں اپنے قتل کا منصوبہ پڑھ چکا تھا، تڑپ کر بولا۔
’’کیا ہے؟ اور تم اس سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’شہنشاہ کا حکم ہے کہ اس کو آپ سے جدا کردیا جائے۔ (یعنی یہ آپ کے ذبح ہونے کا منظر نہ دیکھ سکے)۔
’’اپنے شہنشاہ سے کہو کہ ہماری سلطنت میں سے یہی ایک لڑکا ہمارے پاس رہ گیا ہے، اس کو ہم سے جدا نہ کریں۔‘‘
’’ہم کسی کے نوکر نہیں ہیں جو پیغامات لے جاتے پھریں۔‘‘
نذر بیگ نے بڑی ترشی سے کا اور سپہر شکوہ کا بازو پکڑ کر کھینچ لیا۔ سپہر شکوہ نے دونوں ہاتھ دارا کی کمر میں ڈال دئیے اور بڑی زور سے چیخ ماری جس کے درد سے خواص پور کا تاریخی محل کانپ اُٹھا۔ کمزور مغموم دارا نے معاملہ ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو بھاری بدن کے باوجود پھرتی سے اُٹھا لیکن اتنی دیر میں سپہر شکوہ کو دو آدمی اُٹھا کر کمرے میں گھس چکے تھے اور ان کے بند منہ سے گھٹی گھٹی سی آوازیں آرہی تھیں۔ دارا نے چیتے کی طرح جھپٹ کر پلنگ سے تکیہ اٹھایا اور ترکاری کاٹنے والی چھری نوچ لی جو برے وقت میں کام آنے کے لئے چھپا رکھی تھی لیکن اس کا بائیں پہلو پر تلوار کا وار ہوچکا تھا۔ اس نے لپک کر بشر خاں پر کند چھری سے ایسا کاری حملہ کیا کہ چھری ہڈیوں میں پیوست ہوگئی اور دارا کی کوشش کے باوجود نکالی نہ جاسکی۔ چھری سینے میں پیوست چھوڑ کر دارا نے گھونسوں اور لاتوں سے حملہ کردیا لیکن پیشہ ور قاتلوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کے زمین پر گرتے ہی نذر بیگ نے ذبح کردیا۔ نذر بیگ اپنی وفاداری کا خانی پروانہ لے کر لال قلعہ پہنچا۔
اسی وقت سرکو صاف کرکے سونے کے چشت میں رکھ کر اورنگزیب کے حضور میں پیش کیا گیا۔ اورنگزیب نے حقارت سے نگاہ ڈالی۔ بائیں ابرو کے پاس زخم کے نشان کو دیکھ کر اطمینان کیا اور نفرت سے بولا۔
’’بدبخت! ہم نے تو زندگی ہی میں ہی تجھ پر نگاہ نہ کی، اب تجھے کیا دیکھیں گے؟‘‘
لاہوری دروازے پر دھڑلٹکادیا گیا اور چاندنی چوک کے چوراہے پر سر آویزاں کر دیا گیا۔ تین دن کے بعد دارا کی میت کو غسل و کفن دئیے بغیر، نماز جنازہ ادا کئے بغیر ہمایوں کے مقبرہ میں دفن کردیا گیا۔ اسی مقبرہ کے سائے میں دو سو برس بعد عالمگیر کا ایک جانشین، ایک پوتابہادر شاہ ظفر امان کی بھیک مانگنے آیا۔ اسی مقبرہ کی فیصلوں کے نیچے عالمگیر کے چشم و چراغ مرزا مغل، مرزا قریش سلطان اور مرزا ابوبخت کو سمندر پار سے آئے ہوئے ایک ’’نذر بیگ‘‘ نے بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔
اس مقبرہ کی گود میں صرف ایک ایسا شہنشاہ آرام فرما نہیں جس کی اولاد نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک سنہری جلد کا اضافہ کیا بلکہ وہ دارا شکوہ بھی سورہا ہے جو ایک ’’تہذیب‘‘ ایک ’’تمدن‘‘ ایک ’’کلچر‘‘ کو زندہ کرنے اُٹھا تھا لیکن تقدیر نے اس کے ہاتھ سے قلم چھین لیا اور تاریخ نے اس کے اوراق پر سیاہی پھیردی۔ختم شد