افسری اور ریٹائرمنٹ

ریٹائرمنٹ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر سرکاری ملازم نظریں چراتا ہے، ہمارے ایک استاد بشیر احمد ملک کہا کرتے تھے موت کے دن کا تو پتہ نہیں ہوتا البتہ ریٹائرمنٹ کا دن ملازمت میں آتے ہی پتہ چل جاتا ہے، مگر اِس کے باوجود سرکاری ملازمین خاص طور پر بڑے افسر اُسے سامنے رکھ کر منصوبہ بندی نہیں کرتے۔وہ کہا کرتے تھے سدا نہ باغیں بلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں۔ سرکاری ملازمت کا عرصہ 30 یا35 سال پر محیط ہوتا ہے، باقی عمر تو اس کے بغیر ہی گذارنا پڑتی ہے جو افسری کے خمار میں مبتلا ہو جاتے ہیں،اُس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں رکھتے،انہیں جب وقت کا تھپیڑا ریٹائرمنٹ کے دن پر لاکھڑا کرتا ہے تو وہ خود کو اُس بے خانماں خانہ بدوش کی طرح سمجھتے ہیں جسے عارضی جھونپڑی سے بھی بے دخل کر دیا گیا ہو۔ایک بار دوستوں کی محفل میں یہ نکتہ زیر بحث تھا کہ اکثر بیورو کریٹس ریٹائرمنٹ کے ایک دو سال بعد دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، حالانکہ وہ ملازمت کے آخری دن تک اچھے بھلے اور صحت مند ہوتے ہیں، اِس پر کچھ دوست یہ دور کی کوڑی لائے کہ جو سرکاری افسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کا پلان نہیں بناتے،اس حقیقت کے لئے خود کو تیار نہیں کرتے کہ اس کروفر نے ایک خاص مدت کے بعد ختم ہو جانا ہے،پھر ایک حقیقی دنیا میں زندگی عام پاکستانی کی طرح بغیر پروٹوکول اور بغیر سرکاری سہولتوں کے گزارنی ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ایک ایسی فضاء میں آ جاتے ہیں جہاں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے جہاں سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔مجھے ایک ریٹائر بیورو کریٹ نے بتایا ہماری سروس کا سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ اس میں پوسٹنگ ملنے تک انسان ہوا میں اُڑتا محسوس کرتا ہے،جب ریٹائر ہو جاتا ہے تو اس کے پاس زمین پر پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔اُن کا کہنا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد وہی افسر ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں جنہوں نے نہ صرف خود بلکہ اپنی فیملی کو بھی یہ باور کرایا ہوتا ہے کہ سرکار کی طرف سے ملنے والی یہ مصنوعی زندگی عارضی ہے،اسے بالآخر ختم ہو جانا ہے۔ یہ نوکر چاکر، یہ گاڑیاں، یہ بڑے بڑے بنگلے، یہ وسائل کی فراوانی، یہ سیلوٹ، یہ پروٹوکول ایک دن ہوا ہو جانا ہے۔ اس کا اتنا عادی نہ بنو کہ اس کے بغیر تمہارا دم گھٹ جائے اور تم خود کو ایک فالتو بے کار پرزہ سمجھو، اکثریت چونکہ ایسے ہی افسروں کی ہوتی ہے،اِس لئے ریٹائرمنٹ اُن کے لئے زنزلہ بن کر آتی ہے۔ برداشت کر جائیں تو زندہ رہتے ہیں،نہ کر سکیں تو راہی ئ ملک ِ عدم ہوتے ہیں جہاں نہ پروٹوکول کا جھنجھٹ ہوتا ہے اور نہ یہ خیال کہ پہلے لوگ میری بہت عزت کرتے تھے، میرے آتے ہی ہر طرف ہلچل مچ جاتی تھی، سلام کرنے والے ٹوٹے پڑتے تھے، اب کوئی ایک بھی نہیں آتا بلکہ جاننے والے بھی دیکھ کر راہ بدل لیتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ہیں جو لیکچرار تھے، پھر سی ایس ایس کر کے افسر بن گئے۔ کل ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی،جاوید اختر محمود اس وقت سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور بیت المال پنجاب ہیں۔اُن سے باتوں باتوں میں ریٹائرمنٹ کا ذکر آیا تو انہوں نے بہت پتے کی باتیں کیں۔اُن کا کہنا تھا،میں نے اپنے اہل خانہ کو کہہ رکھا ہے، جو سہولتیں تمہیں ملی ہوئی ہیں یہ عارضی ہیں، ہر سرکاری ملازم نے ایک مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہونا ہے، جن گاڑیوں میں تم بیٹھے ہو، جو سرکاری رہائش گاہ ملی ہوئی ہے، جو ملازمین تمہارے آگے پیچھے پھرتے ہیں، یہ سب اُس دن غائب ہو جائیں گے،جب ریٹائرمنٹ ہو گی۔ اگر ہم ایسی سہولتوں اور ایسی شاہانہ زندگی کو اپنی کمزوری بنا لیتے ہیں، جسے برقرار رکھنے کے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے پاس وسائل نہ ہوں تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہو گی اس لئے سرکاری مراعات اور سہولتوں کو ایک عارضی شے سمجھ کے استعمال کرو اور خود کو اُن لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کے لئے تیار رکھو، جنہیں سرکاری سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں اور وہ زندگی بھر زندہ رہنے کے لئے اپنے وسائل آپ پیدا کرتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا آپ کے خیالات بہت مختلف ہیں کتنے افسر ایسے سوچتے ہوں گے جیسے آپ سوچتے ہیں انہوں نے کہا جو ایماندار افسر ہیں وہ کبھی اِس بات کو نہیں بھولتے،کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے یہ کروفر عارضی ہے۔ ایسے افسروں کی کمی نہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایک مطمئن اور آسودہ زندگی بھی گزارتے ہیں،گزار بھی رہے ہیں اُن کا کہنا تھا ہر سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ کی حقیقت سامنے رکھ کر زندگی کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے جو افسر نہیں کرتے اور بھول جاتے ہیں یہ سب ختم ہو جانا ہے،انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ایڈجسٹ ہونے میں بہت مشکل پیش آتی ہے، بچت کر کے اپنے لئے وسائل اکٹھے کرنا چاہئیں، پیسے ہوں تو کہیں مضافات میں چھوٹا موٹا پلاٹ خرید لینا چاہئے تاکہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک بڑا مالی سہارا بن جائے،سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر افسر اسی حقیقت کو سامنے رکھے جو وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہے وہ بعد میں ہر گز نہیں ہو سکتا،ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن آتے ہی سارا منظر بدل جائے گا۔
مجھے ایسے کئی افسروں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جو اپنے زمانے میں بہت دبنگ اور مشہور افسر ہوتے تھے،اُن سے ملنا مشکل ہوتا تھا انہوں نے اپنے دفاتر کو پروٹوکول وائرس اور خوف کی علامت بنا رکھا تھا،جب وہ داخل ہوتے تو ہٹو بچو کی ایسی فضاء طاری ہو جاتی ہے کہ جیسے ملک کا سربراہ آ گیا ہو،لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انہی افسروں کو اپنے انہیں دفاتر میں پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں کی حالت میں دیکھا۔ ایک بار تو سی پی او آفس میں ایک ایسا منظر بھی دیکھا گیا کہ اپنے زمانے کے سخت گیر اور ناخدائی صفات رکھنے والے ایک پولیس افسر کو دروازے پر کھڑے سنتری نے روک لیا۔ وہ اونچی آواز میں چلانے لگے، تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ مگر اُن کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی، سنتری نے یہی کہا کہ صاحب نے منع کر رکھا ہے کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہ دی جائے،بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سرکاری افسر اپنی ملازمت میں اتنا کما لیتے ہیں کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی پریشانی نہیں ہوتی،ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ بات صرف مالی پریشانی کی نہیں،اُس مصنوعی چکا چوند اور پروٹوکول کی ہو رہی ہے جو سرکاری ملازمت میں ملتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دوسرے کے پاس آ کر کچوکے لگاتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے، مگر افسر دوران ملازمت کبھی اسے یاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
٭٭٭٭٭