کاروبار کو کاروبار سمجھ کر ہی چلایا جائے ورنہ یہ برباد کر دے گا،جب بھی موقع ملے مستحق افراد کی مدد کریں کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کیلئے اجر عظیم ہے

 کاروبار کو کاروبار سمجھ کر ہی چلایا جائے ورنہ یہ برباد کر دے گا،جب بھی موقع ...
 کاروبار کو کاروبار سمجھ کر ہی چلایا جائے ورنہ یہ برباد کر دے گا،جب بھی موقع ملے مستحق افراد کی مدد کریں کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کیلئے اجر عظیم ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:145
ہم نے حقیقتاً دی انٹرنیشنل یونیورسٹی سے بڑا سبق اور تجربہ حاصل کیا تھا۔ پہلا یہ کہ کبھی بھی ایسے کام میں ہاتھ نہ ڈالو جس کا آپ کو تجربہ نہ ہو۔  دوسرا یہ کہ کسی بھی قسم کی شراکت داری کرتے وقت بہت احتیاط کی جائے، یہ سارا کام شفاف طریقے سے ہو اور اس میں سب کی ذمہ داریاں واضح ہوں اور یہ سب کچھ تحریری صورت میں بھی موجود ہو۔ تیسری بات یہ کہ کاروبار کو کاروبار سمجھ کر ہی چلایا جائے ورنہ یہ آپ کو برباد کر دے گا۔ چوتھی بات یہ کہ کسی بھی قسم کی زبانی یقین دہانیوں پر اعتبار نہ کیا جائے جیسا کہ رفاہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ ہر بات کو فوری طور پر قانونی کاغذات پر تحریر ی شکل میں سامنے لانا چاہئے پانچویں بات یہ کہ سب اہم فیصلے فوری طور پر اور صحیح وقت پر کئے جائیں، ورنہ آپ کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے یونیورسٹی کا چارٹر حاصل کرنے میں دیر کردی اور پھر نقصان ہوگیا۔ چھٹی بات یہ کہ بڑی عمر میں کاروباری اور سرمایہ کاری جیسی سرگرمیوں سے بچا جائے۔ اور آخری بات یہ کہ جب بھی موقع ملے مستحق افراد کی مدد کریں کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کے لیے اجر عظیم ہے۔  
فلاحی تنظیموں کے ساتھ  کچھ مصروفیات
میں اپنے خالق و مالک کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے درد دل رکھنے والا انسان بنایا اور ہمیشہ مجھے ہمت دی کہ میں   غریب  اور غیر مراعات یافتہ طبقے کی کچھ مدد کرسکوں۔ یہ احساس مجھے امی جی کی طرف سے منتقل ہوا ہے اس سلسلے میں اپنے بھائیوں کے تعاون سے میں نے تھوڑا بہت کام اپنے آبائی علاقے ڈسکہ سے شروع کیا جہاں وہ لوگ پہلے ہی کافی سرگرم تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم اس کے لیے کوئی تنظیم بنا کر اس کام کو  باقاعدگی سے اور منظم طریقے سے لے کر آگے بڑھیں تو بہت اچھے نتائج سامنے آ سکتے ہوں۔پھر ہم نے ایسا ہی کیا، میں 1970میں انجمن حمایت اسلام کی ایگزیکٹو کمیٹی کا ممبر بن گیا۔ اور خواتین کا ایک کالج قائم کرنے میں بھرپور حصہ لیا۔ اس وقت میاں امیر الدین اس کے صدر تھے۔ مجھے1981 میں اس کمیٹی کی ممبر شپ ختم کرنا پڑی کیونکہ میں بیرون ملک جا رہا تھا۔ 2000 ء میں مستقل طور پر وطن واپسی پر مجھے ایک اور فلاحی تنظیم اخوت سے متعارف کروایا گیا جس کے بانی جناب ڈاکٹر امجد ثاقب سے میری ملاقات ہوئی۔وہ غیر معمولی اور باکمال صلاحتیوں کے مالک ہیں۔ انھوں نے اپنی ذہانت اور غیر سودی قرضوں کے اجراء سے کم از کم  60لاکھ خاندانوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔ اس کے علاوہ سارے پاکستان سے وہ غریب مگر ذہین طالبعلموں کو مفت تعلیم کی سہولت بھی دے رہے ہیں۔ ان کی یہ انتھک محنت اور کوششیں ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرف درست اور مضبوط قدم ہیں۔ میں اخوت کی عظیم سرگرمیوں کا بہت مداح ہوں۔ڈاکٹر امجد ثاقب کے کم آمدنی والوں کے لیے انقلابی اقدامات کی وجہ سے حکومتِ پاکستان اور دنیا کے کئی ممتاز ادارے اُنھیں ایوارڈز سے نواز چکے ہیں۔ اسی دوران ایک اور فلاحی تنظیم الخدمت فاونڈیشن بھی سامنے آئی جو مائکرو فنانس، تعلیم اور صحت کے حوالے سے قابلِ تحسین خدمات انجام دے رہی ہے۔ میں ان کی انتظامیہ اور ان کے کام کی بھی بڑی قدر کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میرا کچھ اور ٹرسٹ اور تنظیموں سے بھی تعارف ہوا جن کے دائرہ کار میں بھی اسی قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ان سب کو دیکھ کر میں نے بھی فعال ہونے کا فیصلہ کر لیا جس کی تفصیل اگلے صفحات میں دی گئی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -