اسرائیل کے ایران، عراق اور شام پر حملے
اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کر دیا۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے ہفتے کی صبح ایران میں فوجی اہداف پر یکے بعد دیگرے کئی فضائی حملے کیے، نقصان کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آ ئیں۔اسرائیل کا یہ حملہ ایران کی طرف سے یکم اکتوبر کو کئے جانے والے بیلسٹک میزائل حملوں کا جواب تھا۔ ایرانی میڈیا کادعویٰ ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی حملے ناکام بنا دیے گئے اور اگرکہیں اسرائیل کو کامیابی ملی بھی ہے تو وہ بھی معمولی نوعیت کی ہے۔ ایرانی ایئر ڈیفنس کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے تہران، خوزستان اور ایلام میں کئی فوجی مقامات پر حملے کیے جنہیں فضائی دفاعی نظام کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا۔ تہران کے مغرب میں سات دھماکے ہوئے اور خمینی ایئرپورٹ پر بھی دھماکوں کی آواز سنی گئی،ہوائی اڈے پر سنی جانے والی آوازوں کے متعلق ایرانی فوجی حکام کا کہنا تھا کہ وہ تہران کے قریب تین مختلف مقامات پر حملوں کو ناکام بنانے کے لیے فضائی دفاعی نظام استعمال کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئیں، مہر آباد اور امام خمینی ایئرپورٹس پر صورتحال معمول کے مطابق ہے،۔ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس نے رپورٹ دی کہ اسرائیل نے تہران کے مغرب اور جنوب مغرب میں کئی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔دوسری طرف اسرائیلی فوجی حکام کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایران کے کئی علاقوں میں فوجی مقامات کو میزائلوں سے نشانہ بنایا جس سے بعض عمارتوں میں آگ لگ گئی،حالیہ حملے میں تین مرحلوں میں 20 مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا،اسرائیل کی زیادہ نظر فوجی اہداف پر ہے اِسی لئے آخری دو مرحلوں میں ایران کی میزائل اور ڈرون حملے کرنے کی صلاحیت کو ٹارگٹ کیاگیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایران کی فوجی تنصیبات پر اسرائیلی حملے کئی گھنٹے جاری رہے۔سعودی عرب نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ حملے ایرانی ملکی خودمختاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن پھر بھی فریقین زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور عالمی برادری کشیدگی کم کرنے اور علاقائی تنازعات ختم کرنے کے لئے اقدامات کرے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کے وزیر دفاع نے چند روز قبل ہی اعلان کیا تھا کہ دشمنوں کو اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ اسرائیل نے ایران پر حالیہ فضائی حملوں کے بعد اسے جوابی کارروائی سے باز رہنے کی دھمکی بھی دی اور تنبیہ کی جوابی کارروائی کی صورت میں اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایران اس دھمکی سے ڈرتا نظر نہیں آ رہا، وہ بھی ڈٹا ہوا ہے، اس کے مطابق وہ کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اسرائیل کو مناسب ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔اب اگر ایران نے جوابی حملے کیا تو کشیدگی کا ایک نیا باب شروع ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ دونوں ہی ایک ددوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ ابھی پانچ روز قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن حماس سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد غزہ جنگ بندی مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے اسرائیل آئے تھے لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی، وہ جمعے کو واپس لوٹے تھے اور اگلے ہی دن اسرائیل نے ایران، لبنان اور شام پر میزائل داغ دیئے۔امریکی وزیر خارجہ کا گزشتہ ایک برس میں مشرقِ وسطیٰ کا یہ 11 واں دورہ تھا۔ ابھی دو روز قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے دوحہ میں قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ رُکنی چاہیے، غزہ کے شہریوں کو امدادی سامان کی سخت ضرورت ہے۔انہوں نے اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کو روکنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور غزہ کے متاثرین کے لیے 13کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالرز کی امداد کا اعلان بھی کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں مقررہ اہداف پالیے ہیں، وہاں اسرائیلی فورسز کا انخلاء یقینی بنانے کے لیے منصوبہ سازی ضروری ہے،موجودہ صورتحال غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے سازگار ہے لیکن حماس کو جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی فوج کا مکمل طور پر غزہ سے انخلاء مطلوب ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیلی افواج کے غزہ سے مکمل انخلاء کی شرائط پر مذاکرات کے لیے حماس کا وفد قاہرہ پہنچ چکا ہے۔اب ایک طرف امریکہ جنگ بندی کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے اور دوسری طرف ایران پر ہونے والے اِس حملے کو مکمل امریکی حمایت بھی حاصل ہے،اسرائیل اسے اعتماد میں لے چکا تھا اور امریکہ ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے حق ِ دفاع کا نعرہ لگا رہاہے۔امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے صاف کہا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کی مشق ہے،ایران کی طرف سے بیلسٹک میزائل حملوں کا ردِعمل ہے۔
اسرائیل کسی ایک جگہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، اس کا دائرہ تو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے،وہ بے دریغ جہاں اس کا دِل چاہتا ہے حملے کر رہا ہے،فلسطین کے بعد اس نے لبنان کا رخ کیا، یمن میں بھی میزائل داغے اور اب ایران کے ساتھ ساتھ شام میں بھی متعدد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا،دمشق کے دیہی اور وسطی علاقوں کے علاوہ ہومز میں بھی دھماکے سُنے گئے۔ اس کے علاوہ عراقی شہروں تکریت، دیالہ اور صلاح الدین میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جس کے بعد عراق نے اپنی تمام پروازیں تاحکم ثانی معطل کر دیں۔اسرائیل کی منہ زوری کا جواب دینے کے لیے لبنان نے قریباً 30 راکٹ غلیلی کی جانب داغے جن میں سے چند کو اسرائیل نے فضا میں روک لیا تاہم باقی راکٹ مجد الکروم اور قریبی علاقوں میں گرے۔اِن راکٹ حملوں میں ایک نوجوان سمیت دو افراد ہلاک جبکہ سات زخمی ہو گئے جن میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ حِزب اللہ نے جنوبی لبنان میں بھی اسرائیلی فوج پر حملے کئے جن میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ 24 زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے اپنے ریزرو فوجیوں کے ساتھ ساتھ غزہ میں بھی تین فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی، جس کے بعد وہاں گزشتہ 48گھنٹوں کے دوران مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 13 ہو گئی ہے۔
اِس وقت مشرق وسطیٰ کی صورتحال خاصی گمبھیر ہے، جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں، ائیر سپیس بند ہو رہی ہیں، فلائٹ آپریشنز بھی معطل ہو گئے ہیں، طرح طرح کے خدشات دِل دہلا رہے ہیں لیکن اسرائیل کو ان سب سے رتی برابر فرق نہیں پڑ رہا، معلوم نہیں وہ کیا ٹھانے بیٹھا ہے، گریٹر اسرائیل کا خواب اسے چین ہی نہیں لینے دے رہا۔اِدھر اُدھر حملوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ غزہ میں کارروائی روک چکا ہے۔ امریکی موقف کے مطابق وہ غزہ میں اپنے اہداف حاصل کر چکا ہے لیکن پھر بھی اس کے حملے جاری ہیں۔اسرائیل نے شمالی غزہ کے جبالیہ کیمپ میں 45 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا، آپریشن کے دوران سینکڑوں فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا،متعدد عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔اِس کے علاوہ جمعے کو اسرائیلی فوج نے خان یونس کے علاقے المنارہ میں حملہ کرتے ہوئے 14 بچوں سمیت 38 افراد کو شہید کردیا، شہید ہونے والے بچوں میں سے 13 کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں بھوک اور افلاس کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں، وہاں خوراک کا شدید بحران ہے اور قریباً 23 لاکھ فلسطینی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ شمالی غزہ میں گزشتہ 20 دِنوں میں 700 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں،شہادتوں کی مجموعی تعداد43ہزار کے قریب ہے جبکہ زخمیوں کی تعدادایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دو رو ز قبل ہی آسٹریلوی میڈیا میں ایک تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ گزشتہ سال سات اکتوبر سے لے کر اب تک دو لاکھ سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کے حمایتی ممالک کم از کم اِس بات پر تو غور کریں کہ ”حق دفاع“ کی بھی تو کوئی حد ہو گی،اس کے نام پر مظلوم فلسطینیوں اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو مار دینا کہاں کا انصاف ہے، کیا ان لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے؟انہیں آزادی سے سانس لینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔بین الاقوامی طاقتیں اِس طرف توجہ کریں، ایک سال سے کبھی مذاکرات ہو رہے ہیں، کبھی معطل ہو رہے ہیں لیکن قیمتی جانیں ضائع ہوتی جا رہی ہیں، ظلم و ستم کا بازار گرم ہے اور کسی میں جرأت نہیں کہ اسے روک سکے۔
٭٭٭٭٭