’چائے والا جی، چاہے پیسٹری جی‘ (2)
فلیش مین راولپنڈی کے انٹرویو میں ڈاکٹر ڈیوڈ پیج اشارہ دے گئے تھے کہ میرے لیے بی بی سی اردو کی اسامی اگلے برس خالی ہو گی۔ ڈیڑھ سال گزر جانے پر سوچا کہ ذاتی منصوبہ بندی کی سمت اپنے آپ تبدیل ہو رہی ہے، کیوں نہ اِسی نہج پر چلتے رہیں۔ چند ماہ کی مسافت میں گاڑی کئی سٹیشنوں سے گزری جن میں بڑے بڑے جنکشن بھی تھے۔ جیسے کالج لیکچرر سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسری، ڈاکٹر نبیلہ اکرام کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی کا آغاز اور واہ سے ریٹائرمنٹ پر والد کی فیملی سمیت لالہ زار، راولپنڈی منتقلی۔ اِس بِیچ میری عارضی تعیناتی وزیر تعلیم کے ایکڈیمک ایڈوائزر کے طور پر بھی رہی جہاں سیکھا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ہمارے حاکم گلشن کا کاروبار کیسے چلاتے ہیں۔ یہ درخواست بھی رنگ لا چکی تھی کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز سے وابستہ ہو جاؤں جسے بعد ازاں یونیورسٹی کا درجہ مل گیا۔ ایسے میں ’بولنگ اینڈ‘ میرے لیے ’بیٹنگ کرِیز‘ کیسے بن گیا؟ یہ بھی ڈیوڈ کہانی کا حصہ ہے۔
انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہونے میں مہینے بھر کی مہلت تھی۔ اِس پر یارِ دیرینہ اور یونیورسٹی کے ہمکار شاہد صدیقی نے،جو بالآخر وائس چانسلر کے منصب تک پہنچے،دبے پاؤں ایک مشورہ دیا۔ کہنے لگے کہ جوائن کرنے سے پہلے بی بی سی کو یاد دہانی کا خط لکھیں کہ اگر اردو سروس میں اب بھی تقر ر کا امکان ہے تو مَیں مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کی پیشکش مسترد کر دوں۔ جواب میں بی بی سی نے گوگلی پھینک دی۔ ایڈمنسٹریشن کی چٹھی کا لُب ِ لباب دلچسپ تھا کہ ”مذکورہ پوزیشن کے لئے ہزار سے زائد امیدوار تھے،لہٰذا فی الوقت آپ کامیاب نہیں ہوئے۔ آئندہ کوئی جگہ خالی ہوئی تو یہ نام خود بخود زیرِ غور آئے گا تا وقتیکہ آپ منع نہ کر دیں۔ سوچا کہ ٹرن لیتی گیند کو بیک فُٹ پر کھیلنا چاہیے۔ اپنی خواہش کی توثیق لکھ بھیجی۔ پندرہ دن میں تقرر کا پروانہ آ گیا۔ اِس تقرر کا مسز اندرا گاندھی سے تعلق؟ یہ آگے چل کر۔
اگلامنظر عالمی نشریات کے مرکز بُش ہاؤس، لندن پر کھُلے گا اور پھر ڈیوڈ پیج کا کلوز اپ، لیکن فلم بندی کی اصطلاح میں پہلے ایک انٹر کٹ۔وہ یوں کہ جس دن بی بی سی کا پروانہ مِلا، ہسٹری کے اُستاد اور زندہ تدریس کے ماہر، پروفیسر نصراللہ ملک محض شاہد صدیقی اور میرے ساتھ گپ لگانے کے لیے اوپن یونیورسٹی آئے ہوئے تھے۔ ٹیلکس اُن کے سامنے رکھی تو انگلش میں کہنے لگے کہ اٹھو اور سب سے پہلے یہ اطلاع اپنی ’گُڈ وائف‘ کو جا کر دو۔ ملک صاحب کی پُرجوش مسرت توقع کے عین مطابق تھی۔ جو کچھ توقع کے برعکس ہوا وہ پنڈی میڈیکل کالج کی استانی کا ردِ عمل تھا۔ بیگم نے کہا: ”چلے تو جائیں گے مگر اِس شرط پر کہ وہاں مستقل نہیں رہنا۔“ ”وجہ؟“ ”وجہ یہ کہ ہمارے والدین زندہ ہیں، واپس نہ آئے تو حسرت رہے گی کہ اُن کے ساتھ وقت نہیں گزارا۔“ مَیں نے تجویز کی تائید کر دی۔
نبیلہ کی شرط نے انگریزی محاورے میں اگر میری اسپرٹ کو نم آلود کیا تو یہ حرارت برٹش ائر ویز نے سیٹیں اپ گریڈ کر کے فراہم کر دی۔ دورانِ پرواز کا کوئی واقعہ یاد نہیں، سوائے ا،س کے کہ کلب کلاس کے مرد مسافر نے لنچ کے لیے کھانے پینے کا آرڈر ذرا فیاضی سے دیا۔ ائر ہوسٹس نے پوچھا ”لیڈی کے لیے بھی؟“ اثباتیہ جواب اثبات سُن کر وہ مسکرائیں۔ مَیں نے مُڑ کر اپنی لیڈی کو آنکھ ماری کہ سمجھا کریں، دونوں کریزوں پر بیٹس مین ایک ہی ہے۔ چالیس سال پہلے کے بُش ہاؤس میں حاضری تین دسمبر کو تھی۔ویک اینڈ آرام سے گزار کر مقررہ صبح بی بی سی اردو میں فون کیا تو پتا چلا کہ ہماری حیرتوں کے بعد اب حیران ہونے کی باری ڈیوڈ پیج کی تھی۔
فون پر میرا نام سُن کر ڈیوڈ کو خوشی کا اظہار تو کیا مگر لہجہ میں تذبذب تھا: ”اچھا، تو تم آ گئے ہو؟ مَیں سمجھا تھا نہیں آئے۔“ ”جی، میری بیوی اور مَیں طے شدہ پروگرام کے مطابق ہفتے کی شام پہنچ گئے تھے۔ سوچا دفتر آنے سے پہلے آج صبح فون کر لوں گا۔“ ”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن مَیں تمہیں ہیتھرو پر لینے گیا تھا، تم نظر نہیں آئے۔“ ایسے موقعوں پر میرے ذہن میں یہی قوالی گونجتی ہے کہ ’اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔‘ مَیں نے جہاز کی آمد سے لے کر ٹیکسی پکڑنے تک کے مرحلے یاد کیے اور کہا کہ آپ کی موجودگی کی اطلاع ہوتی تو ہم انتظار کرلیتے۔ اِس پر ڈیوڈ نے معذرت کی: ’مَیں ذرا لیٹ ہو گیا تھا۔“ ”تو ہماری دفتری ملاقات ’نوٹ آف کنفیوژن‘ پر ہو رہی ہے۔“ ڈیوڈ ہنسے۔ میری بھی جان میں جان آئی۔ لندن سے آشنائی کی بدولت ٹمپل اسٹیشن تک کوئی دقت نہ ہوئی، وہاں سے ٹھائیں ٹھپ بُش ہاؤس۔ بعد میں پتا چلا کہ ہر نئے کارکن کا استقبال کرنے کے لیے یہ شخص ائر پورٹ پہنچتا ہے۔ میرے بعد پی ٹی وی کی معروف نیوز رِیڈر ثریا شہاب جب ڈیپوٹیشن پر بی بی سی آئیں تو ڈیوڈ نے راتوں رات اُن کی اُس بیٹی کا ویزہ لگوایا جو فنی طور پر بچپن سے آگے تھیں۔
استقبالیہ کاؤنٹر پر فلیش مین ہوٹل والی مشفقانہ ذکاوت اور شرمیلی گرم جوشی نے میرا خیر مقدم کیا۔ ساتھ ہی کہنے لگے آؤ، بُش ہاؤس کے ریستوران میں پہلے کافی پی لیں۔ ”وقت تو کھانے کا ہے۔“ ”دوست، براڈ کاسٹرز کے لیے کھانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔“ کافی ختم ہونے تک ڈیوڈ یہ مژدہ سُنا چکے تھے کہ ابتدائی ہفتے میں نوزائیدہ کارکُن کی کوئی باضابطہ ڈیوٹی نہیں لگائی گئی۔ ”اِس دوران اردو، پشتو، ہندی، بنگالی اور ایسٹرن سروس کے باقی ساتھیوں سے مِلیے، بینک اکاؤنٹ کھُلوائیے اور بی بی سی ہاسٹل چھوڑنے سے پہلے کوئی گھر تلاش کیجیے جس کے لیے اکاموڈیشن منیجر جین سیکسبی اور پرسونل آفیسر این ڈینٹ آج آپ کی منتظر ہیں۔“ پھر اردو سروس کے واحد سینئر پروڈیوسر اور اپنے نائب اطہر علی سے تعارف کرا یا اور ہمارے سنٹر بلاک کے علاوہ چہار سُو پھیلے عمارتی وِنگ خود لے جا کر دکھائے۔ یہ اِس لیے کہ بُش ہاؤس کی راہداریاں، زمین دوز راستے اور دفتر کو نیوز روم، لائیبریری اور ریفرینس سے مِلانے والے پُر اسرار پُل بھول بھلیاں تھے۔
اِس دوران بس یہ بریفنگ مِلی کہ جی ایم ٹی کے مطابق خبروں اور حالاتِ حاضرہ پر مبنی ’جہاں نما‘ صبحِ کاذب سے پہلے ڈیڑھ بجے شروع ہونے والی پہلی مجلس ہے۔ پھر دن کے ڈیڑھ بجے ایک خبرنامہ اور اخبارات کی رائے کے بعد سہ پہر تین بجے کی مَین ٹرانسمیشن کا دورانیہ پون گھنٹہ ہوتا ہے۔ اِس ٹرانسمیشن میں نیوز بلیٹن اور نامہ نگاروں کے تازہ مراسلوں پر مشتمل ’سیربین‘ کے بعد پندرہ منٹ میں کرنٹ افئیرز سمیٹ کر پیشگی ریکارڈ شدہ الگ الگ پروگرام بھی پیش کیے جاتے۔ ڈیوڈ نے یاد دلایا کہ اِن میں بچوں کا مقبول پروگرام ’شاہین کلب‘، خواتین کے لیے ’برگِ گُل‘، ’کھیل کے میدان سے‘، ہفتہ وار سیاسی تجزیہ ’میزان‘، ’سائنس کلب‘ اور اختتامِ ہفتہ ’سبرس‘ اور ’گرد و پیش‘ شامل ہیں۔ ہمارے ساتھی سید راشد اشرف کے الفاظ میں ’سیربین‘ اُن دنوں وہی فلیگ شِپ پروگرام ہے جسے سُننے کے لیے ”کراچی میں،لاہور میں، پشاور میں،کوئٹہ میں پان والوں کی دکانوں کے سامنے لوگوں کے ہجو م ہیں۔“ رِیڈنگ ریکارڈڈ مواد کے ضمن میں ڈیوڈ پیج میرے تدریسی تجربے کو کیونکر کام میں لائے اور پھر مجھے بقیہ صحافتی راستوں پر کیسے ڈالا؟ یہ دلپذیر تفصیل اگلی قسط میں۔ (جاری ہے)