کوئی اور ہے، نہیں تُو نہیں
مزاح نگار کرنل محمد خاں نے جب ’بجنگ آمد‘ کا مسودہ اپنے ایک دوست کو دکھایا تو انہوں نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ”تو یہ کتاب آخر چھپ کر رہے گی۔“ پوچھا ’کوئی اعتراض؟‘۔ جواب مِلا کہ ایک تو تم فوجی ہو، دوسرے تمہارا نام کچھ کاشتکارانہ سا ہے۔ پھر یہ مشورہ بھی دیا کہ نام کو یکسر بدل دینے کی بجائے اِس کے شروع، درمیان یا آخر میں کوئی پیارا سا ’اپ ٹو ڈیٹ‘ تخلص چسپاں کر لو، جیسے تسنیم، نسرین، سروش وغیرہ۔ مصنف نے یہ سوچ کر ایسا نہ کیا کہ یہ ماڈرن نام ہیں تو بہت اچھے، مگر اِن سے نر مادہ کا پتا نہیں چلتا اور ایک کھٹکا سا رہتا ہے کہ کہِیں اٹھتے بیٹھتے، انگڑائی لیتے جنس میں خلل نہ آ جائے۔ لکھاری کی ’صنفِ سخن‘ تو پہچان کا ایک جزوی حوالہ تھی۔ وگرنہ چند ہی سال کے اندر ہمارے مصنف کو اپنے نام سے کرنیلی کا سابقہ بھی ہٹانا پڑ گیا۔
یہ اِس لیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کرنل کے عہدے پر یکے بعد دیگرے موصوف کا کوئی نہ کوئی ہم نام فائز ہونے لگا۔ خیریت گزری کہ اِن محمد خانوں میں سے اکثر کا شعر و ادب سے نمایاں تعلق نہیں تھا۔ پھر بھی ایک مرتبہ ایک قریبی جاننے والے نے، جو مری کی مال پر ٹہلتے ٹہلتے یہ نام دیکھ کر ایک بنگلے میں جا گھسے تھے، اِنہیں بعد میں خط لکھا کہ ڈرائنگ روم میں بٹھائے جانے پر جس میزبان نے میرا خیر مقدم کیا، وہ تھے تو کرنل محمد خاں مگر مصنف محمد خاں نہیں تھے۔ مری والے کرنل صاحب نے اُن لوگوں کی کُل تعداد بھی بتائی جو نام کی مشابہت کے سبب موسمِ گرما میں اُن کے مہمان بن چکے تھے۔ ساتھ ہی ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ آپ کا محمد خاں اگر نام نہیں بدل سکتا تو ہر مہینے چائے کا خرچہ ہی بھیج دیا کرے۔
پہچان کا ایسا ہی مغالطہ سید ضمیر جعفری اور سید محمد جعفری کے درمیان بھی رہا۔ ایک بات جو نذیر شیخ نے ایک کے متعلق کہی، وہ دونوں کے بارے میں سچ تھی کہ ’خاندانی سیدوں کی آل ہیں میجر ضمیر‘۔ دونوں مزاحیہ شاعر اور ترنم میں اپنی اپنی طرز ادا کے مالک، گو ضمیر صاحب کے بقول، مجھ جتنا شور تو سید محمد جیسے چار آدمی مِل کر بھی نہیں مچا سکتے تھے۔ شناخت کا یہ حوالہ اُس وقت اور دلچسپ ہو گیا جب سید محمد جعفری کراچی سے آکر سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ضمیر جعفری کے قریب ہی ایک کوٹھی میں مقیم ہو گئے۔ اب آئے دن دینہ اور جہلم کے دیہات سے ضمیر حسین شاہ کے عزیز رشتہ دار اُن کا پتا پوچھتے پاچھتے پنجابی اور پوٹھوہاری سے لدے پھندے سید محمد جعفری کے ’کاشانہ ء اردو‘ پر جا اترتے اور سید محمد جعفری موسم کے مطابق اُن کی خاطر تواضع کر کے اپنی کار میں منزل مقصود پر پہنچا دیتے۔
اگر ذاتی بات کروں تو نوجوانی تک مَیں اپنے کسی ہم نام سے واقف نہیں تھا۔ لندن میں دس سال کام کر کے نئی صدی سے پہلے جب مستقل بنیاد پر وطن لوٹے تو حیرت ہوئی کہ اب اِس نام کی کئی ہستیاں مختلف شعبوں میں معروف و ممتاز ہو چکی ہیں۔ تاہم اِن میں سے اکثر ناموں میں محمد، احمد، محمود، علی، عباس، حسن یا حسین کی صورت اسلامی وابستگی کا اشارہ اور انفرادی امتیاز موجود تھا۔ میرا اپنا نام اِن اجزاء سے اُسی طرح عاری ہے جیسے مرحوم الطاف گوہر کا اسم گرامی۔ جب ایک رات سائیکل کی لائٹ نہ ہونے کے باعث اُن کا چالان ہونے لگا تو پولیس اہلکار نام سن کر حیران ہوا اور اُس نے پوچھا کہ تمہاری ذات کیا ہے۔ اِس پر اُن کے ساتھی سائیکل سوار اعجاز بٹالوی نے برجستہ کہا تھا ”نو مسلم ہے، جناب“۔ الطاف گوہر کی طرح میرا نام ہے تو ’سیکولر‘ لیکن یہاں کئی سال پہلے جو مسئلہ پیدا ہوا وہ ایک اور زاویے سے تھا۔
صبح دس بجے کے قریب میرے موبائیل کی گھنٹی بجی۔ تب اسکرین پر نام دیکھنے کی سہولت نہیں تھی۔ سو، فون کرنے والے نے سوالیہ انداز میں میرا پورا نام لیا۔ مَیں نے کہا ”جی ہاں، مَیں بات کر رہا ہوں۔“ ”تو پھر کل فیصل آباد والا پروگرام پکا ہے نا؟“ عرض کی کہ میرا تو کوئی ارادہ نہیں۔ کہنے لگے ”تو کیا آپ شاہد ملک نہیں، فارن آفس والے؟“ جی تو یہ کہنے کو چاہا کہ مَیں فارن آفس میں نہیں، ہوم آفس میں ہوتا ہوں۔ پھر بھی وقت اور عزت بچانے کے لیے اپنا تعارف کرایا اور دونوں طرف سے ’سوری‘ کے لفظ پر گفتگو ختم ہو گئی۔ چند سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ لینڈ لائن کی بیل بجی۔ ”شاہد صاحب، آج آپ کے بہانے میں نے ایک اور شاہد ملک کو فون کر دیا تھا۔“ ”بھائی جان، اِس وقت بھی آپ ایک اور شاہد ملک سے بات کر رہے ہیں۔ یوں مکالمہ قہقہوں کی گونج میں دب کر رہ گیا۔
اُس سے اگلے برس جب فارن آفس والے ہم نام دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر متعین ہوئے تو دو دیگر احباب کے علاوہ مایہ ناز کہانی کار جناب انتظار حسین نے بھی مجھے گرم جوشی سے مبارکباد دی تھی۔ تردید کر کے بھی انتظار مرحوم کی بزرگی کے پیش نظر مجھ سے یہ وضاحت نہ ہو سکی کہ مَیں بطور صحافی بہت قریب سے اِتنے ڈرامے دیکھ چکا ہوں کہ کسی ممتاز منصب سے حقیقی یا خیالی تعلق جوڑ کر کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ پھر سالہا سال تک مشابہہ ناموں سے کوئی لطیفہ وجود میں نہ آیا، سوائے ’سولو‘ سرکس دکھانے والے اپنے ایک برطانوی ہم نام کی تصاویر کے۔ بی بی سی نیوز روم کے ایک شرارتی کارکن نے ساتھ ای میل بھی بھیجی کہ یہ آدمی تم سے زیادہ خوش شکل ہے مگر ممکن ہے تمہیں اِس کے جسمانی کرتب دیکھنے میں دلچسپی ہو۔
دلچسپی تھی یا نہیں، لیکن پچھلے ماہ صبح سات بجے لاہور سے راولپنڈی جانے والی 101 Up ’سبک رفتار‘ پر جو کچھ ہوا، میرے دوست بلال احمد اور مَیں ابھی تک اُس کا مزا لے رہے ہیں۔ تھا یہ شناخت ہی کا مغالطہ، لیکن اب کے کسی بڑے آدمی کے نام کے ساتھ کوئی مماثلت بھی نہ نکلی۔ اے سی پارلر میں چائے تقسیم ہونے لگی تو بلال نے کہا کہ دو کپ ہمیں بھی دے دیں۔ ”سر، آپ کے لیے چائے آ رہی ہے۔“ اب جو چائے آئی تو باقی مسافروں کے سامنے کاغذی پیالیوں میں ٹی بیگ کا نیم گرم مشروب جبکہ ہمارے لیے چینی کی پیالیوں میں باقاعدہ پتی کی کھولتی ہوئی سٹرانگ چائے، کوارٹر پلیٹوں میں سینڈوچ اور بسکٹ، نیز درجن بھر ٹشو پیپر۔ بلال اِس غیر متوقع آؤ بھگت پر حیران ہوئے تو مَیں نے آنکھ مار دی کہ اب اگلا تماشہ دیکھو۔
تماشہ یہ کہ جب ویٹر کو بِل کا پوچھا تو ڈرتے ڈرتے کہنے لگا ”سر، آپ سے کیسے لے سکتے ہیں؟“ ’نہیں، پیسے تو لینے پڑیں گے۔“ بِلال کے لہجے میں درمیانہ سا رُعب تھا۔ ویٹر عاجزی سے پیچھے ہٹا اور پارلر کار کے دوسرے سِرے سے ڈائیننگ عملے کے ایک سینئر رکن کو بُلا لایا۔ ”سر، آپ سے پیسے لے لیے تو مالک ناراض ہو جائے گا“ سینئر رکن نے کہا۔ بلال نے پوچھا کہ آخر کیوں؟ ”آپ کی وجہ سے سارا سسٹم چل رہا ہے اور ہماری نوکریاں لگی ہوئی ہیں۔‘‘ وہ بلال کو ریلوے کا کوئی بڑا افسر سمجھ رہا تھا۔ ہم نے بھی تاثر کی نفی نہ کی کہ کہِِیں اُس کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے۔ پھر ایک ایک کپ چائے اور پی کر پورا بِل اور کچھ ٹِپ زبردستی تھما دی۔ ساتھ ہی مَیں نے بلال کے کان میں سرگوشی کی کہ یہ اُس بخشیش سے کم ہے جو ایک بار مشابہہ مغالطے پر خود مَیں نے ویٹر کی جیب میں ٹھونس دی تھی۔