درہ بولان سے ساؤتھ ایشیا ءآنے جانے کا واحد راستہ کوئٹہ ہے،یہ پھولوں، خشک میوہ جات،سال بھر شاندار موسم اور مہمان نواز لوگوں کی سر زمین ہے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط32:
کوئٹہ؛
کوئٹہ، پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کا سب سے بڑا شہر اور صدرمقام۔ درہ بولان سے ساؤتھ ایشیا آنے جانے کا واحد راستہ۔ ڈیورنڈ لائن اور افغان صوبہ کندھار کے قریب ترین واقع یہ شہر پھولوں، خشک میوہ جات،سال بھر شاندار موسم اور مہمان نواز لوگوں کی سر زمین ہے۔سطح سمندر سے تقریباً 5500فٹ بلند اس شہر کی باقائدہ تاریخ محمود غزنوی کے دور سے ملتی ہے۔ یہاں ریلوے کا نظام 1890ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔ ملٹری سٹاف کالج کا قیام 1907ء میں ہوا جبکہ مئی 1935ء کے خوفناک اور بدترین زلزلے نے اس شہر کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 40,000 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ کچھ کے نزدیک 70 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ زندگی مفلوج ہو گئی تھی یہاں۔ کوئٹہ کو چار پہاڑوں ”چلتن، تختاؤ، زرگون اور مردار نے‘ گھیرا رکھا ہے اور روایت کے مطابق اس کا نام ”کوئٹہ“ بھی انہی پہاڑوں کے نام سے مل کر وجود میں آیا ہے۔آج کا کوئٹہ جدید سہولیات اور پرانی روایات کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ آج بھی مہمان نوازی اس شہر کے لوگوں کا اثاثہ ہے جس پر یہ فخر کرتے اور مہمانوں کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں۔ کوئٹہ میری جنم بھومی ہے۔
سردی اور برف؛
میرے ماں باپ کی شادی کے بعدابا جی کو kazer engnieers کوئٹہ میں ملازمت مل گئی۔ اس کمپنی کاشمار کنسٹرکشن کی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ میدانی گرم علاقوں کے رہنے والوں کے لئے کوئٹہ موسم کی شدت کے لحاظ سے یقینی طور پر ناگوار شہر ہو گا۔ میری والدہ(امی جی) بتایا کرتی تھیں؛”سردی کے موسم میں وہاں نلوں میں پانی جم جاتا تھا۔ برف باری سردی کی شدت میں کئی گنا اضافہ کر دیتی تھی اور سرد ہوا رگوں میں خون جما دیتی تھی۔ سورج بھی اس سرد موسم میں شرما یا شرمایا رہتا تھا۔ تو بھی سردی کے دنوں میں ہی پیدا ہوا تھا۔‘ابا جی تو سردی کی دھوپ کو ”ٹھنڈی دھوپ“ کہا کرتے تھے۔
یہ سرد موسم کی ایک برفیلی شام تھی۔ سال 1958ء مہینہ نومبر، دن ہفتہ، تاریخ 29۔سورج کو مغرب میں ڈوبے زیادہ وقت نہ گزار تھا کہ ملک حمید اور تنویر جہاں کے ہاں ”لیڈی ڈرفن ہسپتال“ کوئٹہ میں میرا جنم ہوا۔ تاریخ پیدائش کے لحاظ سے میرا سٹار ”برج قوس(sagittarious) تھا۔ جو ایماندار، وفا شعار، رومینٹک، ذھین، آزادی پسند، بے صبرے، بے چین، دھیمے مزاج، خوش لباس، زندہ دل، من موجی، پڑھے لکھے اور خودغرض لوگوں کو ناپسند کرنے والوں کا سٹار ہے۔
نہ تو میں کوتوال شہر کا لڑکا تھا اور نہ ہی کوئی رئیس زادہ کہ شہر میں میری پیدائش کا چرچا ہوتا لہٰذا خوشی اور مٹھا ئی دونوں ہی محدود تھیں۔ ہاں یہ معلوم نہ تھا کہ بڑا ہونے پر سکول پھر ذرا اور بڑا ہونے پر کالج اور پھر جوان ہونے پر یو نیورسٹی میں کھیل کے حوالے سے اور نوکری میں اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے اس کا خوب چرچا رہے گا۔
دیار غیر میں میرے ماں باپ کے علاوہ اور کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہ تھا۔ سبھی وہاں سے مسافت کے لحاظ سے دور تھے اور محبتوں کے لحاظ سے بھی کچھ قریب نہ تھے۔امی جی بتاتی تھیں؛”تو پیدا ہوا تو پردیس میں ہمارا جاننے والا کوئی بھی نہ تھا۔ میری ہمسائی ایک نیک دل بوڑھی بلوچ خاتون تھی۔ مجھ سے ماں کی طرح محبت کرتی تھی اور زچگی میں وہ میری ماں ہی ثابت ہوئی پھر تیرے باپ نے بھی میرا بہت خیال کیا۔“میرا نام شہزاد احمد حمید رکھا اور ماں مجھے پیار سے ”بٹو“ پکارتی تھیں اور بعد کے دنوں میں ان کا ”بٹو بھائی جان“ بن گیا۔امی جی اکلوتی تھیں نہ کوئی بہن نہ بھائی۔ انہوں نے مجھے ہی بٹو بھائی جان کہنا شروع کر دیا۔والد نے میری تاریخ پیدائش ایک سال بعد یعنی 29نومبر 1959ء لکھوائی اور یہی میری سرکاری تاریخ پیدائش ہے۔مجھے کوئٹہ یاد نہیں اور میری بد قسمتی ملاحظہ ہو میں نے آج تک اپنی جنم بھومی دیکھی بھی نہیں۔ کئی بار پروگرام بنا مگر ہر بار کوئی نہ کوئی سرکاری کام رکاوٹ بن جاتا تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔