کوشش کریں جس حد تک اور جہاں تک ممکن ہو سکے فکرمندی کو خود پر غالب نہ آنے دیں،اسکے باعث معمولی سی مصیبت بھی آفت میں تبدیل ہو جاتی ہے
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:92
کوشش کریں کہ جس حد تک اور جہاں تک ممکن ہو سکے، فکرمندی کو خود پر غالب نہ آنے دیں۔ اپنے آپ سے بار بارپوچھیں: ”اس دنیا میں کیا کوئی ایسی چیزہے جو میرے فکرکرنے کے باعث تبدیل ہو جائے گی؟“
کوشش کریں کہ فکرمندی کو بہت کم عرصے کے لیے خو دپر طاری ہونے دیں۔ فکرمندی میں ”مبتلا“ ہونے کے لیے صبح اور شام کو دس دس منٹ مختص کر لیجیے۔ ان وقفوں کے دوران ہر قسم کی ممکنہ مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے غوروفکر کریں، پھر اپنے خیالات کو اپنے بس میں لانے کی صلاحیت استعمال کرتے ہوئے فکرمندی پر مبنی خیالات کا بہاؤ روک دیجیے، پھر آپ کو جلد ہی یہ محسوس ہو جائے گاکہ فکرمندی کے یہ وقفے بھی نہایت احمقانہ نوعیت کے ہیں اور ان کے ذریعے محض وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس طرح آپ کی زندگی سے فکرمندی کا یہ عنصر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
اپنے پاس ان امور اور معاملات کی فہرست تیارکیجیے جن کے متعلق آپ گزشتہ دن، گزشتہ ہفتے، گزشتہ مہینے حتیٰ کہ گزشتہ سال فکرمندی میں مبتلا تھے۔ یہ جائزہ لیجیے کہ ان فکرمندیوں کے باعث آپ کو کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ ہوا۔ یہ بھی تجزیہ کیجیے کہ جن امور اور معاملات کے متعلق آپ فکرمندی میں مبتلا رہے، ان میں سے کتنے امور اور معاملات آپ کے لیے کامیابی کی نوید ثابت ہوئے۔ آپ کوجلد ہی یہ احساس ہو جائے گا کہ فکرمندی دہرے انداز میں آپ کا وقت ضائع کرتی ہے۔ فکرمندی میں مبتلا ہو کر آپ کبھی بھی مستقبل کو تبدیل نہیں کر سکے۔ فکرمندی کے باعث ایک معمولی سی مصیبت بھی آفت میں تبدیل ہو جاتی ہے حتیٰ کہ رحمت بھی بعض دفعہ فکرمندی میں مبتلا ہونے کے سبب تکلیف میں بدل جاتی ہے۔
یہ جائزہ لیں کہ جب آپ فکرمندی میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر کیا یہ ایسی چیز ہوتی ہے جس کے متعلق واقعی فکرمندی کا مظاہرہ کرنے پرآپ مجبور ہوتے ہیں، یعنی جب آپ سمجھیں کہ آپ فکرمندی میں مبتلا ہو رہے ہیں تو اپنے دوست کو مخاطب کر کے کہیں ”دیکھو! میں فکرمندی میں مبتلا ہو رہا ہوں“ وہ حیران ہو جائے گا کہ آپ جس فکرمندی کے متعلق اعلان کر رہے ہیں وہ تو آپ کے پاس وجود ہی نہیں ہے۔
اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں جو آپ کو فکرمندی سے نجات دینے میں مفید اور موثر ہے۔ ”کونسی بدترین چیز ہے جو میرے ساتھ پیش آ سکتی ہے (یا ان کے ساتھ پیش آسکتی ہے) اور اس کے رونما ہونے کے امکانات کیا ہیں؟“ اس حوالے سے آپ کو ”فکرمندی“ کی بے وقعتی کا اندازہ ہو جائے گا۔
دانستہ طور پر ایک ایسے امر کی انجام دہی کا فیصلہ کر لیجیے جو آپ کی فکرمندی کے پہلو سے بالکل متضاد ہو۔ اگر آپ اپنے مستقبل کے لیے زبردستی رقم بچاتے ہیں، دوسرے دن کے لیے مناسب رقم کے حصول کے لیے فکرمندی میں مبتلا رہتے ہیں تو پھر اسی رقم کو آج ہی استعمال کرنا شروع کر دیجیے۔ اپنے اس دولت مند چچا کے مانند ہو جایئے جس نے اپنی وصیت میں لکھا تھا: ”اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے میں نے اپنی زندگی میں ہی تمام رقم خرچ کر ڈالی۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔