میرے پیارے سگریٹ واسیو!
سگریٹ دنیا کی وہ واحد چیز ہے جو مائع نہیں لیکن پھر بھی پی جاتی ہے بلکہ یہ سگریٹ ہی ہے جو گھونٹوں کی بجائے سانسوں میں پیا جاتا ہے۔ حکومت نے سگرٹ پر یوں ٹیکس بڑھایا ہے جیسے ملک کا سارا قرضہ انہی ”سگریٹ واسیوں“ نے لیا ہو۔ اب تو سگریٹ کی ڈبیا کی قیمت کم جبکہ ٹیکس زیاد ہ ہو گیا ہے۔ سگریٹ کی نئی قیمتیں دیکھ کر مجھے ایک روپے اونٹ کے گلے میں سو روپے کی بلی والی جیسی کئی ایک کہاوتیں یاد آ گئیں۔اگر قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں تو وہ وقت دور نہیں جب M.B.B.S کا ”ایس“ سرجری کے بجائے سگریٹ کے لیے پڑھا پڑھایا جائے گا اور بڑے بڑے ہسپتالوں میں ایک ”ماہر سگریٹیات“ بھی بٹھایا جائے گا جو ”سگریٹ واسیوں“ کو باقاعدہ چیک کر کے مجوزہ دواؤں کی طرح سگریٹ کی ڈبیوں پر بھی پینے کے اوقات اور خوراکیں درج کرے گا۔جب قیمتیں بڑھیں تو ایک پوسٹ نظروں سے گزری جس میں کسی ”پھیپھڑ، جلے“ نے سگریٹ کی ڈبیا کو تالا لگایا ہوا تھا۔پوسٹ دیکھی تو مجھے شرارت سوجھی اور میں نے بھی ایک پوسٹ لکھ کر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔بعد میں وہی پوسٹ قدرے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اِدھر اُدھر پھرتی دیکھی تو سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا کالم نگار اسے اپنے نام کر لے، مجھے اسے اپنے کالم کا حصہ بنا کر جملہ حقوق اپنے نام کر نا ہوں گے۔پوسٹ کیا تھی: ”برائے فروخت“ کی طرز پر ایک اشتہار تھا جسے یار لوگوں نے خوب مزے مزے سے اپنی اپنی تخلیق قرار دے کر لوگوں سے داد سمیٹی۔ تو آئیے بڑھتے ہیں اس پوسٹ کی جانب:
”سگریٹ کی ایک عدد ڈبیا برائے فروخت ہے جس کا نام گولڈ لیف ہے۔ڈبیا ایک بار کھلی ضرور ہے لیکن استعمال بالکل نہیں ہوئی اور کھولنے کی وجہ یہ تھی کہ ایئرپورٹ پر اسے زیراستعمال ظاہر کرتے ہوئے ٹیکس سے بچا جا سکے۔مزید تسلی کے لیے آپ سموک ٹائمر بھی چیک کر سکتے ہیں۔برائے اطمینان مزید، دکاندار کی پکی رسید بمع تاریخ ڈبیا کے اندر موجود ہے اُس پر مہر بھی لگی ہوئی ہے۔ڈبیا اندر باہر سے بالکل زیرو کنڈیشن جبکہ اُس کے اندر سارے سگریٹ ورکنگ پوزیشن میں ہیں جنہیں سودا ہو جانے کے بعد جلا، سلگا کر یا کش لگا کر چیک کیا جا سکتا ہے۔ڈبیا اور سگریٹس دونوں کی کنڈیشن ٹین بائی ٹین ہے۔واٹر پیک اور ہونٹ ٹائم کی مکمل گارنٹی دی جائے گی۔ کسی بھی سگریٹ میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں ہے بس کیش کی ضرورت آن پڑی ہے اس لیے بیچ رہا ہوں۔خریدنے والے کو ڈبیا کے ساتھ ایک ڈیجیٹل لاک بالکل مفت دیا جائے گا۔ ڈبیا کی قیمت بمع لاک، ایک ہزار روپیا سکہ رائج الوقت ہے۔ یہ قیمت بالکل ڈیڈ فائنل ہے۔کسی قسم کی بارگننگ نہیں ہو گی۔ صرف سنجیدہ لوگ رابطہ کریں۔چسکا پارٹی دور رہے“۔
یہ وہ پوسٹ تھی جسے یوں چرایا گیا کہ دامن پہ داغ لگا اور نہ ہی خنجر پر خون۔سگریٹ واسیوں کا کہنا ہے کہ سگریٹ کا ایک کش انسان کو کشمکش سے یوں آزاد کرتا ہے کہ اسے کشمکش اور کشمش میں فرق بھول جاتا ہے۔سگریٹس واسی ایک دوسرے کے ساتھ حد درجہ مخلص ہوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک بار کسی نے ہاشو شکاری کو بیک وقت دو سگریٹس پیتے دیکھاتو اس کا سبب پوچھا۔ہاشو نے جواب دیا کہ مجھے مرحوم دوست کی یاد آرہی ہے،میں اور وہ اسی جگہ بیٹھ کر اکٹھے سگریٹ پیا کرتے تھے۔ایک بار اس کی لت پڑ جائے تو انسان لمبی لمبی تو چھوڑ سکتا ہے لیکن سگریٹ نہیں چھوڑ سکتا۔کہتے ہیں کہ کسی سگریٹ واسی کی بیوی نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا کہ شوہرسگریٹ دار کی یہ عادت کیسے چھڑائی جا سکتی ہے؟ ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق بیگم نے شوہر کو یوگا کرانا شروع کر دیا۔تین ماہ بعد ڈاکٹر نے پوچھا: کوئی فرق پڑا؟ بیگم نے جواب دیا: جی ہاں! اب وہ سر کے بل کھڑے ہو کر بھی سگریٹ پی سکتے ہیں۔
ماہرین لغت کے ہاں سگریٹ، فارسی اور انگریزی کے دو الفاظ ”سَگ اور ریٹ“ کا مجموعہ ہے۔سگ کا معنی کتا جبکہ ریٹ کا مطلب قیمت ہے۔یعنی وہ چیز جس کا ریٹ کتوں کی مثل بڑھتا جائے۔بہرحال ماہرین لغت اس بات کی کوئی توجیح پیش نہیں کر سکے کہ اگر یہ پینے کی کوئی چیز نہیں تو ”سگریٹ نوشی“ کیوں کہا جاتا ہے؟نوشی صرف لیکوئڈ اشیا کے ساتھ خاص ہے جبکہ سگریٹ ایک سالڈ چیز ہے۔ہاشو شکاری نے تجویز دی ہے کہ ”کش“ کی مناسبت سے سگریٹ نوشی کی جگہ سگریٹ کشی کی اصطلاح اپنانی چاہیے۔باقی تمام اشیاء کا دھواں پھیلتا ہے لیکن سگریٹ اڑتا ہے اور اڑنے والی باقی چیزوں کی طرح سگریٹ کا دھواں اڑنے میں پٹرول یا پروں کا محتاج بھی نہیں۔قصہ مختصر تین سو کو چھوتا پٹرول اور پانچ سو کی بلائیں لیتے سگریٹس، من چلے تو اب نہ گھوم سکتے ہیں اور نہ ہی جھوم سکتے ہیں۔میرا تازہ کلام انہی سگریٹس واسیوں کے نام:
ذرا سوچ کر مجھ کو منہ سے لگانا
میں سگرٹ ہوں میرا نشہ ہے سہانا
دھویں کو فضاء میں اڑا کر وہ بولا
کہ کہتے ہیں اس کو بے پر کی اُڑانا
فقط ایک کش پر ہی ہانڈی چڑھا لی
اسے کہتے ہیں صاف ستھری پکانا
نشیؤں کی دنیا کا شاہین ہوں میں
ہے سانسوں کی نالی مرا آشیانہ
یہ ماچس یہ تیلی یہ شعلہ یہ سگرٹ
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
بھلے اپنی محفل سے دے دو نکالا
مگر مجھ سے سگرٹ کبھی مت چھڑانا
لگایا ہے سگرٹ پہ یوں ٹیکس کوثر
کہ لوٹا ہو جیسے اسی نے خزانہ