71 کی پاک،بھارت جنگ کے دوران گھر کے صحن میں خندق کھودی گئی، ریڈیو پاکستان سے سقو ط ڈھاکہ کا اعلان ہوا تو ابا جی ہچکیوں سے روئے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:63
جنگ 71 اور سقوط ڈھاکہ؛
دسمبر71 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہم ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہی تھے۔ جس وقت مغربی پاکستان میں جنگ شروع ہوئی تو ہم اپنی نانی اماں کے گھر(یہ میری ”پرنانی“کا گھر تھا۔) میکلیگن روڈ تھے۔ جب ہمیں جنگ چھڑنے کی اطلاع ملی تو شام ہونے کو تھی۔ امی جی نے ہم سب بچوں کو ساتھ لیا۔ ان کی والدہ انہیں روکتی ہی رہ گئی تھیں۔ سڑک پر آئے تو نہ کوئی ٹیکسی نہ کوئی رکشہ۔ میری والدہ پریشانی میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں کہ کوئی سواری ملے اور ہم گھر جا سکیں۔ اتنے میں ایک ہلکے نیلے رنگ کی مارک ون کار آئی۔ امی جی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ نوجوان ڈرائیور تھا۔ میری والدہ نے اس نوجوان سے کہا؛”بیٹا! میں نے ماڈل ٹاؤن جانا ہے۔کافی دیر سے ٹیکسی نہیں مل رہی۔ کیا تم ہمیں ماڈل ٹاؤن چھوڑ سکتے ہو؟“ اس نے سعادت مندی سے جواب دیا؛”جی ماں جی۔ بیٹھیں۔“ یوں ہم ماڈل ٹاؤن پہنچے۔ میری والدہ نے اس نوجوان کو پیسے دینے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں مانا۔ وہ شرافت اور دید مرید کا دور تھا۔
دوران جنگ ہمارے صحن میں انگریزی حرف”ایل“ شکل کی خندق کھودی گئی اور چند بار ایسا موقعہ بھی آیا کہ ہم اس خندق میں اترے بھی۔7 دسمبر کی دوپہر میرے گھر کے اوپر سے بھارتی اور پاکستانی لڑاکا ہوائی جہازوں کی”ڈاگ فائیٹ“ شروع ہوئی اور ہمارے شیر دل ہواباز نے دو نوں بھارتی جہازوں کو نشانہ بنایا۔ ایک بھارتی جہاز تو”ڈبل پھاٹک فیروز پور“سے ذرا آگے پاک سر زمین پر گرا جبکہ دوسرا پاک سرحد سے ذرا آگے بھارتی علاقے میں۔ لڑاکا جہاز کی مشین گنوں کی تڑ تڑ کی آواز آج بھی کبھی میری سماعتوں سے ٹکرا تی ہے تو 5دہائیاں پرانی وہ ڈاگ فائیٹ یاد کرا جاتی ہے۔ میری والدہ جو ڈاگ فائیٹ کے وقت شیشم کے درخت کے نیچے کھڑی تھیں اس ٹر ٹر سے اتنی سہمی کہ وہاں سے ہل ہی نہ سکیں۔ جنگ کے بعد ایک بار پی آئی اے کا جہاز ہمارے گھر کے اوپرسے ذرا نیچی پرواز سے گزرا تو اس کی آواز سن کر میری والدہ کے پاؤں جم ہی گئے تھے اور وہ ایک قدم بھی نہ اٹھا سکی تھیں کہ وہ ٹر ٹر کی آواز سے سہم گئی تھیں۔اسی سال16دسمبر کا منحوس دن بھی آیا جب ہمارا مشرقی بازو بنگلہ دیش بنا دیا گیا تھا۔
مجھے آج بھی یہ کل ہی بات لگتی ہے جب ریڈیو پاکستان سے سقو ط ڈھاکہ کا اعلان ہوا تو ابا جی ہچکیوں سے روئے تھے۔ ان کو روتا دیکھ کر میرے آنسو بھی بہہ نکلے تھے اور پھر ہر سال16 دسمبر کو ابا جی کو انجانی سی اداسی آن گھیرتی تھی۔وہ مجھے قیام پاکستان کی باتیں سناتے جو آج بھی مجھے یاد ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان سے محبت میرے خون میں رچی بس گئی اور یہی حال ہم بہن بھائیوں اور میرے بیٹوں کا بھی ہے خاص طور پر عمر کا کہ وہ تو وطن کے خلاف کوئی بات سن ہی نہیں سکتا۔ سقو ط ڈھاکہ پر اگر حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ جاری کی جاتی اور ذمہ داروں کو سزا ملتی تو میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اس ملک کا یہ حال نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی طالع آزما اس ملک کا مالک بنتا۔آج صرف ووٹ کی ہی طاقت ہوتی۔اپنی بات کے حق میں بنگلہ دیش ہی کی مثال دوں گا۔ چند کی قربانی نے اُس ملک کو آزاد کر دیا۔ اب سیاسی لوگ جانیں اور سیاست۔ وہ وہیں ہیں جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔اس سقوط کے محرکات کو ہم نے کبھی بھی کوئی اہمیت نہ دی نہ ہی اتنی بڑی ٹریجڈی سے ہم نے کچھ سیکھا۔ شاید یہ اس سقوط سے بھی بڑا دکھ ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔