لندن کے انگریز کہاں چلے گئے؟
ہمارے گورڈن کالج راولپنڈی کے پرنسپل خواجہ مسعود کہا کرتے تھے کہ ملک سے باہر آپ کی پہچان تمدنی حوالوں سے ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں شکیل بدایونی کے ساتھی اور معروف شاعر راز مراد آبادی 1950ء کے لگ بھگ بی بی سی سے وابستہ ہو کر لندن آئے تو کسی کو نہ لگا کہ اُن پر اِس نقل مکانی کا اثر پڑا ہے۔ ہاں، ایک بار خود راز صاحب نے اوکسفرڈ اسٹریٹ سے گزرتے ہوئے مبینہ طور پر پان کی پیک تھوک کر لندن پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو اُسے خون کی الٹی سمجھ کر پولیس نے واویلا مچا دیا تھا۔ راز مراد آبادی کو جاننے والے ہر قریبی شخص کو اُن کی شناخت کے دو ہی حوالے معلوم ہیں۔ اسی لیے جب طویل علالت کے بعد اُن کی صحت کے بارے میں پوچھا گیا تو بیگم راز نے فون پر بتایا کہ ”ماشااللہ آج تو پان بھی کھایا ہے اور گالی بھی دی ہے“۔
میری ابتدائی زندگی پنجاب کے مختلف شہروں یا اُن کے گرد و نواح میں گزری ہے۔وہ بھی ایسے ماحول میں کہ ہم ذہنی طور پر بدستور انگریز کے ’نیچے‘ لگے ہوئے تھے۔ مملکت سازی کے علاوہ، تمدنی اور انسانی اچھائیاں بھی انگریز سے وابستہ سمجھی گئیں، اِتنا سوہنا جیسے انگریز، وقت کا ایسا پابند جیسے انگریز۔ فوجی بھرتی کے علاقوں میں پاکستان بن جانے پر بھی یہ اقوالِ زریں عام تھے کہ ایڈمنسٹریشن سیکھنی ہے تو انگریز سے سیکھو۔ عجیب بات کہ ہمت و کاوش کے علاوہ آرام طلبی کا معیار بھی گورا ہی تھا۔ یہی دیکھ لیں کہ ایک بار واہ کینٹ سے حسن ابدال جانے والی بس پر ایک میل سے ذرا کم فاصلہ طے کر کے مجھے کسی کام سے نیچے اترنا پڑ گیا۔اِس پر کنڈکٹر نے یہ کہہ کر چھیڑا تھا کہ ”بابو جی، اتنے چھوٹے سفر کے لیے تو انگریز بھی بس میں نہیں بیٹھتے۔“
تمدنی شعبے میں ایک بہت بڑا نفسیاتی کامپلیکس انگریزی بولنے اور لکھنے کا بھی ہے۔ ہمارے سی بی (اب ایف جی) واہ کے استادوں میں سے ایک پروفیسر، جنہوں نے فزکس اور مَیتھ کی ڈبل ایم ایس سی فرسٹ ڈویژن میں کر رکھی تھی، جب بھی ملتے تو مکالمہ اِسی ایک جملے سے شروع کرتے: ”بھرا جی، کیا کروں انگریزی نہیں آتی؟“ (انگریزی کی ر اور ز کے درمیان ے پر خاص زور!)۔ خود اپنے مضامین میں ایک پوری نسل سے انہوں نے تدریس کا لو ہا منوایا اور تین مختلف چھاؤنیوں میں وفاقی ڈگری کالجوں کے پرنسپل رہے۔ پھر بھی انگریزی سیکھنے کا شوق اِس حد تک تھا کہ دفتر میں روزنامہ ’پاکستان ٹائمز‘ کا اداریہ بار بار پڑھ کر دن بھر اُسی کی سمری لکھنے کی کوشش کرتے۔ پھر سہ پہر کو گھر پہنچ کر اپنے اُس بیٹے ٹیپو کی کتاب رٹنے میں مصروف ہو جاتے جو ماشا اللہ انگلش میڈیم میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔
یہ تو ہوئے وہ آدمی جن کے نزدیک انگریزی میں مہارت افسر انہ رعب داب کی کلید رہی، مگر میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ جن بزرگوں کا انگلش سے کچھ لینا دینا ہی نہیں تھا، اُنہیں اِس زبان سے گہری عقیدت کیسے ہو گئی۔ میرے والد کے ایک رشتے کے پھوپھا، جو چِٹے ان پڑھ تھے، تعلیم حاصل نہ کر سکنے کا قصہ مزے لے کر سنایا کرتے۔ ”سارے شہر کے اسکول اور سارے شہر کی مسجدیں چھان ماریں، لیکن الف آیا تو ب نہیں آئی، اور ب آئی تو الف بھول گئے۔“ لیکن یہی پھوپھا جی اپنے تعلیم یافتہ منجھلے بیٹے کی نوعمری کی کہانی بیان کرتے تو انداز با ادب ہو جاتا ”خدا زندگی دے محمد یعقوب کو، ایک دن گھر میں آپ ہی آپ انگریزی بول رہا تھا۔اللہ بخشے محمد دین ثاقب نے گزرتے ہوئے آواز سُنی اور کہا ”بہت بڑا آدمی بنے گا۔“
اِس کہانی میں ’آپ ہی آپ‘ انگریزی بولنے والا نکتہ مجھے ہمیشہ بہت دلچسپ لگا، اِس پہلو سے کہ انگریزی بولنا بھی دکان کھولنے یا مشین چلانے کی طرح ایک باقاعدہ کام ہوا اور پڑھا لکھا وہی ٹھہرا جو وقت بے وقت انگریزی بولتا ہو۔ ظاہر ہے ہماری اِن سوچوں کا پس منظر انگریز کے برتر ہونے کے احساس سے جڑا ہوا تھا۔ تاہم، مجھ پر اِس نئی سماجی حقیقت کا انکشاف برطانیہ میں سالہا سال رہ کر ہوا کہ روایتی انگلش جنٹل مین کا تصور نو آبادیات میں بہت متاثر کُن تھا مگر خود جزائر برطانیہ میں اِس سے ہٹ کر۔ صنعتی انقلاب زمینوں کی مالک اشرافیہ کے لیے زوال کا پیش خیمہ بنا، جس کے بعد کی طبقہ بندی مڈل کلاس اور محنت کشوں کی باہمی تقسیم پر مبنی ہے۔ اِس آویزش کی جڑیں،اُن کی عطا کردہ گہری عصبیتیں اور اظہار کے پیرائے براہ راست بھی ہیں اور بالواسطہ بھی۔
آج کل تو مَیں عارف وقار کے بقول برطانیہ میں چند روزہ ’عیش و عشرت‘ کے لیے ہوں۔ البتہ نئی صدی سے پہلے یہاں بی بی سی سے وابستگی کے دوران سوشل سروے کے موضوع پر ایک کتاب نظر سے گزری تھی جسے ’ہدایت نامہء ریسرچر‘ کہنا چاہیے۔ آپ کا رہائشی علاقہ، گھر کے کمرے، بچے سرکاری سکول میں ہیں یا نجی تعلیمی ادارے میں، ہالی ڈے کہاں منائی جاتی ہے، علاج معالجہ نیشنل ہیلتھ سروس سے ہے یا پرایؤیٹ میڈیکل انشورنس لے رکھی ہے؟ اِن سوالات کی روشنی میں یہ پتا چلانا مقصود تھا کہ آپ مڈل کلاس ہیں یا ورکنگ کلاس۔ آگے معاملہ اِس سے بھی باریک تر تھا کہ اگر آپ مڈل کلاس ہیں تو یہ متوسط طبقے کی کونسی پرت ہے۔ آپ کا شام کی تفریح کا کیا تصور ہے۔۔۔ ٹی وی، سنیما، تھیٹر یا اوپیرا؟ ریستوراں میں کھانا کھا کر ادائیگی کرتے ہیں۔۔۔ نقد، چیک، بینک کارڈ یا امریکن ایکسپریس؟
یہ ریسرچ تھی تو مارکیٹنگ کے لیے مگر اِن کارروائیوں سے لوگوں کا روزگار بھی جُڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ جب ایک روز ایک عمر رسیدہ ریسرچر خاتون ہمارے یہاں پہنچیں تو ہم میاں بیوی نے اُن کے لمبے چوڑے سوالنامے کے جواب خوشدلی اور دیانتداری سے دیے۔ مثا ل کے طور پر یہ جواب کہ ہر صبح قدرے بائیں بازو رجحان کے حامل روزنامہ گارڈین کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں، فنانشل ٹائمز کا نہیں جسے پڑھ پڑھ کر انسان کمپنی ڈائرکٹر بن جاتا ہے۔اسی طرح ہمارا ہالیڈے کا تصور ذرا ’ہماتڑ‘ قسم کا تھا کہ جہاں جانے کو دل چاہا وہیں پیسہ بچانے کے لیے کوئی بے تکلف دوست یا رشتہ دار تلاش کر لیا۔ اب مجھے کیا خبر کہ یہ سیدھے سادے جوابات میرے پیشہ ورانہ رُتبے کے منافی ہیں اور اِن سے ریسرچ کے مجموعی رجحانات میں گڑبڑ ہو جائے گی۔خاتون نے پریشان ہو کر میرے جواب تو نہ کاٹے، البتہ نتائج کو سیدھا رکھنے کے لیے کہا: ”اگر برا نہ مانیں تو آپ کا عہدہ پروگرام پروڈیوسر کی بجائے اسسٹنٹ پروڈیوسر لکھ دوں۔“ مَیں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ساحر لدھیانوی کی نظم ’مادام‘ کی ایک لائن ہے کہ ’نور سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جِلا‘۔ اب برطانوی تمدن کی جِلا کے لیے سرمایہ نو آبادیات سے نہیں، مشرق وسطیٰ، مشرق بعید اور شمالی امریکہ سے آ تا ہے۔ اور تو اور، برطانوی یونیورسٹیاں سمندرپار طلبہ کی فیسوں سے چل رہی ہیں۔ تعلیمی مرکز اوکسفرڈ کے جس وسطی علاقے میں ہفتہ بھر آنا جانا رہا، وہاں کُل مِلا کر ٹائی کوٹ والے چھ جنٹلمین دکھائی دیے، وہ بھی خوردبین کی مدد سے۔ باہر کا پیسہ تمدنی شناخت ساتھ لے آتا ہے،چنانچہ انگریز آبادی، جس کی اکثریت ایک ایک ملین پاؤنڈ کا تھری بیڈ روم ہاؤس افورڈ نہیں کر سکتی، دھڑا دھڑ بڑے شہروں سے پسپا ہو رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں اسکاٹ لینڈ کے پہاڑوں میں دھکیل دی جائے۔ امریکہ کے ریڈ انڈین اور آسٹریلیا کے ابو ریجنل باشندوں کے ساتھ تاریخ نے یہی کچھ کیا تھا،مگر ہم تو صیاد سے مانوس لوگ ہیں۔ اندر سے دِل نہیں مانتا کہ پسپائی کے اِس عمل میں گورے کی انگریزی شناخت ہمیشہ کے لیے ِچھن جائے۔