ہارن کا بخار
پیں پیں پاں پاں ۔ یقینا آپ بھی حیران ہوں گے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا تو جناب ہارن کا بخار تو سمجھیں ہر چھوٹے بڑے سب کو ہے ۔ ہم کہیں بھی جا رہے ہوں یا کہیں سے آرہے ہوں ،ہارن بجانے کے شیدائی آپ کو ہرجگہ دکھائی دیں گے ۔ ان کوئی ان سے پوچھے کہ بھیا نہ تو ٹریفک بلاک ہے ،نہ ہی کوئی ایسی ایمرجنسی تو آخر آپ اتنا شور کیوں مچا رہے ہیں ؟
سٹرک پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہم سب کا قومی اور اخلاقی فرض ہے لیکن کیا ہم اسے پورا کر رہے ہیں ؟ اب اس چھوٹی سی بات کو ہی لے لیں ۔ یہاں ون ویلنگ اور جا بجا ہارن بجا کر تنگ کرنے والے بیرون ملک ٹریفک قوانین کی کتنی پابندی کرتے ہیں لیکن پاکستان میں وہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں ۔ مختلف شہروں میں سڑکوں کی تعمیر ومرمت کی وجہ سے ٹریفک بلاک رہتی ہے اور اس پر سونے پر سہاگہ کہ مختلف اقسام کے باجے بجتے رہتے ہیں اور تو اور ۔۔۔تنگ گلیوں اور لوگوں کے گھروں کے سامنے بھی ہارن بجانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
یہ نہیں سوچا جاتا کہ کوئی بیمار بھی ہو سکتا ہے ۔ ٹرک ، ٹرالے اور اسی طرح کی دوسری گاڑیوں میں تو پریشر ہارن نصب ہیں جو مسلسل بجائے جاتے ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی معصوم بچہ اپنی ماں سے بچھڑ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہا ہے ۔ میں نے لوگوں کو ایمبولینس کے پیچھے بھی زور زور سے ہارن بجاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس بخار کی وجہ سے نہ صرف حادثات رونما ہوتے ہیں بلکہ تو تو میں میں بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے سڑک پر چلنے والوں کو ایک مفت شو دیکھنے کو ملتا ہے ۔ جن افراد نے ہارن بجانا ہوتے ہیں، انھیں بالکل پرواہ نہیں ہوتی کہ کسی کے کان کے پردے پھٹیں یا کوئی اپنی جان سے جائے یا کوئی حواس باختہ ہو کر گاڑی نہ سنبھال پائے ۔
میں اپنے ملک کی ٹریفک پولیس کو برا نہیں کہوں گی کیونکہ شہریوں کی بھی کوئی ذمہ داری ہے ، موٹر وے پولیس اور ٹریفک پولیس اسلام آباد نے ایک مثال قائم کی ہے لیکن پانچوں انگلیاں برابر بھی نہیں ۔ ہمارے ہاں اگر دیکھا جائے تو آفٹر مارکیٹ ہارن کیوں آسانی سے دستیاب ہیں اور ان کا ہر تیسرا شخص کیوں استعمال کرتاہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کئی جگہ پر رشوت کا بازار گرم ہے، سو دو سو روپے دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے ۔ لوگ ایسی حرکات سے اس لئے بھی باز نہیں آتے کہ قوانین کی پابندی نہیں کروائی جاتی ۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میری نظر سے گذری جس میں یہ لکھا تھا کہ ویسٹ انڈین نیوین کنٹری گیانا میں کوئی لال بتی یا سگنل نہیں ،وہاں پولیس اہلکار لال بتی کا کام دیتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں کبھی ایمبولینس کے پیچھے ہارن نہیں دیا جاتا ، ہارن بجا بجا کر کسی کو خوف زدہ نہیں کیا جاتا ، سکولوں اور ہسپتالوں کے باہر ہارن نہیں دئیے جاتے ۔ آخر میں تمام ہارن بجانے والے حضرات سے گذارش ہے کہ ان ہارنوں سے ہمارا دل نہ جلائیں کیونکہ وہ مہنگائی نے پہلے ہی جلا کر بھون دیا ہے ۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔