سرکاری نوکری وقت نہیں

کسی بھی اخلاقی پیمانے پر یہ بات تو مسلمہ ہے کہ اگر آپ تنخواہ لیتے ہیں تو آپ کو مقررہ وقت تک ڈیوٹی بھی دینی چاہئے،کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے ہم نے سرکاری ملازمت کو ایک آباد نوکری سمجھ رکھا ہے۔ آج سے نہیں ہمیشہ سے، کسی سرکاری دفتر میں جائیں تو اکثر اہلکار غائب ہوں گے،غلطی سے آپ نے پوچھ لیا تو جو وہاں بیٹھا ہو گا وہ غصے سے جواب دے گا،وہ کہیں گیا ہوا ہے، آپ کا ذاتی نہیں سرکار کا ملازم ہے،جب بھی اس حوالے سے سختی کی جاتی ہے تو یونین کے جغادری رہنما لنگر لنگوٹ کس کے میدان میں آ جاتے ہیں، ہڑتال کرتے ہیں،مظاہرے کئے جاتے ہیں،جو کرنے کا کام ہے وہ نہیں کرتے،یعنی وقت پر آنا اور ڈیوٹی ٹائم ختم ہونے تک موجود رہنا۔یہ پاکستان ہی ہے جہاں ملازمین یونین یا ایسوسی ایشن میں اس لئے عہدیدار بنتے ہیں کہ ڈیوٹی سے بچ سکیں، میں ایسے کئی افراد کو جانتا ہوں جنہوں کے برسوں گذر گئے کوئی دفتری کام نہیں کیا،بس چودھراہٹ جمانے کی تنخواہ لیتے ہیں۔آج کل پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز سرکاری ہسپتالوں کے دورے کر رہی ہیں اور ہر دورے میں کسی ایم ایس یا پرنسپل کی چھٹی کرا دیتی ہیں اس پر خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے اور ڈاکٹروں کی تنظیمیں احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ڈاکٹروں کو پارسا بنا کے پیش کیا جاتا ہے،انہیں مسیحا بھی کہا جاتا ہے،مگر اس تلخ حقیقت کو کوئی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم سینئر ڈاکٹر بالکل وقت نہیں دیتے۔حیران کن حد تک اُن کا رویہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے وہ ڈیوٹی پر آنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اُن کے کمرے بھی ہسپتال میں مختص ہوتے ہیں اور عہدوں کی تختیاں بھی لگی ہوتی ہیں یہ تختیاں درحقیقت اُن کی پرائیویٹ پریکٹس کے لئے شکار پھانسنے کا کام دیتی ہیں وگرنہ اُن کی پریکٹس ڈیوٹی ٹائم میں کسی پرائیویٹ ہسپتال یا کلینک میں شروع ہو چکی ہوتی ہے اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے،اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہسپتالوں کا نظام سینئر ڈاکٹروں کی سرپرستی میں چلتا ہے۔ انہی کے ذمے یہ فریضہ ہوتا ہے کہ وہ جونیئر ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف کو ہسپتالوں میں حاضر رکھیں۔جب وہ خود ڈیوٹی نہیں کرتے تو نچلے عملے پر اُن کی اخلاقی گرفت کمزور ہو جاتی ہے۔پچھلے چند برسوں میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن معرض وجود میں آئی ہے اسے عرفِ عام میں وائی ڈی اے کہتے ہیں۔ یہ بڑی تگڑی اور منہ زور ایسوسی ایشن ہے۔بات بات پر ہڑتال کرتی، وارڈز بند کر دیتی اور ہسپتالوں کو تالے لگا دیتی ہے انہیں صرف سنیئر ڈاکٹرز کنٹرول کر سکتے ہیں،مگر وہ اس لئے نہیں کر سکتے کہ خود ڈیوٹی پر نہیں آتے۔اُن کی یہ اخلاقی کمزوری ہسپتالوں کے ڈسپلن کو سوالیہ نشان بنا دیتی ہے۔کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ ینگ ڈاکٹرز نے سینئر ڈاکٹروں کو کام کرنے سے روک دیا اور عملاً ہسپتالوں کا نظام خود سنبھال کر من مانی کرتے رہے۔
آج کل احتجاج اس نکتے پر ہو رہا ہے کہ پنجاب حکومت سرکاری ہسپتالوں کو آؤٹ سورس کرنا چاہتی ہے اس لئے وزیراعلیٰ مریم نواز اپنے دوروں کے ذریعے ہسپتالوں کی بدانتظامی کو اُجاگر کر رہی ہیں اِس کا جواب پنجاب حکومت کی ایک عہدیدار سلمیٰ بٹ نے یہ دیا ہے کہ آؤٹ سورس کا مطلب ہسپتالوں کو پرائیویٹائز کرنا نہیں، نہ ہی کسی ڈاکٹر یا ملازم کو بے روز گار کیا جائے گا۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ای گورننس کے ذریعے سب کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔لوگ ایک بار بھرتی ہو جاتے ہیں تو سالہا سال مفت کی تنخواہیں لیتے رہتے ہی ڈیوٹی پر نہیں آتے،اب ایسا نہیں ہو گا۔صبح آتے انگوٹھا لگانا پڑے گا اور جاتے ہوئے بھی بائیو میٹرک رخصتی ہو گی،کسی کو اگر یہ نظام منظور نہیں تو گھر جائے اور کوئی اور کام ڈھونڈے۔ دو روز پہلے مجھے ایک سرکاری ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر ملے، کہنے لگے آج کل کچھ سختی ہو گئی ہے اس لئے میل ملاقات کم ہو گی۔پوچھنے پر بتایا گریڈ انیس اور اوپر کے ڈاکٹروں کی ہسپتالوں میں بائیو مٹرک حاضری شروع ہو چکی ہے۔ ٹھیک وقت پر صبح انہیں ہسپتال پہنچ کر حاضری لگانا ہوتی ہے۔ہسپتال چھوڑنے سے پہلے بھی بائیو میٹرک ضروری ہے۔ میں نے کہا کیا واقعی اس پر عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا پنجاب حکومت نے ایک ایپ بنا دی ہے جو ہر ڈاکٹر کے موبائل پر ڈاؤن لوڈ ہو چکی ہے وہ جب تک اپنے ڈیوٹی مقام پر نہیں پہنچے گا ایپ کا بائیو میٹرک نظام ایکٹو نہیں ہو گا،وہاں پہنچ کر حاضری لگے گی تو لاہور میں اس کا ریکارڈ موجود ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب ہسپتال میں موجود ہیں، پھر کسی وقت بھی فون کر کے ان کی موجودگی کا پتہ لگایا جاتا ہے۔میں نے پوچھا یہ نظام 19ویں اور اوپر کے گریڈ والے ڈاکٹروں پر کیوں نافذ کیا گیا ہے۔ کہنے لگے اس کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ سینئر ڈاکٹرز جو اپنے شعبوں کے سربراہ بھی ہوتے ہیں اگر ہسپتال میں بروقت موجود ہوں گے تو جو جونیئر ڈاکٹرز اور دیگر طبی سٹاف خودبخود حاضر ہو جائے گا،دوسرا یہ کہ سب سے زیادہ شکایت سینئر ڈاکٹروں کے بارے میں ہی تھی کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں آتے،اس لئے اوپر سے آغاز ہوا ہے اور چند روز میں حالات خاصے بہتر ہو گئے ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ کل ایک سرکاری ہسپتال کے سربراہ نے تمام ڈاکٹروں،نرسوں اور طبی عملے کی ایک بڑی میٹنگ بلائی اور انہیں واضح لفظوں میں پیغام دیا، ڈیوٹی ٹائم میں حاضری یقینی بنائیں وگرنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ اُن کی غفلت کے باعث ایم ایس قربانی کا بکرا بن جاتا ہے۔
ہم نے نوٹوں پر لکھ دیا ہے”رزق حلال عین عبادت ہے“ لیکن یہ حلال کیسے ہوتا ہے اس پر توجہ نہیں دی،اب کچھ ایسی شہادتیں مل رہی ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے سرکاری اداروں میں رعایتی کلچر جو غفلت اور غیر ذمہ داری سے عبارت ہے، کم ہو رہا ہے۔حال ہی میں پنجاب حکومت کے محکمہ ہائر ایجوکیشن نے صوبے کے کالجوں میں نئے پرنسپل تعینات کئے ہیں۔غالباً انہیں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ صورتحال اور تعلیمی معیار کو بہتر بنائیں۔یہ پرنسپلز دن رات کالجوں کے حالات بہتر بنانے پر لگے ہوئے ہیں،داخلوں کے لئے جان توڑ محنت کر رہے ہیں اور تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے کوشاں ہیں،اچھی بات ہے کہ سرکاری سیکٹر بہتر ہو جائے،اس کے پاس اچھے کیمپسز بھی ہیں اور معیاری درسگاہیں بھی۔ فیکلٹی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ طلبہ و طالبات انہیں چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی کوٹھیوں میں قائم نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔والدین پر بوجھ پڑتا ہے اور اُن کے محدود وسائل پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دفتری نظام کا شعبہ درست ہو جائے تو عوام کی بڑی حد تک مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔اس طرف اگر توجہ دی جا رہی ہے تو اچھی بات ہے اور اس کی حمایت کی جانی چاہئے۔
٭٭٭٭٭