سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 24
غزنوی خاندان کے وادی سندھ پر اثرات
عموماً کہا جاتا ہے کہ ارض پاکستان میں غزنوی حکومت قائم ہونے سے کوئی دور رس مادی تبدیلیاں نہیں آئیں۔ نہ کوئی نئے آلات پیدا وار آئے‘نہ پرا نے آلات میں تبدیلی ہوئی اور نہ معاشی ڈھانچے میں کوئی ردو بدل ہو۔ صرف یہ فرق پڑا کہ بدھ مت جو اکثریتی مذہب تھا ختم ہو گیا اور اس کی جگہ اسلام آ گیا۔ گویا سارے بدھ مسلمان ہو گئے اور کافی ہندو بھی مسلمان ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں غزنوی عہد حکومت کا وادی¾ سندھ کو صرف ایک تحفہ ملا اور وہ ہے اسلام۔
بہرحال غزنوی عہد حکومت میں کافی تبدیلیاں ہمارے معاشرے میں آئیں جن کے اثرات آگے چل کر ناقابل تنسیخ ثابت ہوئے۔ لٰہذا ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
(1)وادی سندھ کی شیرازہ بندی
غزنوی دور میں ایک بار پھر ارض پاکستان کی اندرونی شیرازہ بندی ہوئی اور یہ خطہ ایک لڑی میں پرویا گیا۔ انتظامی‘معاشی‘سماجی‘ثقافتی اور لسانی طور پر یہ علاقہ جنوبی ایشیاءسے ایک بار پھر منفرد ہوا اور اس کا خود مختارانہ تشخص اجاگر ہوا۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(2)پیداواری نظام
غزنوی کے آنے سے پہلے معیشت کے دو بڑے شعبے تھے‘زراعت اور صنعت و حرفت لیکن پیداوار اندرون کھلی منڈی میں فروخت نہ ہوتی تھی۔ کسان اپنی پیداوار میں سے بقدرِ ضرورت اپنے پاس رکھتے تھے اور بیشتر حصّہ مقامی سرکاری افسر کو(جسے چودھری کہتے تھے) دے دیتے تھے۔ کچھ حصّہ مندروں اور وہاروں کو دیا جاتا تھا اور کچھ حصّہ دستکاروں کو۔ اس کے بدلے میں مندر اور وہار اپنی اپنی مذہبی عبادات اور تعلیمات کی خدمت سرانجام دیتے تھے اور دستکار سارا سال زرعی آلات اور کسانوں کی ضرورت کی دوسری چیزیں بنا کر اُنہیں دیتے رہتے تھے۔ اشیائے پیداوار میں ایک طرح کا بارٹر سسٹم تھا۔ اسی طرح سے چودھری کے پاس جو اناج جمع ہوتا تھا۔اس کا ایک حصّہ مقامی راجے اور پھر بادشاہ تک پہنچ جاتا تھا۔ زرعی آمدن میں سے حکمرانوں کو یہ حصّہ دینا بٹائی کہلاتا تھا۔ راجہ کے پاس اپنی فوج بھی ہوتی تھی۔ جب کبھی جنگ ہوتی تو یہ سب علاقائی سردار‘ٹھاکر‘جاگیردار اپنے اپنے راجہ کو فوج مہیا کرتے تھے بلکہ اپنی اپنی فوج لے کر خود جنگ میں شریک ہوتے تھے۔ مختلف تھیں اور یہ سب توسیع پسندی کی جنگیں انہی فصلوں سے حصّہ وصول کرنے کی خاطر ہوتی رہتی تھیں اور یہ سب توسیع پسندی کی جنگیں انہی فصلوں سے حصّہ وصول کرنے کی خاطر ہوتی رہتی تھیں اور یہ سب توسیع پسندی کی جنگیں تھیں تاکہ زیادہ زرعی زمین اور زیادہ علاقے پر قبضہ کریں پھر زیادہ سے زیادہ بٹائی وصول کریں۔ یہی وجہ ہے کہ راجہ سلطنت سازی کی کوشش کرتا رہتا تھا۔
غزنوی حکمرانوں نے بٹائی کی مقدار بڑھادی اور فوجی طاقت کے ذریعے ہر سال جبری بٹائی وصول کرتے تھے۔ سرکاری آمدن شاہی خزانے میں جانے کے علاوہ حکومت کے سول اور فوجی افسروں میں بھی تقسیم ہوتی تھی اور یوں شہری زندگی میں دولت کی ریل پیل ہو گئی جب کہ زراعت مزید پسماندہ ہو گئی اور کسان مزید بدحال ہو گئے لیکن دور دراز کی تجارت جو پہلے بہت کم تھی‘اب بہت زیادہ ہو گئی۔ شہروں میں غزنوی افسروں نے اپنے رہنے کے لئے شاندار محل تعمیر کرائے۔ یوں لاہور شہر جو ایک چھوٹا سا پسماندہ قصبہ تھا اور چھوٹے سے راجے کا صدر مقام تھا اب ایک شاندار بین الاقوامی شہر بن گیا۔ لاہور کی عظمت کا آغاز غزنویوں سے ہوتا ہے اور اس کی شان انہیں کی مرہون منت ہے۔
(3)اقطاعی نظام
غزنوی فوج کے تمام جرنیل اور بڑے افسر ترک غلام تھے۔ خود غزنوی خاندان بھی ترک تھا اور غلاموں کی اولاد سے تھا۔ غزنوی حکمرانوں نے تمام جرنیلوں کو زمینوں کے بڑے بڑے قطعات دے دیئے۔ اس پالیسی کو دہ اقطاع کہتے تھے۔ اقطاع کا لفظی مطلب ہے کاٹنا یا ٹکڑے کرنا اور اس سے مراد تھی۔ قطعہءزمین(زمین کا ٹکڑا) کسی کو دے دینا جس کو قطعہ دیا جاتا تھا اسے اقطاع دار یا مقطع کہتے تھے۔ اقطاع دار جرنیلوں کا فرض تھا کہ اپنے اقطاع کی خود حفاظت کریں۔ اس پر فصلیں کاشت کروائیں۔ اپنی فوج رکھیں۔ اپنی اور اپنی فوج کی معاشی ضرورتیں اسی اقطاع سے پوری کریں اور ہو سکے تو اردگرد فتوحات کرکے اپنا علاقہ پھیلانے کی کوشش کریں۔ ان جرنیلوں اور ان کی فوجوں کو غزنوی خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔
ظاہر ہے کہ یہ جاگیردارانہ نظام تھا جو سابقہ ہندو شاہی جاگیردارانہ نظام سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ لیکن ان معنوں میں زیادہ منظّم اور مربوط تھا کہ تمام اقطاع دار بادشاہ کے مقرر کردہ اور اسکے حکم کے تابع تھے اور انہیں دوسرے اقطاع داروں سے جنگ کرنے کی نہ کوئی ضرورت تھی اورنہ اجازت۔
(4)نئی اشرافیہ
پرانی ہندو اشرافیہ جو جاگیرداروں پر مشتمل تھی جنہیں ٹھاکر‘شاہ اور شاہی‘رائے کہتے تھے اس دور میں اقتدار سے خارج ہو گئی اور ان کی جگہ ترک افسروں پر مشتمل افسر شاہی کا ڈھانچہ بنایا گیا۔ یہ سارے ترک غلام تھے۔ جواب اقطا عدار بن گئے تھے اگرچہ معاشی ڈھانچہ پرانا ہی رہا لیکن انتظامی ڈھانچہ زیادہ مستعد اور مو¾ثر ہو گیا۔ کہیں کہیں پرانے سردار اپنے عہدوں پر قائم رہے اس اشرافیہ نے حسب نسب پر زیادہ زور دینا شروع کر دیا حالانکہ ان کا اپنا حسب نسب غلامی کی تاریکی سے نکلا تھا لیکن ان میں سے اکثر اپنا شجرہ¾ نسب وسط ایشیائ‘ایران اور افغانستان کے قدیم بادشاہوں سے جا ملاتے تھے جس کی وجہ سے نئی اشرافیہ کے لئے مغربی اور وسطی ایشیا کا ہونا ضروری ہو گیا تھا یا ضروری نہیں تھا تو کم از کم فخر کی بات تھی۔
(5)ترکوں کی سماجی علٰیحدگی پسندی
سلطان مسعود غزنوی نے وادی¾ سندھ میں متعین ترک افسروں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ مقامی لوگوں سے سماجی طور الگ تھلگ رہیں۔ مقامی افسروں سے میل جول نہ رکھیں۔ نہ ان کے ساتھ مل کر چوگان(پولو)کھیلیں اور نہ شراب کی محفلوں میں ان کو شریک کریں لیکن یہ حکم بھی تھا کہ ان کے جذبات مجروح نہ کریں اور انہیں حقیر سمجھنے کا رویہ بھی نہ اپنائیں۔
(6)عورتوں کا پردہ
سلطان مسعود ہی کے زمانے میں ترک افسروں کی بیگمات کے لئے پردہ اور برقع لازمی قرار دیا گیا غالباً برقع اسی زمانے کی ایجاد ہے اور اس سے پہلے ساری دنیا میں برقع کہیں نہیں تھا۔ ایک خیال ہے کہ پہلے ترک افسر مقامی افسروں سے میل جول رکھتے تھے اور اس میں کچھ خرابیاں پیدا ہوئیں۔ عورتوں کے سلسلے میں کچھ مشکلات پیدا ہوئیں جن سے بچنے کے لئے برقع متعارف کرایا گیا۔ اس سے ایک فوری مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس کا ایک دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ اونچے طبقے کی عورتیں بھی سماجی محکومی میں چلی گئیں جوکہ پہلے اس حد تک پابند نہیں تھیں۔
(7)تجارت
غزنوی دور میں لمبے فاصلے کی تجارت کافی پھیل گئی۔ اس زمانے میں تجارت کا اتنا زور تھا کہ برہمن بھی تجارت کرنے لگے تھے مگر وہ خود سامنے آنے کی بجائے کسی تجارت پیشہ آدمی کے نام پر تجارت کرتے تھے جب کہ خود پردے میں رہتے تھے کیونکہ پرانے غلام دار قبائلی نظام میں تجارت کی صرف ویشوں کو اجازت تھی۔ باقی ذاتوں کے لئے اس کی ممانعت تھی۔ البیرونی برہمنوں کے در پردہ تجارت میں حصّہ لینے کا ذکر کیا ہے۔
(8)وادی سندھ غیر ملکی اشیاءکی منڈی
غزنویوں سے پہلے شاہی خاندان کے زیر اثر شہروں اور عام آبادیوں سے دور اونچے پہاڑی قلعوں مین رہنے والے جاگیردار بیشتر زرعی پیداوار دیہاتوں سے وصول کرتے تھے اور اس پیداوار کے بل بوتے پر وہ اپنے شاندار محل اور قلعے تعمیر کرتے تھے لیکن صنعتی پیداوار دستکاریوں کی شکل میں اپنے اپنے علاقے کے اندر محدود تھی اور اس کی تجارت نہ ہوتی تھی۔ غزنویوں نے پرانے جاگیرداروں کو تو ختم کر دیا اور ان کی جگہ اپنے جرنیلوں کو تعینا کیا لیکن جہاں کہیں مقامی جاگیرداروں نے اطاعت قبول کرلی۔ ان کی زرعی پیداوار میں اپنا سالانہ حصّہ مقرر کر دیا۔ اس طرح وصول ہونے والی دولت کا بیشتر حصّہ پہلے غزنی میں اور سلطان محمود کی شہادت کے بعد لاہر کی تعمیرات پر خرچ ہوا۔
غزنوی دور میں وادی¾ سندھ کے شہروں میں دولت کی ریل پیل زرعی استحصال پر مبنی تھی۔ غزنویوں نے اس دولت کو صنعتی پیداوار بڑھانے یا زراعت کو ترقی دینے پر استعمال نہ کیا بلکہ نئی اشرافیہ کے شاہانہ طرز رہائش پر خرچ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وادی¾ سندھ کے شہر ایرانی اور شمالی ہندوستان کی اشیاءکی منڈی بن گئے۔ غزنوی دور وادی¾ سندھ میں بے تحاشا درآمدات کا زمانہ ہے۔ ان ایرانی اشیاءکے ساتھ ایرانی کلچر بھی قدرتی طور آتا رہا۔
(جاری ہے)